دہلی

ہندوستانی مسلمان، ہندوؤں کے ایس سی، ایس ٹی گروپس کے مقابلہ میں بھی کمتر سطح پر: سروے

اخبار ہندوستان ٹائمز کی جانب سے کیے گئے ایک سروے کے مطابق مسلمان‘ ہندوستان میں غریب ترین مذہبی گروپ ہیں۔ دو حصوں پر مشتمل ڈاٹا سیریز کے پہلے حصہ میں مسلمانوں اور دیگر کے درمیان بین مذہبی عدم مساوات کا جائزہ لیا گیا اور پتہ چلا کہ وہ لوگ بھی ہندوستان کے ہندوؤں جتنے ہی غیرمساوی سماج ہیں۔

کولکتہ: اخبار ہندوستان ٹائمز کی جانب سے کیے گئے ایک سروے کے مطابق مسلمان‘ ہندوستان میں غریب ترین مذہبی گروپ ہیں۔ دو حصوں پر مشتمل ڈاٹا سیریز کے پہلے حصہ میں مسلمانوں اور دیگر کے درمیان بین مذہبی عدم مساوات کا جائزہ لیا گیا اور پتہ چلا کہ وہ لوگ بھی ہندوستان کے ہندوؤں جتنے ہی غیرمساوی سماج ہیں۔

عدم مساوات کے یہ پیمانے ہمیں مسلمانوں کی دیگر مذہبی گروپس کے مقابل مادّی خوشحالی کے بارے میں نہیں بتاتے۔

متعلقہ اعداد و شمار کے تجزیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمان ملک میں کمزور ترین مذہبی گروپ ہیں۔ آل انڈیا ڈیبٹ اینڈ انوسٹمنٹ سروے (اے آئی ڈی آئی ایس) اور پیریاڈک لیبر فور سروے (پی ایل ایف ایس) سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے پاس بہت کم اثاثے ہیں، جب کہ ان کے مصارف زیادہ ہیں۔ مسلمانوں کے مصارف اور اثاثوں کی قدر کل ہند اوسط کے مطابق 87.9 فیصد اور 79 فیصد ہے، جب کہ ہندوؤں کے لیے 87.8 فیصد اور 79.3 فیصد ہے۔

ایسے مذہبی گروپس کو جن کی آبادی ایک فیصد سے کم ہے، انہیں ”دیگر“ کے زمرے میں شامل کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان میں غریبوں کی آبادی کے لحاظ سے ان کی آبادی سب سے زیادہ ہے۔ اکثر و بیشتر خبردار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مسلمانوں کی آبادی ہندوستان کے دیگر مذہبی گروپس کے مقابلہ میں زیادہ تیزرفتاری سے بڑھ رہی ہے، جب کہ ایسی زیادہ تر خبریں غلط معلومات کی بنیاد پر دی جاتی ہیں۔

مسلمانوں میں اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والے بھی ہندوؤں کے دیگر پسماندہ طبقات کے مقابلہ میں زیادہ غریب ہیں۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے اثاثوں اور مصارف کی اقدار کے تقابل سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے۔ غیر ایس سی / ایس ٹی / او بی سی مسلمانوں کے اثاثوں کی اوسط قدر نہ صرف غیر ایس سی / ایس ٹی / او بی سی ہندوؤں کے اثاثوں کی اوسط قدر سے کم ہے بلکہ ہندوؤں کے دیگر پسماندہ طبقات کے مقابلہ میں بھی کم ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے اونچے طبقات کے پاس غیرمتناسب معاشی طاقت ہونے کے دعوے سچ نہیں ہیں۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی معاشی پسماندگی کی بنیادی وجہ روزگار اور تعلیمی مواقع میں کمی ہے۔ پی ایل ایف ایس سے ورکرس (چاہے وہ باقاعدہ اجرت پانے والوں ہوں، خودروزگار ہوں یا رسمی ورکر ہوں) کے موقف اور ان کی صنعت کی نوعیت (جیسے سرکاری، عوامی اور پرائیوٹ لمیٹڈ کمپنیز) کے بارے میں پتہ چلتا ہے جہاں کوئی ورکر ملازم ہو۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غیر ایس سی / ایس ٹی / او بی سی مسلمانوں کا بھی باقاعدہ ملازمتوں میں حصہ کم ہے۔ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے مقابلہ میں ایسی ملازمتوں میں جہاں اوسط اجرت زیادہ ہوتی ہے، مسلمانوں کا حصہ کم ہے۔ ہندوؤں کی ذاتوں کے گروپس کے ساتھ تقابل سے ظاہر ہوتا ہے کہ غیر ایس سی / ایس ٹی / او بی سی مسلمان، ہندوؤں کے ایس سی اور ایس ٹی گروپس کے مقابلہ میں کسی طرح بہتر ہیں۔

سرکاری ملازمتوں کے معاملہ میں مسلمانوں کا حصہ اور بھی کم ہے۔ سچر کمیٹی اور دیگر نے بھی اس حقیقت کی نشاندہی کی تھی۔ ہندوستان میں بہتر ملازمتوں میں مسلمانوں کا حصہ کم ہونے کی وجہ بھرتی کے عمل میں امتیاز برتا جانا ہی واحد وجہ نہیں بلکہ یہ تعلیمی لحاظ سے مسلمانوں کی پسماندگی کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے۔

پی ایل ایف ایس ڈاٹا کا ہندوستان ٹائمز کی جانب سے تجزیہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہندوستان میں گریجویشن کی ڈگری رکھنے والے مسلم لیبر فورس کی تعداد دیگر مذاہب کے مقابلہ میں کافی کم ہے۔