حیدرآباد

کے سی آر کیخلاف قانونی چارہ جوئی۔ بی جے پی قیادت کا غور

بی جے پی کے ذریعہ کے مطابق کے سی آر کی پریس کانفرنس کے بعد امیت شاہ اور بی ایل سنتوش کے درمیان بات چیت ہوئی ہے۔ پارٹی کی جانب سے ان الزامات پر کس طرح ردعمل ظاہر کیا جانا چاہئے، کے مسئلہ پر قانونی رائے حاصل کی جارہی ہے۔

حیدرآباد: بی جے پی کی اعلیٰ قیادت، چیف منسٹر تلنگانہ و ٹی آر ایس سربراہ کے چندر شیکھر راؤ کے خلاف قانونی کاروائی کرنے پر غور کررہی ہے۔ گذشتہ روز کے چندر شیکھر راؤ نے پرگتی بھون میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بی جے پی قیادت پر سنگین الزامات عائد کئے تھے۔

 حالیہ عرصہ میں چیف منسٹر مغربی بنگال ممتا بنرجی نے بھی بی جے پی پر عوام کی جانب سے منتخبہ حکومتوں کو گرانے کا الزام عائد کیا تھا۔ گذشتہ روز چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کا نام لیکر الزامات عائد کئے تھے۔

 بی جے پی کے ذریعہ کے مطابق کے سی آر کی پریس کانفرنس کے بعد امیت شاہ اور بی ایل سنتوش کے درمیان بات چیت ہوئی ہے۔ پارٹی کی جانب سے ان الزامات پر کس طرح ردعمل ظاہر کیا جانا چاہئے، کے مسئلہ پر قانونی رائے حاصل کی جارہی ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق عنقریب اس موضوع پر مزید دھماکہ خیز مقابلہ آرائی کا امکان ہے۔

بتایا جارہا ہے کہ پارٹی یہ پتہ چلانے میں مصروف ہے کہ آخر یہ سوامی ہے کون؟۔ پارٹی قیادت کی جانب سے تمام پہلوؤں پر غور کیا جارہا ہے۔ قانونی چارہ جوئی کی صورت میں ابھر نے والے حالات اور نتائج پرباریک بینی سے غور کیا جارہا ہے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹی آر ایس خود کو مظلوم ثابت کرتے ہوئے کایا پلٹ سکتی ہے۔ اس لئے امکانی نتائج کے متعلق بھی کافی باریک بینی سے جائزہ لیا جارہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کے سی آر نے اس مسئلہ میں خود کو اتنا ڈبو دیا ہے کہ وہ راست طور پر وزیر اعظم سے ہی ملزمین کے خلاف کاروائی کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔

کے سی آر کا کہنا ہے کہ ملزمین نے متعدد مرتبہ امیت شاہ، بی ایل سنتوش اور نریندر مودی کا نام لیا تھا۔ اس لئے مودی کو ضروری اقدامات کرتے ہوئے اس واقعہ میں ملوث تمام ملزمین کو گرفتار کروانا چاہئے نیز سارے معاملہ کی تہہ تک جانے کے لئے جامع تحقیقات کروانا ضروری ہے۔

 یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ گذشتہ روز پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف منسٹر کے سی آر نے وزیر اعظم مودی سے اپیل کی تھی کہ وہ عوام کو خوف میں مبتلا کرتے ہوئے حکومتوں کو گرانے سے گریز کریں۔

انہوں نے وزیر اعظم سے جاننا چاہا تھا کہ وہ ایسا کرتے ہوئے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں جبکہ وہ پہلے ہی دوبارہ وزارت عظمی کے عہدے پر فائز ہوچکے ہیں۔

دوسری طرف بی ایل سنتوش نے ابھی تک ان الزامات پرردعمل ظاہر نہیں کیا۔ وہ ٹوئٹر پر عام آدمی پارٹی کی جانب سے لگائے جارہے الزامات کا تو جواب دے رہے ہیں مگر ٹی آر ایس کے الزامات پر معنیٰ خیز خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔