حیدرآباد

پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں صرف پنڈتوں کو لے جانا افسوسناک: اسد الدین اویسی

صدر مجلس اتحاد المسلمین و رکن پارلیمنٹ حیدرآباد بیرسٹر اسد الدین اویسی نے پارلیمنٹ کامپلیکس کے افتتاح کے لئے ہندو پنڈتوں کو مدعو کرنے پر وزیر اعظم نریندر مودی پر تنقید کی۔

حیدرآباد: صدر مجلس اتحاد المسلمین و رکن پارلیمنٹ حیدرآباد بیرسٹر اسد الدین اویسی نے پارلیمنٹ کامپلیکس کے افتتاح کے لئے ہندو پنڈتوں کو مدعو کرنے پر وزیر اعظم نریندر مودی پر تنقید کی۔

متعلقہ خبریں
حیدرآباد میں پولیس کی جانب سے ہوٹلوں کو رات 11 بجے بند کروانے کی شکایت : احمد بلعلہ
مجلس کو ختم کرنے کا الزام: اکبر الدین اویسی
حیدر آباد کو بھاگیہ نگر بنانے بی جے پی امیدوار مادھوی لتا کی مہم
مجلس کے رکن پارلیمنٹ امتیاز جلیل کا لوک سبھا انتخابات سے متعلق اہم فیصلہ
اکبرالدین اویسی مجلس کے فلورلیڈر مقرر

انہوں نے آج کہا کہ وزیر اعظم نے پارلیمنٹ کی نئی عمارت کے افتتاح کے موقع پر صرف ایک مذہب کے لوگوں کو اندر لے گئے۔ انہیں ہر مذہب کے لوگوں کو ساتھ رکھنا چاہئے تھا چونکہ وہ 130 کروڑ بھارتیوں کے وزیراعظم ہیں نہ کہ صرف ہندؤں کے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اتوار کو پارلیمنٹ کے نئے کامپلیکس کا افتتاح کرناٹک کے شرینگری مٹ کے پنڈتوں کے ویدک اشلوکوں کی گونج میں کیا تھا۔

انہوں نے ’سینگول‘ کے سامنے ڈنڈوت کیا اور تامل ناڈو کے مختلف ادھیناموں کے پجاریوں کا آشیرواد حاصل کیا۔ وزیر اعظم نے نداسورم کے سروں اور منتروں کی گونج میں جلوس کی شکل میں ’سینگول‘ کو پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں لے گئے اورلوک سبھا چیمبر میں اسپیکر کی کرسی کے دائیں جانب نصب کیا۔

بیرسٹر اویسی نے تقریب کے دوران ہندو پجاریوں کو ساتھ لے جانے پر وزیر اعظم پر تنقید کی تھی۔ انہوں نے کہا ”پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا افتتاح ہوا اور میں نے ٹیلی ویژن پر دیکھا کہ وزیراعظم پارلیمنٹ کے اندر جارہے ہیں اور 18-20 پجاری منتر کا ورد کرتے ہوئے ان کے ہمراہ ہیں۔

وزیراعظم آپ نے صرف ہندو پجاریوں کو ساتھ لیا۔ وزیر اعظم نے عیسائی راہب‘ مسلم عالم دین اور دیگر مذاہب کے پیشواؤں کو اندر کیوں نہیں لے گئے؟“اویسی نے یہ بھی واضح کیا کہ وہ پارلیمنٹ کی عمارت کے افتتاح میں اس صورت میں شرکت کرتے تھے جب اسپیکر لوک سبھا اس کا افتتاح کئے ہوتے۔

بیرسٹر اویسی نے کہا کہ وہ مرکزی آرڈیننس کے خلاف چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال کی جدوجہد کی تائید نہیں کرتے چونکہ ہو سخت ہندوتوا پر عمل پیرا ہیں۔ کجریوال قومی دارالحکومت میں خدمات پر کنٹرول کے لئے مرکز کے آرڈیننس کے خلاف اپوزیشن قائدین کی حمایت طلب کررہے ہیں۔ صدر مجلس نے کہا ”کجریوال نے آرٹیکل 370 پر بی جے پی کی کیوں حمایت کی تھی؟

اب وہ کیوں بلبلارہے ہیں؟ میں کجریوال کی تائید کرنے والا نہیں ہوں چونکہ وہ نرم ہندوتوا نہیں بلکہ سخت ہندوتوا پر عمل پیرا ہیں۔“جب آرٹیکل 370 کو 5 /اگست 2019 ء کو برخاست کیا گیا تھا تو اروند کجریوال نے بی جے پی کی زیر قیادت مرکز کے فیصلہ کی تائید کی تھی۔ انہوں نے ٹوئٹ کیا تھا کہ ’ہم جموں و کشمیر پر حکومت کے فیصلہ کی تائید کرتے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اس سے ریاست میں امن اور ترقی ہوگی۔‘

بیرسٹراویسی نے کانگریس قائد راہول گاندھی کے مسلمانوں کی سلامتی پر دئیے گئے بیان پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ راہول گاندھی سے مسلمانوں کے بارے پوچھا گیا اور وہ دلت کی بات کرتے ہیں۔ ان کی سرکار کے دوران ہی مسلمانوں کے خلاف کئی وارداتیں پیش آئیں‘ سکھوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ چھتیس گڑھ میں ان کی حکومت ہے اور وہاں دھرم سنسد ہوتا ہے۔

راہول گاندھی نے کیلیفورنیا میں منگل کو غیر مقیم بھارتیوں سے خطاب کیا اور اس دوران بھارت میں مسلمانوں کے تحفظ کے سوال پر انہوں نے کہا جس طرح مسلمانوں کو لگ رہا ہے کہ ان پر حملہ ہورہا ہے‘ میں گیارنٹی دے سکتا ہوں کہ سیکھ‘ عیسائی‘ دلت‘ ادی واسی بھی ایسا ہی محسوس کررہے ہیں۔ اس لئے ہم محبت کی دکان کھول رہے ہیں۔ نفرت کو نفرت سے نہیں کاٹا جاسکتا۔

بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ آج جو ہورہا ہے وہ 1980 کے دہے میں دلتوں کے ساتھ ہوا تھا۔ بیرسٹر اویسی نے پہلوانوں کے احتجاج پر بھی بی جے پی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ دہلی پولیس نے کہہ دیا کہ ان کے پاس ثبوت نہیں ہیں۔ جب سی آئی اے پر احتجاج ہورہا تھا‘ جب شاہین باغ ہورہا تھا کہ تب سب لوگ بیٹھ کر تماشہ دیکھ رہے تھے۔ جب کسانوں کا احتجاج ہورہا تھا تب سب لوگ بیٹھ کر تماشہ دیکھ رہے تھے۔

اب دیکھئے کیا ہورہا ہے۔ سرکار کی وزیر بہبود خواتین خاموش بیٹھی ہیں۔ پہلوانوں کے معاملے پر اب دہلی پولیس اور مرکزی حکومت کو ہی بتانا ہوگا۔ انہوں نے پارلیمانی حلقوں کے ازسر نو حدبندی کے مسئلہ پر کہا کہ بڑی آبادی والی ریاستوں اور جنوب کی چھوٹی ریاستوں میں فرق ہے اور اس سے جنوب کی ریاستوں کو نقصان ہوگا۔ بی جے پی کو اپنا مؤقف واضح کرنا چاہئے۔ ملک کی 50 فیصد آبادی تین چار ریاستوں میں ہوگی اور یہ یہ حد بندی جدوجہد کی ایک وجہ بنے گی۔