سیاستمضامین

عوام احتجاج پر اترسکتی ہے‘ ملک کی معیشت دگرگوں

سلیم احمد

پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں مفادِ عامہ کے تحت ملک کی قومی و علاقائی سیاسی جماعتوں کی جانب سے گزشتہ دو دن سے جی ایس ٹی کے خلاف احتجاج جاری ہے ۔ عام گھریلو ضروریات کے لئے استعمال کی جانے والی اشیاء چاول‘ آٹا‘ دودھ‘ دہی‘ کے علاوہ دیگر کئی اشیاء پر پانچ فیصد جی ایس ٹی مرکزی حکومت کی جانب سے ڈبہ بند اشیاء پر مذکورہ ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ جبکہ کھلی اشیاء پر ٹیکس نہیں ہوگا۔ ملک پہلے ہی کورونا کے بعد سے معاشی طور پر غیر مستحکم ہے۔ عام آدمی کا گزر بسر انتہائی مشکل ہوچکا ہے۔ روزگار سے محروم غریب اور متوسط طبقہ کے افراد کے لئے جینا دوبھر ہوگیا ہے۔ اس پر مزید آفت مرکزی حکومت کی جانب سے عائد کیا جانے والا ٹیکس عام آدمی کی کمر توڑ ڈالے گا۔ حکومت کی جانب سے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے بجائے عوام پر مزید مہنگائی کا بوجھ ڈالا جارہا ہے۔ اس کو گبر سنگھ ٹیکس سے معنون کرتے ہوئے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں جاری احتجاج پر عام آدمی فکر مند ہے۔ واضح رہے کہ فلم شعلے میں ویلن کی جانب سے عوام پر زبردستی ٹیکس کے طور پر اناج کی وصولی کی جاتی ہے۔ اسی منظر کے مماثل مرکزی حکومت کا رویہ ہے اور ملک کی اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے مذکورہ احتجاج طویل عرصہ تک جاری رہنے کے امکانات ہیں۔ مرکزی حکومت کو چاہیے کہ وہ عوام مخالف فیصلہ کو فی واپس لے ۔ کیوں کہ جی ایس ٹی عوام کے مفاد میں نہیں ہے۔ ملک کی بگڑتی معیشت اور روپے کی ڈالر کے مقابلے میں قدر ملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ اسی روپیوں کو پار کرچکی ہے۔ این ڈی اے حکومت کی جانب سے آٹھ سالہ دور اقتدار کا اگر جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ مرکزی حکومت پچاس لاکھ کروڑ روپیوں کی مقرو ض ہے۔ اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ مرکزی حکومت عوام پر مزید بوجھ ڈال رہی ہے۔
مرکزی حکومت کی جانب سے تلنگانہ حکومت پر دباؤ بنایا جارہا ہے کہ وہ مزید مقرض حاصل نہیں کرسکتی۔ ایف آر بی ایم مالیاتی ذمہ داری اور بجٹ کا انتظام Financial responsibility and budget managment Act. کے تحت ہے۔
کسی ملک یا ریاست کی خالص گھریلو آمدنیGDP اور اس کے اخراجات کے درمیان توازن برقرار رہے ۔ کسی ملک یا ریاست اگر قرض کے حصول کی خواہشمند ہو تو وہ اپنی مجموعی آمدنی اور خرچ کے لحاظ سے تین فیصد قرض حاصل کرسکتی ہے۔ مذکورہ FRBM ایکٹ کو سال2003ء کے دوران واجپائی زیر قیادت حکومت میں عمل میں لایا گیا تھا۔ بعد ازاں سال2019ء کے بعد کورونا وباء کی بناء مذکورہ ایکٹ میں ترمیم عمل میں لاتے ہوئے قرض کی حد کو ساڑھے چارفیصد بڑھایا گیا اور اس کی سالانہ ایک فیصد بتدریج کمی کی جائے گی۔
اب مرکزی حکومت کی جانب سے ریاست تلنگانہ پر قرض کے حصول کے لئے تحدیدات عائد کی گئی ہیں۔ دوسری جانب مرکز اپنے آٹھ سالہ دور اقتدار میں ابتک پچاس لاکھ کروڑ روپیوں کا قرض حاصل کرچکا ہے۔ اس کے علاوہ مرکزی عوامی شعبہ کے اداروں کو خانگیانے کی رفتار کافی تیز تر ہے ۔ مرکزی حکومت کے زیر انتظام اداروں کی املاک کو فروخت کردیا جارہا ہے۔ عوام کو روزگار فراہم کرنے کی پالیسی سے اختلاف کرتے ہوئے اگنی پتھ اسکیم کا آغاز کیا گیا ۔ مذکورہ اسکیم کے تحت اب ایک نئی بات یہ سامنے آئی ہے کہ قاعدہ کے برخلاف مرکزی حکومت ذات کا صداقت نامہ نوجوانوں سے طلب کررہی ہے۔ جس کی شدید مخالفت اپوزیشن جماعتوں کے علاوہ این ڈی اے میں شامل جماعتوں اور بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ ورون گاندھی نے بھی کی پارٹی قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کی۔
تلنگانہ میں گوداوری میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے دوران کے سی آر نے اپنے دورہ کے موقع پر سیلاب کی وجہ سے مستقبل میں پیش آنے والی دشواریوں کے خاتمہ کے لئے ایک ہزار کروڑ روپیوں پر مشتل پیکیج کا اعلان کیا۔ اس موقع پر کے سی آر نے نہ صرف فضائی سروے کے ذریعہ بارش کی وجہ سے پیش آئی تباہ کاریوں کا مشاہدہ کیا بلکہ انہوں نے مقامی عوام سے ملاقات بھی کی اور بذریعہ کار سفر کرتے ہوئے عوام سے معلومات حاصل کیں اور عوام کے جم غفیر سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سیلاب کی وجہ بادل کے پھٹ پڑنے کے پیچھے کسی بیرونی طاقت کے کارفرما ہونے کا شبہ ظاہر کیا۔
کے سی آر کی جانب سے کئے گئے فضائی سروے اور بنا کسی ٹکنیکل ٹیم جو کہ بارش کی تباہ کاریوں کا جائزہ لینے کے بعد نقصانات کا اندازہ لگاتی ہے دوسرے یہ کہ اونچے مقام پر عوام کے لئے مکانات کی تعمیر کا اعلان کئے جانے پر تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ خاص طور پر بی جے پی کی جانب سے یہ کہا جارہا ہے کہ چندرشیکھر راؤ کے پاس ملازمین سرکار اور وظیفہ یاب طبقہ کے لئے تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے رقم دستیاب نہیں ہے وہ پھر کہاں سے ایک ہزار کروڑ کی خطیر رقم بارش سے تباہ کالونیوں کے علاوہ نئے مکانات کی تعمیر پر خرچ کریں گے۔ دوسرے یہ کہ بادل کے اچانک پھٹ پڑنے کے واقع پر کے سی آر کی منطق کی تمام سیاسی جماعتوں کے سرکردہ قائدین کے لئے بلکہ عوام کے لئے بھی ناقابل فہم ہے۔ اس ضمن میں ریاست تلنگانہ کے تمام سرکردہ سیاسی جماعتوں کے قائدین کی جانب سے اظہار خیال کرتے ہوئے کے سی آر کے خیال کا مضحکہ اڑایا بلکہ ان کے خیال کو عقل سے عاری بھی قراردیا گیا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ حالیہ عرصہ میں ہوئی بارش کی تباہ کاریوں میں کالیشورم پراجکٹ جہاں بڑی موٹروں کے ذریعہ نچلی سطح پر پانی کو اوپر کی جانب پمپ کیا جاتا ہے ان موٹروں میں بارش کا پانی داخل ہوجانے کی وجہ سے وہ ناکارہ ہوچکی ہیں۔ ان موٹروں کی دبارہ درستگی اور بحالی کے لئے حکومت کو پانچ سو کروڑ روپیوں سے زیاہ صرفہ آنے کے امکانات بتائے جارہے ہیں۔
کے سی آر کے ساتھ شاید ایسا پہلی بار ہوا کہ وہ عوام سے خطاب کے دوران اس طرح کا بیان دیئے ہوں اور انہیں اگر اپنے بیان کو ثابت کرنے کے لئے کہ بادل پھٹ پڑنے کے پیچھے کونسی طاقتیں کارفرما ہیں دلیلوں کے ذریعہ اگر وضاحت کرتے تو بات قابل فہم تصور کی جاسکتی تھی ۔ اب چندرشیکھر راؤ کے خلاف کوئی نہ کوئی سیاسی قائد کا بیان جاری ہونا عام بات ہوچکی ہے۔ کے سی آر کی جانب سے اس ضمن میں وضاحت نہ کرنا قابل تعجب ہے۔
ماضی میں اکثر دیکھنے یا سننے میں آتا رہا ہے کہ ملک میں کسی مقام پر کوئی انہونی رونما ہوجائے یا پھر کسی مقام پر کوئی واردات پیش آئے تو بناء کوئی لمحہ ضائع کئے یہ کہا جاتا کہ فلاں بیرونی تنظیم کا اس واقعہ میں ہاتھ ہے اور فلاں پڑوسی ملک کا اس حادثہ میں ہاتھ ہے۔ بعد میں پتہ چلتا ہے کہ تو اس واقعہ میں انٹلی جنس محکمہ کی ناکامی قراردے دیاجاتا ہے ۔ لیکن کے سی آر کی جانب سے آج کل ان کے ازلی دشمنوں میں بی جے پی شمار کی جانے لگی ہے۔ کے سی آرکہنا چاہ رہے تھے لیکن ان کی زبان سے کچھ اور نکل گیا۔
ملک کی تمام اپوزیشن جماعتیں ملک میں برسراقتدار این ڈی اے کے خلاف جی ایس ٹی کے خلاف یکجا ہوکر اپن اتحاد کا ثبوت تو دے رہی ہیں لیکن اب یہاں یہ بات توجہ طلب ہے کہ آیا وہ مرکزی حکومت کے سخت گیر موقف کے سامنے ڈٹ کر مقابلہ کرپائیں گے ۔ کیوں کہ مرکز اپنے فیصلہ پر عمل آوری کو یقینی بناتے ہوئے اپنی تمام تر سیاسی طاقت جھونکتے ہوئے ہمیشہ اپوزیشن جماعتوں کے منصوبوںکو ناکام بنانے کی حکمت عملی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔
مرکزی حکومت کو پہلی بار ملک کے کسانوں کی جانب سے دباؤ بناتے ہوئے مرکزی حکومت کو اپنے مخالف کسان فیصلوں کو واپس لینے پر مجبور کیا گیا جبکہ اس احتجاج کے دوران تقریباً آٹھ سو کے قریب کسانوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑاتھا۔ بالآخر این ڈی اے حکومت کسانوں کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئی ۔اب ملک میں عام آدمی کی زندگیوں کو مرکزی حکومت کی جانب سے داؤ پر لگادیا گیا ہے ۔ ملک ہر قومی و علاقائی جماعتوں کو عوام کے بہتر مستقبل اور ملک میں بڑھتی مہنگائی کی مار سے بچانے کے لئے آگے بڑھنا ہوگا۔
اگر سیاسی جماعتیں عوام کے مفاد میں پارلیمنٹ کے ایوانوں کے علاوہ عوامی سطح پر ا حتجاج کو منظم کریں ۔ اگر احتجاج شدت کے ساتھ جاری رکھا جائے تو اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ این ڈی اے حکومت عوام کے مفاد کو ملحوظ رکھتے ہوئے جی ایس ٹی کی شرح کو بالکلہ طور پر ختم کردے گی۔
عام احتجاج میں کتنی طاقت ہوا کرتی ہے اس بات کا اندازہ ایک معمولی واقعہ سے لیا جاساتا ہے۔ اترپردیش میں ایک صفائی ملازم کو محض اس لئے اس کی نوکری سے نکال دیا گیا کہ اس نے کوڑے میں پھینکی گئی وزیراعظم مودی کے علاوہ چیف منسٹر یوگی کی تصاویر کو کچرے میں شامل کرتے ہوئے اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہا تھا۔ اس کی ویڈیو دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہوگئی۔ مودی اور یوگی کی تصاویر کو کوڑے کے ڈبہ میں لیجانے کی پاداش میں مذکورہ ملازم کو نوکری سے فوراً بے دخل کردیاگیا۔اس واقعہ پر اترپردیش ریاست کے تمام صفائی ملازمین کی جانب سے صفائی روک دیئے جانے کا ا علان کردیا گیا۔ بحالت مجبوری اس ملازم کو دوسرے ہی دن بحال کردیا گیا۔
احتجاج میں سچائی اور بھر پور اتحاد کا مظاہرہ کیا جائے تو کامیابی ضرور حاصل ہوگی۔ مرکزی حکومت کے عوام دشمن اور آمرانہ فیصلوں کے خلاف ملک کی تمام اپوزیشن جماعتوں کو چاہیے کہ وہ ملک کے عوام کے مفاد میں احتجاج میں شدت پیدا کریں اور تاوقتیکہ این ڈی اے حکومت جی ایس ٹی پر اپنا فیصلہ واپس نہیں لے لتیں۔