سوشیل میڈیا

ہندوستان میں سوشل میڈیا سے متعلق قوانین کافی سخت: ایلون مسک

ایلان مسک نے ٹوئٹر اسپیسس پر بی بی سی کے ساتھ براہِ راست نشر ہونے والے ایک انٹرویو میں کہا کہ میں اس مخصوص صورتِ حال سے واقف نہیں ہوں۔ میں نہیں جانتا کہ ہندوستان میں مواد کی کچھ صورتِ حال کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا سائٹ نے حکومت ِ ہند کے کہنے پر کچھ مواد کو ہٹا دیا ہے۔

بنگلورو: ایلون مسک نے چہارشنبہ کے روز کہا کہ جاریہ سال کے اوائل میں جب ٹوئٹر نے وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف ایک ڈاکیومنٹری سے متعلق مواد کو ہٹا دیا تھا تو وہ نہیں جانتے کہ درحقیقت کیا ہوا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ہندوستان میں سوشل میڈیا سے متعلق چند قوانین کافی سخت ہیں۔

متعلقہ خبریں
ٹویٹر کے صارفین کی تعداد میں ہر ہفتے اضافہ: مسک
”بھارت میراپریوار۔ میری زندگی کھلی کتاب“:مودی
اڈانی مسئلہ پر کانگریس سے وضاحت کامطالبہ، سرمایہ کاری کے دعوؤں پر شک و شبہات
وزیر اعظم کے ہاتھوں اے پی میں این اے سی آئی این کے کیمپس کا افتتاح
’’میں اکیلا ہی یہ سب کیوں برداشت کروں‘‘، فلم کے سین پر کنگنا رناوت کا مذاق بن گیا

 واضح رہے کہ جنوری میں حکومت نے بی بی سی کی ایک دستاویزی فلم کو بلاک کرنے کا حکم دیا تھا  جس میں 2002ء کے گجرات فسادات کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت پر سوالیہ نشان لگایا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ سوشل میڈیا کے ذریعہ کسی بھی کلپ کو شیئر کرنے پر بھی پابندی ہے۔

حکومت نے ٹوئٹر کو دستاویزی فلم کی ویڈیو سے متعلق 50 سے زیادہ ٹوئٹس کو بلاک کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔ حکومت کے ایک مشیر کنچن گپتا نے کہا تھا کہ اگرچہ کہ بی بی سی دستاویزی فلم کو ہندوستان میں نشر نہیں کیا تھا، لیکن چند ویڈیوز کو یوٹیوب چیانلس پر اَپ لوڈ کیا گیا تھا۔

ایلان مسک نے ٹوئٹر اسپیسس پر بی بی سی کے ساتھ براہِ راست نشر ہونے والے ایک انٹرویو میں کہا کہ میں اس مخصوص صورتِ حال سے واقف نہیں ہوں۔ میں نہیں جانتا کہ ہندوستان میں مواد کی کچھ صورتِ حال کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا سائٹ نے حکومت ِ ہند کے کہنے پر کچھ مواد کو ہٹا دیا ہے۔

 انھوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر جو کچھ ظاہر ہوسکتا ہے اس کے لیے ہندوستان میں قوانین کافی سخت ہیں اور وہ ملک کے قوانین کی خلاف ورزی نہیں کرسکتے۔ دستاویزی فلم 2002ء میں گجرات کے چیف منسٹر کی حیثیت سے نریندر مودی کی قیادت پر مرکوز تھی  جس میں کم از کم ایک ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔ کارکنوں نے مہلوکین کی تعداد دُگنی سے بھی زیادہ بتائی ہے۔