طنز و مزاحمضامین

کتنے میں ملا!

ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

لیجئے جناب قرب قیامت کا دور ہے، وقت راکٹ کی رفتار سے گزر رہا ہے۔ ابھی کچھ دن ہوئے ماہ رمضان گزرا عید کی سیویوں کا مزہ بھی نہ بھولا کہ عید قربان بقر عید آگئی اور شہروں میں عید کے ایک دو دن سے ہی یہ سوال گردش کرنے لگتا ہے کہ کتنے میں ملا اور اس سوال کے پوچھنے کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ قربانی کا جانور کتنے میں خریدا۔ بہت سے لوگ اپنی دانست میں اپنے آپ کو عقل مند سمجھتے ہیں کہ انہوں نے قربانی کا جانور کم قیمت میں خریدا لیکن سامنے والا اپنے جانور کی کم قیمت اور بھاری بھرکم جانور ہونے کا ذکر کرتے ہوئے آپ کو پشیمان کرے گا کہ آپ نے جلد بازی میں مہنگا جانور خرید لیا ہے۔ شہروں میں بھاری ٹریفک گھروں میں آنگن نہ ہونے سے اب عید قربان پر قربانی کرنا بھی ایک مشکل کام ہوتا جارہے۔ اس لیے لوگ زیادہ رقم دے کر قربانی کے مراکز پر قربانی کرانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ دوسری جانب مناسب قیمت پر جانور کی خریدی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ جب لوگ جیب میں رقم لیے یا گوگل پے کی سہولت سے لیس بازار میں نکلتے ہیں تو انہیں اپنے ہی محلے کی سڑکوں پر ڈیرا ڈالے بہت سے ایسے تاجر نظر آئیں گے جو کسی بھی لحاظ سے دھنگر نہیں لگتے بلکہ اپنے ہی بھائی برادری کے لوگ لگتے ہیں۔ ادھر کچھ سال سے نوجوانوں میں یہ چلن عام ہوگیا ہے کہ گھر سے یا کسی شناسا سے دو چار دن کے لیے لاکھ دو لاکھ روپے کا انتظام کرتے ہیں قریبی دیہاتوں میں جاکر بکرے بات کرتے ہیں اور ناتجربہ کاری سے زیادہ قیمت میں بکرے خرید لیتے ہیں اور پھر انہیں شہر منتقل کرنے اور فروخت کے دوران قیمت کچھ زیادہ ہی لگا لیتے ہیں۔اس سے ہر سال بکرے کی قیمتوں میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔ یہ لوگ کچھ اس انداز سے بکرے کی خوبیاںبیان کرتے ہیں کہ بکرا خریدنے کے بجائے بکرے کی عزت کرنے کو جی چاہتاہے اور لگتا ہے کہ عید کے قریب انسان سے زیادہ بکرا ہی قیمتی ہے۔ اللہ کی قدرت دیکھئے کہ جب سے فون اور ویڈیو گرافی کا چلن عام ہوگیا ہے دنیا بھر سے خوبصورت بکروں اور قربانی کے صحت مند جانوروں کے ایسے ویڈیو دیکھنے کو مل رہے ہیں کہ جی چاہتا ہے کہ ان بکروں کے ساتھ سیلفی لی جائے کچھ بکرے واقعی انسان سے زیادہ اس قدر قیمتی ہوتے ہیں کہ ان کی قیمت لاکھوں میں رکھی جاتی ہے اور دولت مند لوگ ان بکروں کو خرید کر سماج میں اپنا رتبہ مزید اونچا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بکرا خریدنا ایک جوئے شیر لانے سے کم نہیں خدا خدا کرے بکرا خرید لیا اب اس کا چارہ خریدا جائے چارہ بیچنے والے بھی اپنی عید کرلیتے ہیں اور ہم نا چاہتے ہوئے بھی انہیں منہ مانگے دام دے جاتے ہیں۔ بکرا گھر منتقل کرنا ہے آٹو والا بھی منہ مانگے دام پوچھے گا خیر کسی طرح گھر پہنچے رسی سے بکرے کو گھر میں باندھے رکھنا بھی ایک اہم کام ہے، فلیٹ والی زندگی میں پارکنگ ایریا میں ہی سب کے بکرے باندھے جائیں گے۔ بچے کبھی اپنے بکرے کو لے کر گلی میں گھما لاتے ہیں تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کا ہم نے قربانی کا بکرا لے لیا ہے۔ آج سے کئی سال پہلے پڑوسی ملک کے مزاحیہ فنکار عمر شریف مرحوم نے بکرا قسطوں پر ڈراما پیش کیا تھا جس میں پڑوسیوں کی چالاکی دکھائی تھی کہ اپنے گھر میں بکرا ہونا ثابت کرنے کے لیے لوگ کیسے ٹیپ ریکارڈ میں بکرے کی میں میں کی آوازیں ریکارڈ کرکے رات بھر چلاتے رہتے ۔ایک گھر سے بکرے کی جب میں میں آتی ہے تو کسی مشاعرے کی طرحی غزل کی طرح دوسرے گھر سے ایک بکرا میں میں کا جواب دیتا ہے اور سارے گھروں سے آوازیں آنے لگتی ہیں تو بکروں کا مشاعرہ منعقد ہوجاتا ہے۔ بہر حال عید کا دن آپہنچا۔ عید کے دن سب کی فکر یہی ہوتی ہے کہ سب سے پہلے عید کی نماز پڑھی جائے اور قصائی کو ڈھونڈ کر قربانی کردی جائے ۔ کچھ مساجد میں اس طرح کے لوگوں کے لیے بھی انتظام ہوتا ہے اور فجر کے بعد ہی ذکر و اذکار کے بعد اول وقت نماز کی ادائیگی کا انتظام ہوجاتا ہے۔بے چین لوگوں کو امام کا خطبہ اور طویل دعا بھی گراں گزرتی ہے اور دلوں میں یہ شکوہ کرتے رہتے ہیں کہ بس کرو امام صاحب اب قربانی کا وقت ہوا چاہتا ہے۔جیسے ہی نماز پڑھ کر باہر نکلے قصائی کی تلاشی کی مہم شروع ہوجاتی ہے۔ اور ایک مرتبہ پھر یہ سوال گرد ش کرنے لگتا ہے کہ کتنے میں ملا اب کی بار یہ بکرے کی قیمت نہیں بلکہ قصائی کی مزدوری ہے جو ہر سال بڑھتی ہی جارہی ہے۔ عید کے دن پانچ دس ہزار کمانے کے چکر میںکئی نوجوان جو اچھے خاصے سماجی رتبے کے ہوتے ہیں وہ بھی بکرا کاٹنے کی مہم میںلگ جاتے ہیں۔ حیدرآباد سب کے لیے آباد شہر ہے، عید کے دن یہاں گلبرگہ، بیدر، ناندیڑ اور پڑوسی اضلاع سے ہزاروں لوگ جن میں مزدور بھی ہوتے ہیں، شہر میں قصائی بن کر آجاتے ہیں اور یوں سب کو قصائی مل جاتا ہے۔ کچھ لوگ اپنے پڑوسی کے گھر منتظر ٹھہرے رہتے ہیں کہ ان کے بعد ہمارے گھر قصائی کو بھیجا جائے ۔ جب قربانی کا گوشت تقسیم ہوتا ہے تو گھر والے پاکٹ کھول کر یہی شکوہ کرتے ہیں کہ دیکھو ہم نے تو اچھا گوشت دیا پڑوسی والے نے ہڈیاں ہی بھر دیں۔ عید قربان پر فریج کی بھی عید ہوتی ہے اور لوگ اپنے اپنے فریج کو گوشت کی پاکٹوں سے بھرنے لگتے ہیں۔ اب تو قربانی کے جانور کے ساتھ خصوصی فریزر بھی گھروں میں لائے جارہے ہیں۔ کتنے میں ملا کا سلسلہ ختم نہیں ہوا عید کے دن کچھ گھنٹے گزرے نہیں کہ سارے شہر کی فضاءمیں دھوئیں اور جلنے کی بوآنے لگتی ہے، سرا پایے بھنا کر انہیں گھر لانا یہ بھی ایک کام ۔ اس کی قیمت بھی من مانی دی جاتی ہے اور اگلے دن صبح نان کی دکان پر گھر والوں کی لائین۔ بہر حال عید قربان میں لوگ اپنی خیریت اور عید کی مبارک باد کم دیتے ہیں اور کتنے میں ملا کا سوال زیادہ کرتے ہیں۔عید قربان پر پیش آنے والے مراحل کو دیکھ کر کسی نے کہا کہ بیوی کے نخرے تو برداشت کر لیے جاسکتے ہیں لیکن قربانی کے جانور کی خریدی سے لے کر قربانی کی انجام دہی اور گوشت کے پیٹ میں اور فریج تک مراحل برداشت نہیں ہوتے پھر بھی یہ سلسلہ چل رہا ہے اور ہم یہی امید کرتے ہیں کہ اللہ ہماری کوتاہیوں سے قطع نظر جذبہ قربانی کے ساتھ ہماری قربانی کو قبول فرمائے۔