مضامین

شادی ایک مشکل امربن گیا؟

بیٹیوں کے سرپرستوں کی جانب سے بھی اکثر اوقات قابلیت کے باوجود متوسطہ آمدنی والے سفید پوش خاندان کے لڑکوں کونظرانداز کیاجاتا ہے۔ کہیں جوائنٹ فیملی مسئلہ ہے توکہیں شہروں میں ذاتی یاعالیشان مکان کا مطالبہ ، ذات برادری فرقے، عقائد اورنہ جانے کیاکیا، غرض یہ فہرست بہت طویل ہے۔ اپنے معیارات کی بلند وبالا سیڑھیوں پرکھڑے ہوکر چھوٹے چھوٹے تضادات اورقابل درگزر، امور کو نظرانداز نہ کرکے ایک دوسرے کوردکرنے کا سلسلہ چلتارہتا ہے۔

بشریٰ شیخ

اسلامی معاشرے میں نکاح کیلئے سادگی اور آسانی کی ہر سہولت اورترغیب موجود ہونے کے باوجود اس امرکومشکل ترین بنادینے کے ذمہ دار نہ اغیار ہیں نہ کوئی تعصب اورنہ ملکی حالات، اس کے مکمل ذمہ دار صرف ہم اورہماری خود غرضی ہے۔ تمام خرابیوں کی اصلاح بھی ہمیں ہی کرنی ہوگی۔ اگر ہرشخص نکاح کوآسان بنانے کی کوشش کرے توایک بہترمعاشرہ تشکیل پاسکتا ہے ۔

دورِحاضر کی تمام مادی اور معاشی وسماجی ترقی سے مستفید ہونے کے ساتھ ساتھ امتِ مسلمہ کے دامن میں بھی کئی سارے مسائل کے انبار ہیں جن میں ایک توجہ طلب معاشرتی مسئلہ نکاح کے عمل کا دشوار ترین ہوجانا ہے۔ اس کے مکمل ذمہ دار صرف ہم، ہماری خود غرضی اورخود ساختہ معیارات ہیں۔ دیگر مذاہب اور معاشرے میں لڑکیوں کو لڑکوں سے کمترسمجھتے کارحجان ہمیشہ سے موجود رہا ہے، اسلام میں ایسا کوئی امتیاز نہ ہونے کے باوجود آج ہمارے معاشرے میں بھی رشتے طے کرنے کے تعلق سے یہی ذہنیت کارفرمادکھائی دیتی ہے۔

آج کی صورتحال یہ ہے کہ تعلیم کے میدان میں قوم کی لڑکیاں سنجیدگی اورایک نصب العین کے ساتھ آگے ہیں اور کامیاں اپنے نام کرکے مناسب واعلیٰ عہدوں پرکام بھی کررہی ہیں مگر دوسری جانب لڑکوں کی ہنرمندی اور تعلیمی صورتحال اطمینان بخش نہیں، ایسے لڑکوں کی بھی کمی نہیں ہے جو کسی اعلیٰ ڈگری یابہترقابلیت و ہنرکے حصول کیلئے محنت سے جی چرا کربس چھوٹی موٹی اور آسان سی نوکری کو معیار بنابیٹھے ہیں اوراس تعلیمی وفکری تفاوت کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بچیوں کیلئے ان کے لئے تعلیمی معیار کے مطابق رشتے میسر نہیں، ڈاکٹر،انجینئر،ٹیچر پروفیسر ،وغیرہ جیسے مختلف اچھے عہدوں پرکام کررہی بچیوں کیلئے بھی اگررکشا ٹیکسی ڈرائیور یاغیر تعلیم یافتہ میکینک اور مزدوروں کے ہی رشتے آنے لگیں توظاہر ہے ایسے کڑوے گھونٹ بڑی مشکل سے پیے جاسکتے ہیں، یہ بات مصدقہ ہے کہ تعلیم ہی ذہن وقلب کو وسعت اورجلابخشتی ہے اورفریقین کے مابین رشتوں کی مضبوط بنیادوں پراستواری کا سبب ہوتی ہے ،بچیوں کے والدین نے بڑی جانفشانی سے انہیں زیورتعلیم سے آراستہ کیا ہے ،اپنی محنت اورجدوجہد سے اگر یہ بچیاں کسی مقام تک پہنچتی ہیں تویہ ان کا اور ان کے والدین کا حق ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کیلئے ہر طرح سے بہتر شریک زندگی کا انتخاب کریں۔ ہنرمندی ،تعلیم ،عمر ،اخلاق ،معاشی آسودگی، جیسی کئی چیزوں کی مناسبت دیکھ کر طے کئے گئے رشتوں کی پائیداری کا امکان زیادہ ہوسکتا ہے۔ دوسری بڑی رکاوٹ رشتوں کی راہ میں یہ بھی ہے کہ ہم اپنے بیٹوں کیلئے ایسی لڑکی چاہتے ہیں جوہرطرح سے مکمل ہو، خوبصورتی ،رنگ ،قد وقامت میں ذراسی کمی کسی کوگوارانہیں، اس خوردبینی تلاش میں گھرگھر جاکر بچیوں کوکسی نمائشی سامان کی طرح پرکھنا اوربسا اوقات معمولی کمی بیشی کاعذرپیش کرکے انہیں رد کردینا عام ہے۔

طلاق شدہ اور بیوہ خواتین سے نکاح کوہمارے دین نے مسنون اوراحسن مانا ہے مگراسی نکاح ثانی کی سنت کوہماری تنگدلی نے ایک مشکل ترین امربنا رکھا ہے کیونکہ یہ عام مشاہدہ ہے کہ اذھیڑعمر کے مطلقہ اوربال بچوں والے مردوں کی بھی اولین ترجیح کم عمر اورکنواری لڑکیاں ہوتی ہیں۔ اپنے عمر درازبیٹوں کیلئے بھی کم عمر دلہن لانے کا نامناسب رحجان بھی ہمارے معاشرے میں جگہ بناچکا ہے، کم خوبصورت ، کم تعلیم یافتہ ،بیوہ یا مطلقہ اورغریب لڑکیوں کی طرف ہماری نگاہیں جاتی ہی نہیں ۔

معاشی طورپر آسودہ خاندان بھی ترجیحات پرسرِ فہرست ہوتا ہے تاکہ جہیز کی بھوک کا پیٹ بھرسکے اوراپنی جھوٹی شان وشوکت کے علم بلند رہیں اس جہیز کی لعنت، نمودونمائش ،مہنگی ترین شادیوں کا چلن ہمارے معاشرے کا ایک سلگتا مسئلہ بن گیا ہے۔ اسی طرح یہ فضول رواج کہ لڑکی اپنی پسند سے شادی نہیں کرسکتی ،لڑکی یالڑکی کے گھروالوں کا شادی کا پیغام بھیجنا معیوب سمجھاجانا، گھر کے تمام بچوں کی ترتیب وارشادی ہونا بھی انتہائی فرسودہ ہے۔

رشتوں کے سلسلے میں زیادہ تکلیف دہ اور صبرآزما صورتحال گوکہ لڑکیوں کو درپیش ہے مگریہ بھی حقیقت ہے کہ یہ آزمائش صرف لڑکیوں تک ہی محدود نہیں، یہ سکے کا ایک رخ ہے دوسرے رخ پر لڑکوں کوبھی مشکلات کے ایسے کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ بیٹیوں کے سرپرستوں کی جانب سے بھی اکثر اوقات قابلیت کے باوجود متوسطہ آمدنی والے سفید پوش خاندان کے لڑکوں کونظرانداز کیاجاتا ہے۔

کہیں جوائنٹ فیملی مسئلہ ہے توکہیں شہروں میں ذاتی یاعالیشان مکان کا مطالبہ ، ذات برادری فرقے، عقائد اورنہ جانے کیاکیا، غرض یہ فہرست بہت طویل ہے۔ اپنے معیارات کی بلند وبالا سیڑھیوں پرکھڑے ہوکر چھوٹے چھوٹے تضادات اورقابل درگزر، امور کو نظرانداز نہ کرکے ایک دوسرے کوردکرنے کا سلسلہ چلتارہتا ہے۔ تمام خرابیوں کی اصلاح کی پرخلوص کوشش اگرہم میں سے ہرفرد کی جانب سے ہو تو کامیابی کا امکان صدفی صد ہوسکتا ہے۔

جسمانی خوبصورتی ،امیری، آسائش کے سازوسامان اورظاہری چمک دمک کوپس پشت ڈال کربچوں کوان کے اخلاق ، نیک سیرتی ،شرافت ،تہذیب وتمیز، تعلیم ،گھرداری ، ہنرمندی جیسے اوصاف پرقبول کیاجائے اورنکاح جیسے احسن عمل کوآسان ترین کرنے کی کوشش خلوص دل سے کی جائے تویہ تمام مسائل بڑی آسانی سے حل ہوسکتے ہیں۔

وقت کا تقاضا ہے کہ اُمّت کے معتدل مزاج، اجتماعیت پسند اور جدید سماجی علوم پردسترس رکھنے والے علماآگے بڑھیں اورمسلمانوں کو نکاح میں آسانی کی ترغیب دیں، کیوں کہ خاندانی نظام کی مضبوطی ہی میں مسلمانوں کی نشاۃِ ثانیہ کا راز پنہاں ہے۔ ارشاد رباّنی ہے :

’’اے لوگو! ہم نے تم کوایک مرداور ایک عورت سے پیدا کیااور پھرتمہاری قومیں اوربرادریاں بنادیں تاکہ تم ایک دوسرے کوپہچانو، درحقیقت اﷲ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے ،جو تمہارے اندرسب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔ یقینا اﷲ سب کچھ جاننے والا اورباخبر ہے۔‘‘(سورۃ الحجرات ) اسی طرح رسولِ اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا ’’نکاح میری سنت ہے، جس نے میری سنت سے رُدگروانی کی، وہ ہم سے نہیں ۔‘‘
٭٭٭