کھیل

افغان خاتون اتھیلٹس کے اسپورٹس میں حصہ لینے پر امتناع

نورا اسپورٹس کھیلنے کا عزم کرچکی تھی اور یہ جذبہ اتنا شدید تھا کہ اس نے کئی سال تک اپنے والدین کی مخالفت کی پرواہ نہیں کی۔

کابل: نورا اسپورٹس کھیلنے کا عزم کرچکی تھی اور یہ جذبہ اتنا شدید تھا کہ اس نے کئی سال تک اپنے والدین کی مخالفت کی پرواہ نہیں کی۔

متعلقہ خبریں
چین نے طالبان کے سفیر کے کاغذات تقرر قبول کرلئے
ایرانی فورسس اور افغان طالبان کے مابین تنازعہ
افغانستان میں خواتین اپنے حقوق سے محروم:انٹونیو گٹریس
طالبان نے کابل ایرپورٹ حملہ کے منصوبہ ساز کو مارگرایا

اس کی ماں اسے زدوکوب کیا کرتی تھی او رپڑوسی اس کامذاق اڑایا کرتے تھے لیکن اسے اپنے پسندیدہ اسپورٹس سے روک نہیں پائے۔ 20 سالہ افغان خاتون اپنے ملک کے طالبان حکمرانوں کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کرسکی۔ انہوں نے خواتین اور لڑکیوں کے تمام اسپورٹس پر امتناع عائد کردیا اور بڑے جوش کے ساتھ ان لوگو ں کو ہراساں کیا جو ماضی میں گیمس کھیلتے تھے۔

انہیں خانگی طور پر اس کی پریکٹس سے بھی دھمکایاگیا۔ نورا نے بتایا کہ اب وہ پہلے جیسی نہیں ہے۔ طالبان کے آنے کے بعد میں خود کو مردہ محسوس کررہی ہوں۔ متعدد کھیل کھیلنے والی لڑکیاں اور خواتین نے بتایا کہ طالبان نے انہیں دھمکیاں دی اور فون کالس کے ذریعہ انہیں خبردار کیا کہ وہ اسپورٹس میں حصہ نہ لیں۔ خواتین اور لڑکیوں نے مزید خطرات کے اندیشے کے تحت شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ بات بتائی۔

انہوں نے اے پی فوٹوگرافر سے تصویر کشی کروائی جبکہ اس وقت ان کے کھیلوں کا ساز و سامان بھی موجود تھا۔ انہوں نے برقعہ سے اپنی شناخت کو پوشیدہ رکھا اور صرف جالی کے ذریعہ ہی دیکھ سکتی تھیں۔ عام طور پر وہ برقعہ نہیں استعمال کرتی ہیں لیکن انہوں نے بتایا کہ اب بعض اوقات وہ باہر جاتے وقت برقعہ استعمال کررہی ہیں۔

اسپورٹس پر امتناع‘طالبان کے بڑھتے ہوئے تحدیدات کی مہم کاحصہ ہے جس میں لڑکیوں اور خواتین کی زندگی پر پابندی عائد کردی ہے۔ اگست 2021 میں انہوں نے افغانستان پر قبضہ کیا مڈل اور ہائی اسکول میں لڑکیوں کی شرکت پر بھی پابندی عائد کردی۔ گزشتہ ماہ انہوں نے تمام خواتین کو یونیورسٹیوں سے نکال باہر کرنے کا حکم جاری کیا۔ طالبان چاہتے ہیں کہ خواتین برسر عام اپنے چہرہ اور بال ڈھانکے جبکہ ان کے پارکس یا جم جانے پر پابندی عائد کردی۔

انہوں نے گھر کے باہر خواتین کے کام کی صلاحیت کو بھی محدود کردیاہے اور حال ہی میں غیر سرکاری تنظیموں کو خواتین کے ملازمین رکھنے کے خلاف پابندی عہد کردیاہے جبکہ امداد کا اہم بہاؤ اس سے مفلوج ہوسکتاہے۔ طالبان سے قبل بھی خواتین کے اسپورٹس کے خلاف افغانستان کی شدید قدامت سوسائٹی کے بہت سے لوگ مخالف تھے جو خواتین کی شرم و حیا سوسائٹی میں ان کے رول کی خلاف ورزی تھی۔

ماضی میں بین الاقوامی تائیدی حکومت میں ایسے پروگرامس چلائے تھے جن کے ذریعہ خواتین کے اسپورٹس اور اسکولس کلب اور نیشنل ٹیمس کی حوصلہ افزائی کی گئی تھی۔ ایک 20 سالہ مارشل آرٹس نے بتایا کہ کس طرح اگست 2021 میں وہ کابل اسپورٹس ہال میں ایک مقامی خواتین کے ٹورنمنٹ میں مقابلہ کررہی تھیں۔

وہاں موجود افراد نے یہ بات پھیل گئی تھی کہ طالبان پیشرفت کررہے ہیں اور شہر کے مضافاتی علاقوں میں ہیں۔ خواتین اور لڑکیاں ہال سے فرار ہوگئیں۔ سرینا کا یہ آخری مقابلہ تھا۔ چند ماہ بعد انہوں نے بتایا کہ اس نے لڑکیوں کے لیے خانگی مشق کی کوشش کی تھی لیکن طالبان جنگجوؤں نے جم پر دھاوا کیا اور ان سب کو گرفتارکرلیا۔

قید میں لڑّکیوں کی توہین کی گئی ان کامذاق اڑایاگیا۔ بزرگوں کی مصالحانہ کارروائی کے بعدانہیں اس وعدہ کے بعد رہاکیاگیا کہ وہ دوبارہ اسپورٹس میں حصہ نہیں لیں گے۔ سرینا اس وقت بھی اپنے گھر میں مشق کرتی ہے اور بعض وقت اپنے قریبی دوستوں کو بھی سکھاتی ہے۔ اس نے بتایا کہ زندگی اس کے لیے بہت کٹھن ہوگئی ہے لیکن وہ ایک جنگجو ہے لہذا وہ بدستور وہیں مقیم رہتے ہوئے جنگ کرے گی۔