مذہب

ماہ شعبان کی فضیلت اور اس کے اعمال

اسلامی تقویم کا آٹھواں مہینہ شعبان المعظم ہے۔ یہ فضیلتوںاور مغفرتوں والا مہینہ ہے، اس میں نیکیوںکے دروازے کھولدئے جاتے ہیںاور لوگوں کی خطائیںمعاف کی جاتی ہیں۔

محمد ابراہیم خلیل سبیلی
امام وخطیب جامع مسجد غوثیہ، حیدرآباد

متعلقہ خبریں
ناپاکی کا دھبہ صاف نہ ہو
زیادہ اڈوانس کے ساتھ کم کرایہ
استقبالِ رمضان میں، نبی کریمؐ کا ایک جامع وعظ
حج کی محفوظ رقم اور زکوۃ
گائے اسمگلنگ کا شبہ، 4 مسلمانوں پر حملہ

اسلامی تقویم کا آٹھواں مہینہ شعبان المعظم ہے۔ یہ فضیلتوںاور مغفرتوں والا مہینہ ہے، اس میں نیکیوںکے دروازے کھولدئے جاتے ہیںاور لوگوں کی خطائیںمعاف کی جاتی ہیں۔ احادیث میںاس ماہ کی بڑی اہمیت وارد ہوئی ہے۔ یہ وہی مہینہ ہے جس کی نسبت رسول اللہ نے اپنی جانب کی ہے یعنی یہ فرمایا کہ شعبان میرا مہینہ اور رمضان اللہ کا مہینہ ہے۔جب بھی رجب کا چاند نظر آتا تو رسول اللہ یہ دعا کیا کرتے تھے، (اللھم بارک لنا فی رجب و شعبان وبلغنا الی رمضان) اے اللہ ہم کو ماہ رجب اور شعبان کی برکتیں عطا فرما اور ہمیں رمضان تک بخیر و عافیت پہنچا۔ شعبان ہی وہ مبارک مہینہ ہے جس میں رسول اللہ کی دیرینہ تمنا پوری ہوئی یعنی تحویل قبلہ کا حکم آیا۔ رسول اللہ بشر بن برا ؓ کے یہاں دعوت میں گئے ہوئے تھے وہاں نماز ظہر کا وقت ہوا آپؐ باجماعت نماز کیلئے کھڑے ہوگئے دو رکعتیں ادا کرچکے تھے یکایک تیسری رکعت میں تحویل قبلہ کا حکم آیا اسی وقت آپؐ اور صحابہ کرام نے بیت المقدس سے کعبہ کی طرف اپنا رخ پھیر لیا۔اسی مہینہ میں تیمم سے متعلق احکامات نازل ہوئے، اسی ماہ میں تاریخ اسلام کا عظیم غزوہ بنو المصطلق پیش آیا، اسی مہینہ میں آپ ؐنے ازواج مطہرات میں سے حضرت حفصہؓ اور حضرت جویریہ ؓسے نکاح فرمایا۔ لہذا اسلامی سال کا یہ مہینہ اپنی فضیلت اور اہمیت کے اعتبار سے مہتم بالشان ہے اور اسی کے ساتھ ہمیں ماہ رمضان المبارک کے سایہ فگن ہونے سے پہلے ہی اس کی بیش قیمت تیاریوںاور مختلف امور کے انجام دہی کا بھر پور موقع ملتا ہے۔

ماہ شعبان کی فضیلت و اہمیت

اس مہینہ کی عظمت و فضیلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ نے اس میں رمضان المبارک کی تیاری کی ترغیب دی ہے۔ چنانچہ حضرت سلمان فارسی ؓ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں: رسول اللہ نے ہم لوگوں کو شعبان کے آخری دنوں میں ایک خطبہ دیا جس میں ماہ رمضان کی عظمتوں اور برکتوں کو بیان کرتے ہوئے اس کی تیاری کرنے کا حکم دیا۔اس ماہ میں رسول اللہ بکثرت روزے رکھا کرتے تھے، حضرت عائشہ ؓ بیان فرماتی ہیں جب رسول اللہ روزے رکھنا شروع کرتے تھے تو مجھے یہ خیال ہوتا کہ آپ ؐ کبھی افطارنہیں کریں گے، میں نے ماہ رمضان کے سوا کسی اور مہینہ میں آپ کو روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھاسوائے ماہ شعبان کے کہ اس میں آپ جس قدر روزے رکھتے اتنے کسی دوسرے مہینے میں نہیں رکھتے تھے۔حضرت ام سلمہؓ سے بھی مروی ہے وہ فرماتی ہیں میںنے رسول اللہ کو شعبان اور رمضان کے علاوہ لگاتار دو مہینے روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔

علماء کرام نے شعبان میں رسول اللہ کے کثرت سے روزے رکھنے کے کئی اسباب بیان کئے ہیں۔

۱۔ رمضان کی تعظیم اور روحانی تیاری :

جیسا کہ حضرت انسؓ بن مالک سے روایت ہے رسول اللہؐ سے پوچھا گیا کہ رمضان المبارک کے بعد سب سے افضل روزے کونسے ہیں؟ آپ ؐ نے ارشاد فرمایا شعبان کے روزے رمضان کی تعظیم و تکریم کیلئے۔ یعنی شعبان کے روزے رمضان المبارک کی عظمت اس کی روحانی تیاری اور انوار و برکات کے حصول کا ذریعہ ہیں ۔ شعبان کے روزں کو رمضان کے روزوں سے وہی مناسبت ہے جوفرض نمازوں سے پہلے ادا کی جانے والی نوافل کو فرضوں سے ہوتی ہے۔

۲۔ مرنے والوں کی فہرست کا ملک الموت کے حوالے کیا جانا: حضرت عائشہؓ صدیقہ فرماتی ہیں کہ حضورؐ ماہ شعبان میں روزے رکھنے کو زیادہ پسند فرماتے تھے ایک مرتبہ میں نے اس کا سبب پوچھا تو آپ ؐ نے ارشاد فرمایا اس مہینہ میں ہر اس شخص کا نام ملک الموت کے حوالے کیا جاتا ہے جس کی روح اس سال قبض کی جانے والی ہوتی ہے اس لئے مجھے یہ پسند ہے کہ میرا نام اس حالت میں پیش کیا جائے کہ میں روزہ سے رہوں۔

۳۔ اللہ کے دربار میں بندوں کے اعمال پیش ہونا:

حضرت اسامہ بن زید ؓ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: شعبان رجب اور رمضان کے درمیان واقع ہے لوگ اس ماہ کی بزرگی سے غافل ہیںلیکن یہی وہ مہینہ ہے جس میں بندوں کے اعمال اللہ کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں میری تمنا ہے کہ جب میرے اعما پیش کئے جائیں تو میرا شمار روزہ داروں میں ہو۔

۴۔ ایام بیض کے روزوںکی تکمیل:

ایک حکمت یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر ماہ تین دن یعنی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کے روزے رکھتے تھے ۔تاہم کبھی سفر اور کبھی ضیافت وغیرہ کی وجہ سے یہ روزے چھوٹ جاتے اور کئی مہینوں کے جمع ہوجاتے،تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ماہ شعبان میں ان کی قضا کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں رسول اللہ ہر مہینہ روزے رکھا کرتے تھے لیکن کبھی کسی وجہ سے روزے نہیں بھی رکھتے تھے یہاں تک کہ ایک سال کے روزوں کی قضا ماہ شعبان میں کرلیتے تھے۔

شب برأت کی فضیلت

ماہ شعبان کے وسط میں ایک رات ہے جسے شب برأت کہا جاتا ہے۔ برأت کے معنی چھٹکارے کے ہیں۔ شیخ عبد القادر جیلانی ؒاپنی کتاب غنیۃ الطالبین میں فرماتے ہیں: اس رات کوشب برأت اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں دو قسم کی برأت ہوتی ہے۔ ایک برأت اللہ تعالی کی طرف سے بدبختوں کو ہوتی ہے اور دوسری برأت اللہ کے محبوب بندوں کو ذلت وخوادی سے ہوتی ہے۔ شیخ یہ بھی فرماتے ہیں کہ جس طرح زمین پر مسلمانوں کی دو عیدیں ہیں اسی طرح آسمانوں پر فرشتوں کی بھی دو عیدیں ہیں۔ مسلمانوں کی دو عیدیں عید الفطر اور عید الاضحی ہیں اور فرشتوں کی عیدیں شب برأت اور شب قدر ہیں۔ چونکہ انسان سوتے ہیں اس لئے ان کی عیدیں دن میں رکھی گئی ہیں اور فرشتے نہیں سوتے اس لئے ان کی عیدیں رات میں رکھی گئی ہیں۔

قرآن میں ا س رات کو ’مبارک رات‘کہا گیا ہے۔ اگرچہ کہ اس سلسلہ میں مفسرین کے نزدیک اختلاف ہے تاہم حضرت عکرمہؒ وغیرہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد شب برأت ہے ۔ اس کے علاوہ احادیث میں بھی شب برأت کی بہت زیادہ فضیلت اور اہمیت آئی ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: میں نے ایک دن رسول اللہ کو اپنے بستر پر نہ پایا، میںآپؐ کی تلاش میں گھر سے باہر نکلی میں نے دیکھا کہ آپؐ جنت البقیع میں موجود ہیں۔ آپؐ نے مجھے دیکھ کر ارشاد فرمایا: کیا تم اس بات کا اندیشہ کرتی ہو کہ اللہ اور اس کا رسول تمہارے ساتھ نا انصافی کرے گا؟ میں نے کہا اے اللہ کے رسول مجھے یہ خیال ہوا کہ آپؐ کسی دوسری اہلیہ کے پاس تشریف لے گئے ہوں، آپؐ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالی شعبان کی پندرھویں شب میں آسمان دنیا پر جلوہ افروز ہوتے ہیں اور قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں۔ ایک دوسری روایت میں حضرت علیؓ رسول اللہ کا ارشاد بیان فرماتے ہیں: جب نصف شعبان کی رات آجائے تو اس رات میں قیام کرو اور اس کے بعد آنے والے دن کا روزہ رکھو۔ اس لئے کہ اس رات اللہ سورج غرو ہونے سے طلوع فجر تک آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں: ہے کوئی جو مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا کہ میں اس کو بخش دوں، ہے کوئی مجھ سے رزق کا طالب کہ میں اس کو رزق عطا کروں، ہے کوئی بیمار اور مصیبت زدہ کہ میں اس کو عافیت دوں، اللہ تعالی برابر یہ آواز لگاتے رہتے ہیں یہاں تک کہ صبح ہوجاتی ہے۔

اس رات کن لوگوں کی مغفرت نہیں ہوتی؟

حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شعبان کی درمیانی رات جبرئیل میرے پاس تشریف لائے اور کہا: اے محمدؐ اپنا سرآسمان کی طرف اٹھایئے کیونکہ یہ برکت والی رات ہے میں نے پوچھا اس میں کیسی برکت ہے؟ جبرئیل نے فرمایا اس رات میں اللہ تعالی رحمت کے تین سو دروازے کھول دیتا ہے اور سوائے مشرک، ساحر، کاہن، شراب کا عادی، سودخور اور زانی کے علاوہ سب لوگوں کو معاف کردیتا ہے۔ان لوگوں کو اس وقت تک نہیں بخشتا جب تک کہ وہ لوگ توبہ نہ کرلیں۔ بعض روایتوں میں رشتہ توڑنے والا، ٹخنوں سے نیچے پائجامہ لٹکانے والا، والدین کی نافرمانی کرنے والا، اور عراف یعنی طبلہ بجانے والا بھی آیا ہے، یعنی اس رات ان کی بھی مغفرت نہیں ہوگی۔

شب برأت میںکیا ہوتا ہے؟

غنیۃ الطالبین میں اللہ تعالی کے اس قول ’’اس رات میں تمام مضبوط کام جدا کئے جاتے ہیں‘‘ کی تفسیر میںلکھاہے کہ اس رات میں اللہ تعالی سال بھر کے کاموں کی تدبیر کرتا ہے مرنے والے لوگ زندہ لوگوں سے الگ کردئے جاتے ہیںیہاں تک جو لوگ حج بیت اللہ کرنے والے ہوتے ہیں ان کے نام بھی الگ کردئے جاتے ہیں۔ عطار بن یسار سے روایت ہے کہ شعبان کی درمیانی رات میں لوگوں کے سال بھر کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں اور ایک شخص سفر کیلئے نکلتا ہے یا ایک شخص نکاح کرتا ہے حالانکہ ان کا نام مردوں کی فہرست میں لکھا ہوتا ہے۔

اس رات میں کیا کرنا چاہئے؟

اگرچہ کہ شب برأت سے متعلق جتنی روایات آئی ہیں وہ سب ضعیف ہیں مگر چونکہ یہ حدیثیں مختلف صحابہ کرام سے اور متعدد سندوں کے ساتھ وارد ہوئی ہیں اس لئے یہ کم از کم حسن لغیرہ کے درجہ میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دینی حلقوں اور مساجد میں اکثرو بیشتر اس رات کے اندر دعا و استغفار اورعبادات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ دراصل شب بیداری کی راتوں میں جو عبادات کی جاتی ہیں وہ نفل ہوتی ہیں اور عند الحنفیہ نفل عبادات گھر میں ادا کرنا زیادہ افضل ہے ۔ اس رات اور اسی طرح کسی بھی طاق رات میں عبادت کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں ہے اپنی طاقت اور استطاعت کے مطابق نوافل، تلاوت اور صلاۃ التسبیح وغیرہ کوئی بھی عبادت کی جاسکتی ہے۔

جہاں تک روزوں کی بات ہے تو ماہ شعبان میں زیادہ سے زیادہ روزے رکھناچاہئے ، یہ نہ ہوسکے تو ایام بیض کے روزے رکھے جائیں یہ بھی نہ ہوسکے توکم از کم پندرھویں کا روزہ رکھ لیں انشاء اللہ موجب اجر و ثواب ہوگا۔ شب بیداری، عبادت اور روزوں کے علاوہ دیگر تمام اعمال مثلا چراغاں کرنا، میٹھا وغیرہ پکانا، گھروں کو رنگ و روغن کرنا، آتش بازی وغیرہ خلاف سنت اور بے اصل ہیںاسلام میں ان کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
٭٭٭