مذہب

روضہ رسولؐ اقدس کی زیارت موجب شفاعت

زائر انِ مدینہ منورہ نہایت خوش نصیب ہیں جنہیں دربارِ رسالت مآب ﷺ کی زیارت نصیب ہو رہی ہے۔ زیارت ِ رسول کی نیت قربتِ رب کا باعث، شفاعتِ رسول کا موجب، محبت رسول کی دلیل ہے چنانچہ حدیث شریف میں ہے: فمن کانت ھجرتہ الی اللہ ورسولہ فھجرتہ الی اللہ ورسولہ (بخاری) جو اللہ ورسول کی خاطر ہجرت (سفر) کرتا ہے اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہوتی ہے۔

مولانا حافظ و قاری سید صغیر احمد نقشبندی
شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ

زائر انِ مدینہ منورہ نہایت خوش نصیب ہیں جنہیں دربارِ رسالت مآب ﷺ کی زیارت نصیب ہو رہی ہے۔ زیارت ِ رسول کی نیت قربتِ رب کا باعث، شفاعتِ رسول کا موجب، محبت رسول کی دلیل ہے چنانچہ حدیث شریف میں ہے: فمن کانت ھجرتہ الی اللہ ورسولہ فھجرتہ الی اللہ ورسولہ (بخاری) جو اللہ ورسول کی خاطر ہجرت (سفر) کرتا ہے اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہوتی ہے۔ اس حدیث شریف میں رسول اللہ کی بارگاہ میں حاضری کو اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہونے سے تعبیر کیا گیا یعنی اسے قربت رب نصیب ہوگی کیونکہ اللہ تو ہر جگہ موجود ہے یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ دل میں چھپی ہوئی محبت ونفرت کو جانتا ہے۔ کس مسلمان میں کتنی تڑپ ومحبت ہے وہ خوب جانتا ہے۔ محبت ِرسول ہی مومن کے ایمان کو کمال بخشتی ہے۔

جس کو محبوب سے محبت ہوتی ہے وہ اپنے محبوب کی نشانیوں کے دیدار کے اشتیاق میں بے چین رہتا ہے، ان کے مشاہدہ کیلئے تڑپتا ہے قبرِرسول کی زیارت سعادت دارین ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : من زار قبري وجبت لہ شفاعتي: جس نے میری قبرکی زیارت کی اس کیلئے میری شفاعت واجب ہوگئی، یقینا وہ شخص کتنا خوش بخت اور خوش نصیب ہے کہ آقا رحمتِ عالم ﷺ محشر میں زائرِ قبر رسول سے کہے کہ میں تیرے لئے رب کی بارگاہ میں سفارش کرتا ہوں۔ ونیز اس حدیث شریف میں زائرین کیلئے ایمان پر خاتمہ کی بشارت ہے۔

دربارِ نبیؐ میں حاضری دعا کی قبولیت کا مرکز ہے۔ رب تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے: وَلَوْ أَنَّہُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَہُمْ جَآؤُوکَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللّہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللّہَ تَوَّاباً رَّحِیْماً (سورہ نساء) اور یقینا وہ لوگ جنہوں نے اپنے نفس پر (گناہوں کی وجہ سے) ظلم کیا (اے حبیب) وہ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہو جائیں پھر اللہ کی بارگاہ میں مغفرت طلب کریں اور رسول ان کیلئے مغفرت طلب کریں تو وہ ضرور اللہ کو توبہ قبول کرنے والا رحم فرمانے والا پا ئیں گے۔ اس آیت سے واضح ہے بارگاہِ رسالت کی حاضری تو بہ ودعا کی قبولیت کا مرکز ہے زائر مدینہ کو قبرِ رسول کی زیارت کے ساتھ ریاض الجنۃ (جنت کے باغ) میں عبادت کا موقع میسر آتا ہے۔ یہ سعادت نبی رحمت کے صدقے میں حاصل ہوتی ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعاء کی تھی : اے اللہ ! شہر مدینہ کو برکت والا شہر بنا دے ۔ اللہ تعالیٰ نے دعاء قبول فرمائی چنانچہ حدیث شریف میں ہے : قال رسول اللہ ﷺ مابین بیتي ومنبري روضۃ من ریاض الجنۃ (مسلم) میرے حجرے اور میرے منبر کے درمیان جو جگہ ہے وہ جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ میرا منبر میرے حوض پر ہے۔ منبر شریف کے نزدیک جھوٹی قسم کھانے والے کیلئے سخت سزا مقرر کی گئی ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر کوئی شخص میرے منبر کے پاس کسی مسلمان کا حق تلف کرنے کی خاطر جھوٹی قسم کھاتا ہے تو وہ دوزخ میں جانے کیلئے تیار رہے اور فرمایا: فعلیہ لعنۃ اللہ والملائکۃ والناس اجمعین اس پر اللہ کی اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔ زائرِ مدینہ کو مسجد نبوی میں نماز کی ادائیگی وعبادت کا شرف ملتا ہے جس مسجد کی بناء نبی کریم ﷺ کے دست ِ پاک سے رکھی گئی، جس کے متعلق آپؐ نے ارشاد فرمایا: قال رسول اللہ ﷺ :صلوۃ في مسجدي ھذا خیر من ألف صلوۃ فیما سواہ من المساجد الا المسجد الحرام (بخاری) میری مسجد میں نماز ہزار نمازوں سے بہتر ہے دوسری مسجدوں میں نماز ادا کرنے سے سواے مسجد حرام کے۔ دوسری حدیث شریف میں ہے: قال رسول اللہ ﷺ :من صلی في مسجدي أربعین صلوۃ ۔۔الخ (طبرانی) رسول اعظم ﷺ نے ارشاد فرمایا میری مسجد میں جس نے چالس نمازیں پڑھیں وہ جہنم کے آگ سے اور نفاق سے محفوظ رہے گا۔

زائرِ قبر رسول کو سب سے بڑی نعمت جو ملتی ہے وہ ہے آپ ؐ کی بارگاہِ اقدس میں سلام کی پیشکشی۔ حضور نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں میری خدمت میں جو سلام پیش کرتا ہے میں خود اس کا جواب دیتا ہوں۔ رحمتِ عالم کی خدمت میں سلام پیش کرنے والے امتی کو جواب ملتاہے۔ اورمزید شرف یہ ہے کہ بارگاہِ نبوی میں توسل نبی سے دعائیں مقبول ہوتیں ہیں۔ جو شخص قبرِرسول کے پاس آکر رب کریم کی بارگاہ میں آپ کے وسیلے سے دعا مانگتا ہے اللہ رب العزت اس کی دعائیں جلد قبول فرماتا ہے۔ چنانچہ ابن ابی شیبہ میں صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کہ حضرت عمر فاروق ؓ قبر انور کے پاس آکر عرض کرتے ہیں یا رسول اللہ قحط پڑا ہوا ہے لوگ ہلاک ہو رہے ہیں اپنی امت کے لئے بارش طلب فرمائیں ۔ یا رسول اللہ ﷺ استسق لامتک فانھم قد ھلکوا ۔ یا رسول اللہ آپ اپنی امت کیلئے بارش طلب کیجئے کیونکہ وہ ہلاک ہو رہی ہے۔ جب حضرت عمر ؓ نے یہ التجاء کی تو اسی شب حضرت عمر ؓ کے خواب میں نبی کریم ﷺ تشریف لائے اور فرمایا اے عمر! مدینہ والوں سے کہہ دو کہ بارش ہوگی۔ اسی طرح علامہ ابن جوزی نے روایت کی ہے ایک سال اہل مدینہ قحط سالی میں مبتلا ہو گئے قحط سالی کی وجہ سے سب لوگ پریشان ہو کر حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے پاس آئے تو آپ نے فرمایا کہ رسول ﷺ کی قبر شریف کے پاس چلو اور اس میں ایک کھڑکی آسمان کی طرف کھولو تاکہ آپ کی قبر اور آسمان کے درمیان کوئی پردہ نہ رہے۔ مدینے والے حضرت عائشہ ؓ کے حکم کے مطابق روضہ رسول کے پاس حاضر ہوئے اور دعائیں مانگیں رب کریم نے اسی وقت خوب بارش نازل فرمائی (ابن جوزی) زیارت کے موقع پر آداب مدینہ شریف و آداب زیارت کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔

مدینہ شریف کی طرف روانگی سے قبل غسل کرلیں۔ عمدہ سفید لباس پہن لیں۔ مسواک کریں۔حضرت شیخ الحنفیہ کمال الدین ابن ہمام ؓ فرماتے ہیں مدینہ شریف زیارت قبرِ رسول کی نیت ہی سے جائیں مسجد نبوی کی زیارت کی نیت علیحدہ کرلیں۔ مدینہ شریف کی طرف روانگی کے وقت ہمیشہ آپ کی زیارت کا کثرت سے اشتیاق اور دربارِ عالی میں پہنچنے کی تمنا، دیدارِ نبی کی سعادت کی دعا کرتے رہیں۔ دنیا کی آرزاور سستی وغفلت سے بچتے رہیں۔ روحانیت غالب ہو، نورانیت ظاہر ہو، شوق وذوق ہو، خوشی وسرو ر ہو نور وانوارِ محمدی کے انعکاس کیلئے آمادہ رہیں۔ راستہ تمام رسول ِ پاک ﷺ پر کثرت کے ساتھ درود پاک پڑھتے رہیں۔ ہمیشہ باوضو رہیں۔

جب حرم شریف طیبہ کے قریب پہنچے اور وہاں کے مکانات ونشانات وٹیلوں کو دیکھے تو وظیفہ خضوع وخشوع وآداب گریہ وزاری میں گم رہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ جب مدینہ طیبہ کا زائر قریب پہنچتا ہے تو رحمت کے فرشتے تحفے لے کر اس کے استقبال کو آتے ہیں اور طرح طرح کے بشارات سے شامل ِ حال ہوتے ہیں۔ نورانی طبق اس کے اوپر نثار کرتے ہیں۔ منزل مقصود کے قریب ہونے پر ایسا تصور کرے کہ گویا وہ سلطان عالم کے دربار میں حاضر ہوا ہے اور نشانات وپہاڑوں کے دیکھنے سے اس کے دل میں عظمت پیدا ہو۔ تمام اعضاء کو گناہوں سے روکے رہے۔ جناب رسول خدا ﷺ پر درود کا ورد رکھے۔ دل سے آپ کی عظمت مقام کا لحاظ اور فکر رکھے نہ کہ محض زبانی تعلق ۔ بیجا حرکتِ اعضاء اور شور وغل جیسا کہ عوام کا دستور ہے اس سے باز رہے۔ اگر کمالِ مراقبہ حاصل نہ ہو تو خضوع ظاہری اور تکلف سے اچھوں کی مشابہت کو نہ چھوڑے کہ یہ حالت بھی تھوڑے سے استقلال اور استقامت کے بعد اسی حالت کو پیدا کردیتی ہے یا اس کے قریب پہنچادیتی ہے۔ جب مدینہ منورہ اور اس کے قبہ ومنا رے نظر آئیں تو اس تعظیم کی وجہ سے جو دل میں موجزن ہے سواری سے اتر جائیں اگر ہو سکے تو مسجد شریف تک بغیر چپل پیادہ جائیں۔ حدیث میں آیا ہے کہ جب عبد قیس کے وفد کی نظر آنحضرت ؐ کے جمال بے مثال پرپڑی تو اونٹوں کو بٹھانے سے پیشتر ہی اپنے آپ کو زمین پر گرادیا۔

آنحضرت ﷺ نے ان کو اس سے منع نہیں فرمایاجب حرمِ مدینہ میں پہنچے تو آنحضرت ؐ پر سلام کے بعد یہ دعا پڑھے: اللھم ھذا حرم رسولک فاجعلہ لي وقایۃ من النار وأمانا من العذاب وسوء الحساب، اللھم افتح لي ابواب رحمتک وارزقني فی زیارۃ نبیک ما رزقتہ اولیاء ک واھل طاعتک واغفرلي وارحمني یا خیر مسئوول۔ اس باب میں آنحضرت ؐ پر صلوٰۃ وسلام بھیجنے میں سب سے عمدہ استغراق ظاہری وباطنی ہے۔ اس مقام سے عظمت وجلال کا بھی تصور رہے۔ خوشی اور سرور اس وقت کے لوازمات میں سے ہے۔ اللہ کا فضل شامل کرکے اس مقام اور قبوں کی زیارت کی وجہ سے شکر گزاری میں بہ باطن مشغول رہے۔ وہ بڑے بڑے فتوحات وبرکات جو تمام عالم میں پھیلے ہوئے ہیں ان سب کا سرچشمہ یہی شہر ہے۔ اس خیال سے کہ یہ سرزمین جناب رسول ِ ؐ خدا کے قدموں سے سرفراز کی ہوئی ہے غافل نہ ہو، قدم رکھنے اور اٹھانے میں وہ ہیئت اور سکون جو آنحضرتؐ کو لازم رہا کرتی تھی ان سے موصوف رہے اور یہ تصور کرے کہ آپ کا دربار وہ عالی دربار ہے کہ ادنیٰ سی گستاخی اور بے ادبی (مثل شور وغل وغیرہ) بربادی ٔ اعمال کا سبب ہوجاتی ہے۔

مسجد شریف میں داخل ہونے سے پہلے صدقہ کرے ۔ ابتدائے اسلام میں یہ قاعدہ تھا کہ جو شخص آنحضرت ﷺ سے کچھ دریافت کرنا چاہتا تھا تو اس پر واجب تھا کہ کچھ صدقہ کرے اس کے بعد آنحضرت ﷺ سے کلام کرے۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے: اذا ناجیتم الرسول فقد موابین یدي نجواکم صدقۃ : جب تم رسول سے باتیں کرو تو اپنی باتوں سے پہلے صدقہ کرو۔ کہتے ہیں کہ سب سے پہلے جس شخص نے اس پر عمل کیا وہ امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے۔ بعد میں اس کا وجوب منسوخ ہو گیا لیکن استحباب جو صدقہ کی مطلق صفت لازمہ سے ہے باقی رہا۔ آنحضرت ﷺ کی زیارت وفات کے بعد بھی آپ کی حیات کا حکم رکھتی ہے۔ مسجد میں آنحضرت ﷺ کی زیارت کے قصد سے آنا تمام چیزوں اور سب کاموں سے مقدم سمجھے کسی دوسرے کام میں مصروف نہ ہو۔ مسجد میں داخل ہوتے وقت پہلے داہنا قدم رکھے۔ جب مسجد شریف میں داخل ہو تو نیت اعتکاف کی کرے۔ اگرچہ قیام کی مدت قلیل ہی ہو۔ تحیۃ المسجد کی نیت سے دورکعت نماز ادا کرے۔ قبر شریف سے اتنے ہی فاصلے پر کھڑے ہونا چاہئے جتنے فاصلے پر آپ کی حالت حیات میں بطریق ادب کھڑا ہونا مناسب تھا۔ اب چونکہ زائرین کا قیام تانبے کی جالی کے باہر ہوتا ہے۔ لہذا جالی کے متصل یا اس سے فاصلے پر کھڑا ہو تو دونوں طرح جائز ہے۔ دل میں یہ خیال کرے کہ آنحضرت ﷺ اس کی حاضری سے مطلع ہیں۔ آواز حد ِاعتدال میں رہے۔ یعنی نہ بہت بلند ہو نہ بالکل پست ۔ شرم وحیا سے موصوف ہو کر سلام عرض کرے : السلام علیک ایھا النبی الکریم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ تین بار کہے السلام علیک یا رسول اللہ السلام علیک یا نبي اللہ السلام علیک یا سید المرسلین السلام علیک یا خاتم النبیین۔ جب آنحضرت ؐ کی خدمت میں سلام سے فارغ ہو تو ایک ہاتھ کی حد تک دا ہنی جانب ہٹے اور کہے السلام علیک یا ابابکر الصدیق۔ السلام علیک یا عمر الفاروق۔ مدینہ منورہ میں قیام اور اس کے آداب کا بیان: اس شہر محترم میں قیام کو غنیمت سمجھے اور ساری کو شش مسجد کے اعتکاف اور اس میں قیام میں صرف کریں۔ وہاں کی حاضری میں ہر طرح کے کارِ خیر ونیکیاں اور صدقات نیز اپنے اوقات کو صوم وصلوٰۃ اور جنابِ رسول خدا ﷺ پر درود میں مصروف رکھنا لازم سمجھے۔ عبادت کا مسجد کے اس حصے میں مخصوص رکھنا جو زمانۂ نبوت میں تھی بلا شبہ افضل ہے۔ اگر مسجد میں رہے تو حجرہ شریف سے نظر نہ ہٹائے۔ اگر مسجد کے باہر ہو تو قبر شریف پر نہایت خشوع وخضوع سے نظر رکھے کہ اس کا حکم مستحکم ہونے میں مثل خانہ کعبہ دیکھنے کے ہے۔

بارگاہِ ایزدی میں دعاء ہے کہ وہ تمام اہل اسلام کو زیارت حرمین شریفین نصیب فرمائے اور زائرانِ روضہ اقدس کو حاضری کے تمام آداب ملحوظ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور انہیں دنیوی واخروی، ظاہری وباطنی فیوض وبرکات سے مالا مال فرمائے آمین بجاہ سید المرسلینؐ۔
٭٭٭