ایشیاء

اسرائیل میں حکومت کے خلاف ہزاروں افراد کا مظاہرہ

مسلسل نویں ہفتے کے لیے ہزاروں اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نتن یاہو کے تجویز کردہ عدالتی نظام میں متنازعہ ترمیم کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے ہفتہ کی شام تل ابیب میں سڑکوں پر نکل آئے۔

تل ابیب: مسلسل نویں ہفتے کے لیے ہزاروں اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نتن یاہو کے تجویز کردہ عدالتی نظام میں متنازعہ ترمیم کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے ہفتہ کی شام تل ابیب میں سڑکوں پر نکل آئے۔

متعلقہ خبریں
حماس کی شرائط منظور نہیں: نتن یاہو
اسماعیل ہنیہ کی معاہدے سے متعلق شراط
غزہ میں پہلا روزہ، اسرائیل نے فلسطینیوں کو مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے سے روک دیا
اسرائیل، دل آزار گانوں کے مقابلے کے اندراجات پر نظرِ ثانی کرے گا
سعودی عرب کا اسرائیل کے خلاف اہم بیان

مظاہرین نے عدالتی اصلاحات کے حکومتی منصوبے کو جمہوریت مخالف قرار دیا ہے۔یاد رہے نتن یاہو کی سربراہی میں دائیں اور انتہائی دائیں بازو کی مخلوط حکومت نے دسمبر 2022 میں اقتدار سنبھالا ہے۔ نتن یایو سپریم کورٹ کے اختیارات کو کم کرنے اور سیاست دانوں کو ججوں کے انتخاب میں زیادہ اختیارات دینے کے لیے اصلاحات لانے کی کوششیں کر رہے ہیں جس کے بعد سے اسرائیل میں مظاہرے شروع ہوگئے ہیں۔

جنوری کے آغاز میں اس منصوبے کے خلاف پہلا احتجاجی مظاہرہ ہوا۔مظاہرین نے تل ابیب کے مرکز میں اسرائیلی پرچم اٹھائے ہوئے "جمہوریت” اور "شرم” کے نعرے لگائے۔ دوسرے اسرائیلی شہروں میں بھی مظاہرے کیے گئے۔تاریخ کے استاد 53 سالہ رونن کوہن نے رائٹرز کو بتایا "میں اسرائیلی حکومت کی طرف سے مسلط کی گئی نظام کی تبدیلی کے خلاف مظاہرہ کرنے آیا تھا۔

مجھے امید ہے کہ اس بڑے مظاہرے کا اثر پڑے گا اور ثابت ہو گا کہ ہم ہار نہیں مانیں گے۔ ثانوی سکول کے استاد 68 سالہ اوفیر کوبٹسکی نے کہا کہ اس بات کا بہت بڑا خطرہ ہے کہ اسرائیل آمریت میں بدل جائے گا۔ ہم یہاں اپنی کامیابی ملنے تک دوبارہ مظاہرہ کرنے آئے ہیں۔تل ابیب میں گزشتہ بدھ کو مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئی تھیں۔ پولیس نے نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے واٹر کینن اور اسٹن گرینیڈ کا استعمال کیا تھا۔

تل ابیب میں اچیلوف ہسپتال کے ترجمان نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہاں 11 مظاہرین کا علاج کیا گیا تھا۔حکومت کے اس منصوبے کے مخالفین کا خیال ہے کہ اس کا مقصد سیاسی اتھارٹی کے حق میں عدالتی اختیار کو کمزور کرنا ہے۔ یہ جمہوری نظام کے لیے خطرہ ہے۔

تاہم نیتن یاہو اور وزیر انصاف یاریو لیون طاقت کی شاخوں میں توازن بحال کرنے کے لیے عدالتی نظام میں ترمیم کو ایک "بنیادی قدم” سمجھتے ہیں۔ وزیر اعظم اور ان کے اتحادی سپریم کورٹ کے ججوں کو سیاست زدہ سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے جج منتخب نمائندوں سے زیادہ طاقت رکھتے ہیں۔پارلیمنٹ نے گزشتہ منگل کو پہلی ریڈنگ میں اصلاحات میں دو بنیادی شقوں کی منظوری دی تھی۔

ایک شق ججوں کی تقرری کے عمل کو تبدیل کرتی ہے اور دوسری سپریم کورٹ کو ان بنیادی قوانین میں کسی بھی ترمیم کو منسوخ کرنے کے لیے نااہل قرار دیتی ہے جو اسرائیل کے آئین میں ایک قانون کے طور پر تصور کیے جاتے ہیں۔ایک اور متنازعہ شق مسثتنیٰ شق کا تعارف ہے جو پارلیمنٹ کو اپنے 120 ارکان میں سے 61 ووٹوں کی سادہ اکثریت سے سپریم کورٹ کے کچھ فیصلوں کو کالعدم کرنے کی اجازت دیتی ہے۔

اگلی تاریخوں میں پارلیمنٹ میں اس شق پر پہلی ریڈنگ متوقع ہے۔اب تک ایسا لگتا ہے کہ مظاہرے جو عام طور پر حکومت کی پالیسی کی مذمت کرتے ہیں نیتن یاہو اور ان کی اکثریت کو اپنے مقصد سے باز نہیں رکھیں گے۔

حزب اختلاف جس کی قیادت سینٹرسٹ لیڈر یائر لاپڈ کر رہے ہیں نے متعدد مرتبہ نیتن یاہو پر ترمیم کے ذریعے اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنے کا الزام لگایا ہے۔ کچھ ناقدین نے عدالتی اصلاحات کے اس منصوبے کو وزیر اعظم نیتن یاھو پر بدعنوانی کے الزامات میں جاری مقدمے سے جوڑا اور کہا ہے کہ انہوں نے عدالتی نظام کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے۔