دہلی

”انڈیا دی مودی کوئسچن“ ڈاکومنٹری کے خلاف 10 ہزار کروڑ ہرجانہ کا دعویٰ

جسٹس سچن دتا نے بی بی سی (برطانیہ) کے علاوہ بی بی سی(انڈیا) کو بھی گجرات کی غیرسرکاری تنظیم ”جسٹس آن ٹرائیل“(این جی او) کی داخل کردہ درخواست پر نوٹس جاری کیا۔

نئی دہلی: ایک غیرسرکاری تنظیم کی جانب سے ڈاکومنٹری ”انڈیا دی مودی کوئسچن“ سے ملک کی نیک نامی پر تہمت اور وزیراعظم نریندر مودی کے علاوہ ہندوستان کی عدلیہ پر جھوٹے اور توہین آمیز الزامات کیلئے پہنچنے والے نقصانات کی پابجائی کرنے پیش کردہ درخواست پر دہلی ہائیکورٹ نے آج برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن (بی بی سی) کو تازہ نوٹسیں جاری کیا۔

متعلقہ خبریں
فٹبالر کریم بنزیما نے فرانس کے وزیر داخلہ کے خلاف ہتک عزت کا کیس کردیا
”بھارت میراپریوار۔ میری زندگی کھلی کتاب“:مودی
11 ریاستوں کی جیلوں میں ذات پات کی بنیاد پر بھیدبھاؤ
وزیر اعظم کے ہاتھوں اے پی میں این اے سی آئی این کے کیمپس کا افتتاح
اڈانی مسئلہ پر کانگریس سے وضاحت کامطالبہ، سرمایہ کاری کے دعوؤں پر شک و شبہات

 جسٹس سچن دتا نے بی بی سی (برطانیہ) کے علاوہ بی بی سی(انڈیا) کو بھی گجرات کی غیرسرکاری تنظیم ”جسٹس آن ٹرائیل“(این جی او) کی داخل کردہ درخواست پر نوٹس جاری کیا۔ درخواست گزار این جی او کے وکیل نے مطلع کیا کہ قبل ازیں بی بی سی (برطانیہ) اور بی بی سی (انڈیا) کو جاری کردہ نوٹسیں روانہ نہیں کی گئیں تھیں۔

 ایڈوکیٹ سدھارتھ شرما جو این جی او کی نمائندگی کرتے ہیں‘ نے مدعا علیہان کونوٹس روانہ کرنے کیلئے مزید مہلت طلب کیاتھا۔ ہائی کورٹ نے آج اس معاملہ میں حکم جاری کیا کہ مدعا علیہان کو تازہ نوٹسیں تمام دستیاب ذرائع سے جاری کئے جائیں اور آئندہ سماعت کے لئے تاریخ 15  دسمبر مقرر کیا۔

 درخواست گزار  این جی او کیلئے مدعاعلیہان سے 10 ہزار کروڑ روپے ہرجہ طلب کیاگیا۔ کیونکہ وزیر اعظم ہندوستان اور حکومت ہند کی نیک نامی  متاثرہوئی ہے اور مزید کہا گیا کہ گجرات فسادات کے دوران ریاستی حکومت گجرات اور اس کے عوام کی نیک نامی بھی متاثر ہوئی ہے۔

حکومت نے ڈاکومنٹری جاری ہونے کے فوری بعد اس پر امتناع عائد کردیا تھا۔ درخواست میں استدلال پیش کیاگیا کہ ڈاکومنٹری میں شامل مواد ملک کی نیک نامی پر تہمت ہے اور وزیر اعظم ہندوستان‘ ہندوستانی عدلیہ اور ہندوستانی فوجداری نظام انصاف پر جھوٹی تہمت ہے۔

قبل ازیں مرکزی حکومت نے ہدایتیں جاری کرکے کئی یو ٹیوب ویڈیوز اور ٹوئٹر پوسٹ پر امتناع عائد کیا جو بی بی سی کی ڈاکومنٹری سے تعلق رکھتے ہیں۔ وزارت خارجہ نے اس ڈاکومنٹری کو ایک پروپگنڈہ کا ذریعہ بتایا جو بے مقصد ہے اور نو آبادیاتی انداز فکر کو اجاگر کرتی ہے۔