مشرق وسطیٰ

مظاہرین کو ایرانی عدالتیں سزائے موت نہ دیں : سنی عالم دین

سنی عالم دین مولوی عبدالحمید کے مطابق محض پتھر اٹھانے اور نعرے بلند کر کے شور کرنے والے مظاہرین محارب نہیں ہو سکتے۔ اس لیے انہیں سزائے موت دیا جانا غلط ہے۔

تہران: ایران کے بڑے سنی عالم نے مہسا امینی کی پولیس حراست میں ہلاکت کے خلاف مظاہرے کرنے والے شہریوں کو سزائے موت دینے کو غلط قرار دیا ہے۔

سنی عالم دین مولوی عبدالحمید کے مطابق محض پتھر اٹھانے اور نعرے بلند کر کے شور کرنے والے مظاہرین محارب نہیں ہو سکتے۔ اس لیے انہیں سزائے موت دیا جانا غلط ہے۔ یہ صورت حال تب پیدا ہوئی کہ مولوی عبدالحمید کو یہ بیان دینا پڑا جب تین ماہ سے کم عرصے میں 21 ایرانیوں کو سزائے موت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

جنوب مشرقی ایران میں صوبہ سیستان بد امنی کا شکار ہے اور بلوچ خواتین کی سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز سامنے آرہی ہیں جن میں وہ کھلے عام یہ کہہ رہی ہیں کہ ‘جس نے میرے بھائی کو قتل کیا ہے میں اسے کروں گی۔’ ایک وحشت ناک ماحول بن چکا ہے۔ پورے ایران میں احتجاجی مظاہروں کو اڑھائی ماہ سے زیادہ دن گذر چکے ہیں۔

جبکہ یہ سلسلہ بڑھتا جارہا ہے۔ کرد علاقے میں بھی مظاہرین کی طرف سے ایرانی حکومت کو سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔ حد یہ ہے کہ مظاہرین نے ورلڈ کپ میں امریکی ٹیم سے ایرانی ٹیم کی شکست پر گلی کوچوں میں جشن منایا ہے۔ اس صورت حال میں سنی عالم دین نے حکومت اور عدلیہ کو مظاہرین کو سزائے موت دینے کے بجائے نرمی کا مشورہ دیا ہے۔

احتجاجی مظاہرین پر ایرانی پولیس کی طرف سے فائرنگ اور آنسو گیا کے واقعات دیکھنے میں آتے ہیں۔ ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے۔کہ زخمی مظاہرین کو عارضی طور پر مسجد میں منتقل کیا گیا ہے۔ مولوی عبدالحمید نے جمعہ کے روز اپنے خطاب میں کہا ‘ قرآن میں محارب اُن لوگوں کو قرار دیا گیا ہے جو مسلح ہوں اور لڑائی پر آمادہ ہوں۔

دوسروں کو محاربین کے زمرے میں ڈال کر سزائے موت نہیں دینا چاہیے۔ واضح رہے سیستانی دارالحکومت زاہدان کے علاوہ چابہار، تافتان اور صوبے کے دوسرے علاقوں میں بھی احتجاج جاری ہے۔ سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ویڈیوز کے مطابق احتجاج ہر جگہ جاری ہے۔

اقوام متحدہ کے مقرر کردہ غیر جانبدار ماہر برائے ایران جاوید رحمان نے مظاہرین کے خلاف بڑھتے ہوئے جبر پر تشویش ظاہر کی ہے۔ اسی سلسلے میں سزائے موت سنائی جارہی ہے۔’ خیال رہے اب تک 21 گرفتار کیے گئے مظاہرین کو سزائے موت سامنا ہے۔ ان میں ایک ایرانی خاتون بھی شامل ہے۔ 16 ستمبر سے اب تک مجموعی طور پر 14000 مظاہرین گرفتار کیے جا چکے ہیں۔