مضامین

قطر کو سلام!

ضیاءچترالی

وہ ایک معذور نوجوان ہے، جسم کے نچلے دھڑ سے محروم۔ اسٹیڈیم میں موجود ہزاروں افراد کی نظریں اسی پر جمی ہوئیں۔ دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ کے کیمرے اسی پہ فوکس۔ اچانک اس کے پیچھے سے ایک شخص نمودار ہوتا ہے۔ بھاری اور رعب دار آواز میں نوجوان سے پوچھتا ہے کہ دنیا میں مختلف اقوام، نسلیں اور ثقافتیں کس طرح ایک ساتھ رہ سکتی ہیں؟ نوجوان جواب میں سورة الحجرات کی آیت پڑھتا ہے : ترجمہ : ”اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں قوموں اور قبیلوں میں بانٹ دیا تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک خدا کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیز گار ہو۔“ (آیت:13) سوال پوچھنے والا نامور امریکی اداکار و ڈائرکٹر مورگن فری مین اور جواب دینے والا قطری ہیرو غانم المفاتح! اس خوبصورت سے مکالمے سے دنیا کے سب سے اسپورٹس میلے (فیفا ورلڈ کپ) کا افتتاح ہورہا ہے۔ کیا نرالہ انداز ہے! کیا خوبصورت پیغام ہے! پیدائشی بیماری کی وجہ سے غانم کا کمر سے نچلا حصہ نشونما نہ پاسکا۔ یوں وہ ماں باپ پر بوجھ بن گیا۔ اسکول والے اسے داخلہ دینے سے انکاری تھے۔ بمشکل ایک اسکول میں اس کا داخلہ ہوگیا۔ یہ بچہ آدھے جسم کاکامل انسان ثابت ہوا۔ اب یہ کامیاب موٹیوشنل اسپیکر ہے اور اپنی آئس کریم کمپنی کا مالک، جس کی قطر بھر میں 6 شاخیں ہیں۔ وہ اپنے نام سے ایک رفاہی ادارہ بھی چلاتا اور معذور افراد کی مدد کرتا ہے۔ اس نے چند برس قبل وہیل چیئر کے بغیر ہاتھوں پر چل کر عمرہ ادا کرکے شہرت حاصل کی۔ یہ عجیب بچہ ہے۔ پاﺅں نہیں رکھتا فٹبال کا شوقین ہے۔ ہاتھوں پہ دستانے پہن کر اپنا یہ شوق پورا کرتا ہے۔ یہ غوطہ خوری کا بھی ماہر ہے۔ دو سومیٹر تک اس کرتب کا جوہر دکھاچکا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ غانم قرآن پاک کا حافظ ہے۔ قطری حکومت نے اسی معذور نوجوان سے ورلڈ کپ کا افتتاح کراکے تاریخ رقم کردی اور اسپیشل افراد کو مزید اسپیشل بنادیا۔
ورلڈ کپ کے مقابلے تو اس سے پہلے بھی بہت ہوئے ہیں، مگر قطر نے ہر لحاظ سے تاریخ رقم کردی۔ اسٹیڈیمز کی تعمیر سے لے کر تماشائیوں کے لیے اعلیٰ ترین سہولیات تک، ہر چیز ایسی کہ اس کی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی۔ قطر پہنچنے والے ترقی یافتہ ممالک کے تماشائی بھی حیرت زدہ۔ ورلڈ کپ کے دوران تین بحری جہاز دوحہ کے سمندر میں لنگر انداز ہیں جن میں ہوٹل قائم کیے گئے ہیں۔ یہ افتتاحی تقریب قطر کے شہر الخور میں واقع البیت اسٹیڈیم میں منعقد کی گئی۔ باوقار انداز میں نہایت موثر طریقے سے عربی ثقافت کے رنگ پیش کیے گئے۔ آغاز سے قبل ایک ویڈیو میں سمندر کے اندر وہیل اور شارک مچھلیوںکی تیراکی کے ساتھ اونٹوں کا رقص دکھایا گیا۔ معروف ہالی ووڈ اداکار مورگن فری مین نے امید ، اتحاد اور برداشت کا پیغام دیا۔ پھر ورلڈ کپ کا آفیشل میسکوٹ میدان میں لایا گیا۔ یہ بھی عرب ثقافت کا آئینہ دار تھا۔ بعد ازاں فرانس کی 1998 ورلڈ کپ ونر ٹیم کے رکن مار سے ڈیسلے نے فیفا ٹرافی کی رونما ئی کی۔ اس کے بعد قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی نے ورلڈ کپ کے باقاعدہ آغاز کا اعلان کیا۔ اپنے مختصر خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ فٹبال ورلڈ کپ ایوینٹ نے آج تمام قومیتوں، عقیدوں کو ایک جگہ جمع کردیا، قطر اور عرب دنیا کی طرف سے ورلڈ کپ 2022 میں سب کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس موقع پر تاریخ میں پہلی بار ترک صدر رجب طیب اردغان اور مصری آمر جنرل سیسی کی بھی ملاقات ہوئی۔ جب دونوں ہاتھ ملارہے تھے تو امیر قطر پیچھے کھڑے مسکراتے رہے۔ قطر کو اس اعزاز سے محروم کرنے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانے والے خلیجی رہنماﺅں کو بھی تمیم صاحب نے مدعو کیا تھا۔ چنانچہ سعودی ولی عہد، یو اے ای کے نائب صدر اور دبئی کے امیر شیخ محمد بن راشد المکتوب بھی افتتاحی تقریب میں موجود تھے۔ امیر قطر کے خطاب کے بعد آتشبازی کا بھی مظاہرہ کیا گیا اور مختصر مگر پُروقار تقریب اپنے اختتام کو پہنچی۔ افتتاحی میاچ میزبان قطر اور ایکواڈور کے درمیان کھیلا گیا جس میں عالمی ریکارڈ قائم ہوگیا۔ 1930 سے 2018 تک یعنی 88 سال کے دوران 21بار ورلڈ کپ مقابلوں کا انعقاد ہوا اور اس مرتبہ پہلی بار میزبان ٹیم کو افتتاحی میاچ میں صفر سے شکست کاسامنا کرنا پڑا۔ کھیلوں کی دنیا کے اس بڑے ایونٹ کی میزبانی چوںکہ ایک مسلم ملک کے حصے میں آئی ہے جس پر مغربی ممالک کا تعصب کھل کر سامنے آگیا ہے جو انسانی حقوق کی آڑ میں قطر کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ بی بی سی جیسے اداروں نے اس افتتاحی تقریب کا غیراعلانیہ بائیکاٹ کیا جس پر بعض مغربی ذرائع ابلاغ کو بھی حیرت ہے۔ فٹبال کی عالمی تنظیم فیفا کے صدر گیانی انفانٹینو نے اس طرز عمل کو یوروپ کی منافقت قرار دے دیا ہے۔ اس وقت چوں کہ قطر عالمی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے، دوحہ ایرپورٹ دنیا کا مصروف ترین ہوائی اڈہ ہے، جس میں یومیہ سینکڑوں پروازوں میں ہزاروں شائقین فٹبال کی آمد کا سلسلہ جاری ہے جسے متعصب یوروپی ہضم نہیں کرپارہے ہیں۔ غیر ملکی مزدوروں سے بدسلوکی اور ہم جنس پرستوں کے حقوق نیز شراب کی فروخت پر پابندی کے بہانے قطر الزامات کی زد میں ہے۔ ورلڈ کپ کے آغاز سے ایک روز قبل دوحہ میں پریس کانرنس کرتے ہوئے گیانی انفانٹینو نے قطراور فیفا کا بھرپور دفاع کیا اور کہا کہ قطر میںغیر ملکی مزدور یوروپ میں موجود پناہ گزینوں سے کہیں زیادہ اچھی حالت میں ہیں۔ دنیا کو اخلاقیات کا سبق دینے سے پہلے ہم یوروپی گزشتہ 3ہزار برسوں سے جو کچھ کررہے ہیں، اس کے لیے ہمیں آئندہ 3ہزار برس تک معافی مانگنی چاہیے۔ واضح رہے کہ کسی بھی ملک کے لیے فیفا ورلڈ کپ جیسے بڑے ٹورنمنٹ کا انعقاد کروانا آسان ہدف نہیں ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میزبان ملک (یا ممالک) کا اعلان 8 سے 10سال پہلے ہی کردیا جاتاہے تاکہ وہ اپنی تیاریاں مطلوبہ وقت تک مکمل کرسکیں۔ قطر نے جو تیاریاں کی ہیں اور اس پر جو اخراجات آئے ہیں، وہ اب تک ہونے والے تمام کھیلوں کے مقابلوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ ابتدائی اخراجات تو فیفا فراہم کرتا ہے تا کہ کام کا آغاز ہوسکے لیکن دیگر اخراجات میزبان ملک کے ذمے ہوتے ہیں۔ 1990 میں اٹلی میں ہونے والے ورلڈ کپ پر 4ارب ڈالر خرچ ہوئے۔ اس کے بعد بالترتیب اس ایونٹ کے اخراجات کچھ یوں ہیں:1994 کے امریکہ میں ہونے والے ورلڈ کپ میں 50کروڑ ڈالرز کی لاگت آئی۔1998 میں فرانس نے اس پر 2ارب 33 کروڑ ڈالر خرچ کیے۔2002 میں جنوبی کوریا اور جاپان نے مشترکہ طور پر میزبانی کی اور 7ارب ڈالر کے اخراجات آئے۔ 2006 میں جرمنی میں 4 ارب 60 کروڑ ڈالر کے خرچے سے یہ ایونٹ منعقد ہوا۔ 2010 کے جنوبی افریقہ میں ہونے والے ٹورنمنٹ میں 3 ارب 60 کروڑ ڈالر کا خرچہ آیا۔ 2014ءمیں برازیل نے اس کی تیاریوں پر 15 ارب ڈالر خرچ کیے۔2018ءمیں روس میں ہونے والے عالمی کپ میں 11ارب 60 کروڑ ڈالر کے اخراجات آئے۔ 2022 کے فیفا فٹبال ورلڈ کپ کی میزبانی قطر کے حصے میں آئی۔ قطر عالمی کپ کی میزبانی کرنے والا پہلا مسلم ملک اور دوسرا ایشیائی ملک ہے۔ اس نے ایسی بھرپور تیاریاں کی ہیں کہ حالیہ ورلڈ کپ‘ کھیلوں کی دنیا کا مہنگا ترین ٹورنمنٹ بن گیا ہے۔ قطر کی آبادی 2کروڑ80لاکھ ہے، لیکن یہ فی کس آمدنی کے اعتبار سے دنیا کے امیر ترین ممالک میںسے ایک ہے اور یہی وجہ ہے کہ قطر نے عالمی کپ کی تیاری کے لیے دل کھول کر پیسے خرچ کیے۔ اس ایونٹ پر اٹھنے والے اخراجات 220 ارب ڈالر سے متجاوز ہیں۔ اس نے عالمی معیار سے بھی بہت بلند 8شاہکار اسٹیڈیمز تیار کیے ہیں جن میں ورلڈ کپ کے 64میچز کھیلے جائیں گے۔ قطر وہ پہلا ملک ہے جس نے ایک عارضی اسٹیڈیم بھی بنایا ہے۔ ”اسٹیڈیم 974“ کو کنٹینروں سے بنایا گیا ہے۔ مقابلے ختم ہونے کے بعد انہیں ہٹادیا جائے گا۔ اسٹیڈیمز کی تعمیر میں 10ارب ڈالر خرچ ہوئے۔ باقی اخراجات قطر کے وژن 2030 کا حصہ ہیں۔ اس پلان کے تحت قطر اپنے شہریوں کو اعلیٰ ترین سہولیات دینا اور ان کی زندگی کے معیار کو بلند کرنا چاہتا ہے۔ جس کے تحت کئی منصوبے زیر تعمیر و تکمیل ہیں اور کچھ مکمل ہوچکے ہیں۔ جیسے 2019 میں دوحہ کے سب سے بڑے جدید زیرزمین سب وے نظام کا افتتاح کیا گیا جس پر 36 ارب ڈالر کی لاگت آئی۔ اس سب کے باوجود قطری حکام نے اپنی تہذیب و ثقافت اور مذہب کو مقدم رکھا ہے اور آنے واے مہمانوں سے یہی درخواست کی ہے کہ وہ ہمارے کلچر کا خیال رکھیں۔ سیکورٹی چیف النصری نے پہلے ہی واضح کیا تھا کہ 28 دن کے کھیل کے لیے ہم اپنا مذہب تبدیل نہیں کرسکتے۔ قطر تمام اقوام عالم کو اپنی سرزمین پر خوش آمدید کہتا ہے، مگر سب پر لازم ہوگا کہ وہ ہمارے مذہب اور ملکی قوانین کا احترام کریں۔ قطر ہر لحاظ سے خود مختار ملک ہے۔ عالمی فٹبال کپ میں نہ تو ہم اپنے ملک میں ہم جنس پرستوں کا پرچم لہرانے کی اجازت دے سکتے ہیں اور نہ ہی شائقین کو غیر مناسب لباس پہننے اور سرعام شراب نوشی کی۔ کیو ںکہ یہ تمام چیزیں ہمارے مذہب اسلام اور ہمارے ملکی قوانین کے منافی ہیں۔ اس لیے شراب کی خرید و فروخت اور ہم جنس پرستوں کا پرچم اٹھانے یا کوئی علامت ظاہر کرنے پر پابندی عائد کی ہے۔ اس کے ساتھ اسلام کے پیغام امن کو پھیلانے اور شائقین تک پہنچانے کا بھرپور انتظام کیا ہے۔ جس کی تفصیل ہم گزشتہ نشست میں عرض کرچکے ہیں۔ اس کا خاطر خواہ فائدہ بھی سامنے آرہا ہے۔ ٹورنمنٹ شروع ہونے سے پہلے ہی ایک ہزار افراد حلقہ بگوش اسلام ہوچکے تھے۔ جبکہ پہلے دن مزید 800افراد نے کلمہ پڑھ لیا۔ قطری حکام نے دعوت دین کے لیے دنیا کے نامور داعیوں اور اسلامی اسکالرس کو بھی مدعو کیا ہے۔ جن میں ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب بھی شامل ہیں۔ ایک قطری شہری کے بقول یوروپ اور امریکہ نے ڈاکٹر صاحب پر اپنے یہاں آنے کی پابندی عائد کردی ہے لیکن قدرت نے دنیا بھر سے لوگوں کو ان کے پاس دوحہ بھیج دیا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہورہے ہیں۔ خصوصاً اذان کی مسحور کن آواز زندگی میں پہلی بار سن کر لوگ اسلام کے قریب ہورہے ہیں۔ ہر تماشائی کو ایک بیگ کا ہدیہ پیش کیا جارہا ہے جو اسلام کے مکمل تعارف پر مشتمل کتاب اور عود اور مشک کی خوشبو جیسی اشیاءپر مشتمل ہے۔ انتظامیہ نے دنیا کو اسلام کے بارے میں آگاہ کرنے کے لیے نبی کریم کی رحمت، اعمال صالحہ اور صدقہ کے حوالے سے متعدد احادیث کو جگہ جگہ آویزاں کیا ہے۔ لگ ایسا رہا ہے کہ قطر والے موقع کی تلاش میں تھے کہ حکمت و بصیرت سے اسلام کے پیغام کو عام کیا جائے۔ اس کے ساتھ مسلمانوں کے اہم ترین مسئلہ ”فلسطین“ کو بھرپور طریقے سے اجاگر کیا جارہا ہے۔ فلسطینیوں سے ہمدردی کا اظہار مختلف طریقوں سے کرتے نظر آرہے ہیں۔ اسٹیڈیمز کے قریب ایک اونچی بلڈنگ میں لائٹنگ سے لکھا گیا ہے کہ ”غزہ ہمارے دلوں میں ہے“ اس کے ساتھ فلسطینی پرچموں کی بھی بہار آئی ہوئی ہے اور اسرائیلی چینل12کی شامت کہ پہلے تو کوئی اس سے بات کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ اگر کوئی بات کربھی لے تو فلسطین فلسطین کی گردان شروع کردیتا ہے۔ سلام یا قطر!
٭٭٭