طنز و مزاحمضامین

موقع

مظہر قادری

ملک کے لوگ اس بات پر ناراض ہوتے رہتے ہیں کہ لیڈ ردیش کو لوٹ کرکھارہے ہیں، لیکن چنوبھائی کی منطق بالکل الگ ہے۔وہ اِس بات پرسخت ناراض ہوجاتے ہیں جب ان سے کوئی کہتاہے کہ لیڈ ردیش کو بیچ کر کھارہے ہیں۔وہ بولتے ہیں اگرلیڈ رنہیں کھائے گا توکون کھائے گا۔تم میں اگردم ہے توتم کھاکے بتاؤیہ ملک کی ملکیت ہے اوراس ملک میں سب کو حق ہے کہ ملک کو لوٹ کرکھائیں! اگرآپ کو دانت نہیں ہیں اورچبانہیں سکتے یاآنت نہیں ہے ہضم نہیں کرسکتے تویہ آپ کی کمزوری ہے۔لیڈ رکے دانت بھی تیز ہوتے ہیں اورہاضمہ بھی اچھاہوتا ہے۔ وہ کتنا بھی کھالے، ہضم کرلیتا ہے۔ آپ اگرنہیں کھاسکتے اورکمزورہیں توآپ کو طاقتورکی طاقت کی یعنی کھانے والوں کی عزت کرنی چاہیے کہ وہ کتنی آسانی سے دیش کو لوٹ کر بغیر ڈکار لیے ہضم کر رہے ہیں۔یہ وہی لوگ ہیں جو چلاتے رہتے ہیں کہ یہ کھاگئے وہ کھاگئے، ان کو کھانے کا موقع نہیں ملا۔ جس کو کھانے کاموقع ملا اس کامنہ بند ہوجاتاہے اورجس کوکھانے کاموقع یالوٹنے کا موقع نہیں ملا وہ اپنے آپ کو بہت پاک دامن اور ایماندار بتاکر بیچارے محنت سے دھوکہ دے کر کھانے والوں کو ٹوکتا رہتا ہے۔ہماراتجربہ بتاتاہے کہ دیش کے اچھے اچھے لوگ چلے گئے‘کیونکہ وہ نہیں کھاتے تھے، لیکن جوکھاتے ہیں دیکھیے کتنے صحت منداورہنستے بولتے مزید کھانے کے لیے تیاربیٹھے ہیں۔ محنت کرنے والے کوصرف بڑی مشکل سے دووقت کی دال روٹی ہی ملتی ہے۔ اگر دیش کے سارے لوگ صرف محنت کرکے دال روٹی ہی کھانے پر اکتفاکرکے بیٹھ گئے توپھردیش ترقی کیسے کرے گا۔ترقی کرنے کے لیے مختلف پروجیکٹ شروع کرنا پڑتا ہے،کسی کو کھلانا پڑتا ہے،کسی سے کھانا پڑتا ہے جبھی توملک ترقی کرسکتا ہے۔اگردیش کے سارے لوگ ایمانداری سے پھوڑا اورگمپہ لے کر صرف اورصرف ایمانداری کی دن بھر کی محنت کی کمائی ہی کھانے کا سوچیں توجو آج ملک کی شان وشوکت ہے سارے آرام وآسائش یہ سب کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ ہم صرف دیش کے لیڈروں ہی کو دیش کولوٹ کے کھانے کے لیے مورد الزام نہیں ٹھہراسکتے۔ ہرآدمی اس ملک میں اپنے اپنے کاروبارمیں دھوکہ بازہے۔مزدورکے بھروسے پر کام چھوڑکر اگرآپ چلے گئے تووہ ایمانداری سے مسلسل کام نہیں کرتا‘بلکہ موقع ملتے ہی ٹیکہ لگاکر بیٹھ جاتا،دیر سے کام شروع کرتا،دیرتک کھانا کھاتا اورجلدی کام سے اترجاتا۔یہ ہماراتجربہ ہے۔ہم نے ایسے کئی تجربے کیے۔یہ ثابت کرنے کے لیے کہ ہم سب دھوکے بازہیں،ہم نے ایک نیاٹی وی خرید ا، اس کا ایک اندرونی تارنکال دیا جس سے وہ ٹی وی چلنا بند ہوگیا۔اُسے لے کر ہم ٹی وی میکانک کے پاس گئے اورکہاکہ ٹی وی کام نہیں کررہاہے۔وہ دوگھنٹے تک مسلسل مختلف طریقوں سے چیک کرنے کے بعد بولا، اس کا ٹیوب جل گیا ہے، نیا ڈالنا پڑے گا‘اس کے دس ہزارروپئے ہوں گے‘اورایک دودن لگ جائیں گے۔حالانکہ وہ جان گیا کہ صرف ایک تارنکلاہواہے،لیکن وہ ہمیں بے وقوف سمجھ کر دس ہزاردھوکے سے ہضم کرنے کے چکرمیں تھا۔پھرہم نے شوروم سے ایک نیا اے سی خریدا، اس کا بھی ایک تارنکال کرا ے سی میکانک کے پاس گئے اورکہاکہ اے سی خراب ہوگیاہے، نہیں چل رہاہے۔میکانک مختلف اوزارلگاکرتقریباً ایک گھنٹہ ہمارے سامنے اسے چیک کرنے کی ایکٹنگ کرتارہا،پھرحسب حال ہمیں بکراسمجھ کر بولاکہ اے سی کا کمپریسرجل گیاہے نیا کمپریسر ڈالنا پڑے گا۔ اس کے پندرہ ہزارروپئے ہوں گے اورایک ہفتہ ٹائم لگ جائے گا۔پھرہم نے ایک نیاسیل فون خریدا اوراس میں بھی ہم نے چھوٹی سی گڑبڑکرکے سیل فون کی دوکان میں جاکر بتایاکہ سیل فون نہیں چل رہاہے‘وہ دوکان والا سمجھ گیاکہ غافل مل گیا، وہ خوامخواہ کے چیک کرے جیساکرکے سیل فون پیچھے سے کھول کر چیزیں اِدھرکی اُدھراوراُدھر کی اِدھر کافی دیر تک کرنے کے بعد بولا اس کا مدربورڈ جل گیا ہے نیاڈالنا پڑے گا‘قیمتی فون ہے فوری ڈال لیجئے دس ہزارروپئے ہوں گے۔پھرہم نے اپنی گاڑی کے گیرکا ایک نٹ تھوڑا سا ڈھیلا کردیاجس سے گیرڈالنے میں بہت دشواری ہوگئی اورگاڑی میکانک کے پاس لے جاکر بولے کہ گاڑی کا گیر نہیں پڑرہاہے۔میکانک ہمیں دیکھ کر سمجھ گیاکہ یہ بیوقوف ہے۔کافی دیرتک ہمارے سامنے انجن اسٹارٹ اورآف کرتارہا‘کارخانے میں کام کرنے والے بچوں سے گاڑی آگے پیچھے ڈھکیلنے لگایا،اس کے بعد بولاکہ گیرباکس خراب ہوگیا ہے بیس ہزارروپئے ہوں گے۔یہ خراب ہوگیاسوگیرباکس نکال کے نیا گیرباکس چڑھانا پڑے گا۔ساری رات کام کرکے کل صبح آپ کو گاڑی تیارکرکے دے دیتاہوں۔ہم نے اپنے ایک دوست کو غیر محسوس طریقے سے وہاں کھڑا کردیاتھا جیسے ہی ہم راضی ہوکے وہاں سے ہٹے میکانک جاتے جاتے کارخانے میں کام کرنے والے ایک بچے سے بولا رات میں کارخانہ بندکرتے وقت گیرکانٹ پانے سے ٹائٹ کردو۔۔۔۔۔
چنوبھائی نے یہ مثالیں دے کر ثابت کردیاکہ صرف لیڈ رہی اس دیش کو لوٹ کر نہیں کھارہے ہیں بلکہ ہم سب دھوکے بازہیں۔جس کی جوفیلڈ ہے اس میں دھوکہ دینے کا ذراسا موقع ملا وہ اپنی اوقات کے حساب سے دھوکہ دیتا ہے۔ہمارے سسٹم میں ہی رشوت اوردھوکہ کازہر اتنا پھیلاہواہے کہ صر ف جس کو موقع نہیں ملتاوہی اپنی ایمانداری کا ڈھنڈورا پٹتے رہتا اورجیسے ہی موقع ملا اس کا منہ بند ہوجاتا۔بجائے موقع نہیں ملے تک ”اُنے کھارااِنے کھارا“بولنے کے ہمیں اپنے سسٹم کو سدھارنا چاہیے۔ذہنیت بدلنی چاہیے۔ ہرآدمی کو اتنا خودمکتفی بنانا چاہیے کہ شارٹ کٹ میں ترقی کرنے کا سوچنا چھوڑدے۔٭٭