مشرق وسطیٰ

ایران میں خاتون کی موت پر احتجاجی مظاہرے‘ 5 افراد ہلاک

ایرانی سیکیوریٹی فورسس نے کل 5 احتجاجیوں کو ہلاک کردیا‘جبکہ ایک نوجوان خاتون کی موت پر بڑے پیمانہ پر بے چینی پھیلی ہوئی تھی۔

تہران: ایرانی سیکیوریٹی فورسس نے کل 5 احتجاجیوں کو ہلاک کردیا‘جبکہ ایک نوجوان خاتون کی موت پر بڑے پیمانہ پر بے چینی پھیلی ہوئی تھی۔ خاتون کو ملک کے قدامت پرستانہ ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی کی پاداش میں گرفتار کیاگیاتھا۔

اخلاقی پولیس نے 22 سالہ مہسا امینی کو منگل کو گرفتار کیا کیونکہ وہ اسلامی اسکارف سے اپنا سرڈھاکے ہوئے نہیں تھیں جسے حجاب کہاجاتاہے۔ ایرانی خواتین کے لیے یہ لازمی ہے۔ دوران تحویل اس کاانتقال ہوگیا جس کے نتیجہ میں سارے ملک میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے۔

فوجیوں نے ایران کے کرد علاقہ میں مظاہرین پر فائرنگ کردی۔ اس بات کااظہار ایک کرد گروپ اینگو ہیومن رائٹس آرگنائزیشن نے کیا۔ ساقیز شہر جو امینی کا آبائی شہر تھا وہاں دو ہلاکتیں ہوئیں دیگر دو ٹاونس میں ہلاک ہوگئے۔ گروپ نے یہ بات بتائی۔ اگرچیکہ اموات کا سرکاری طور پر کوئی ذکر نہیں اور گروپ کے دعوی کی جانچ بھی نہیں ہوسکی۔

گروپ نے اس بات کی اطلاع بھی دی کہ متعدد شہریوں میں 75 افراد زخمی اور کم ازکم 250 افراد کو گرفتار کیاگیا ہے۔ حقوق انسانی تنظیم نے ویڈیو اور فوٹوز جاری کرتے ہوئے جس میں مہلوکین کو پیش کیاگیاتھا۔ اس کے علاوہ مغربی ایران کے کرد شہروں میں مظاہرہ کے تیسرے دن کے دوران زخمیوں اور گرفتار کردہ افراد کے ویڈیوز بھی پیش کئے گئے۔ سارے ملک میں بالخصوص کرد علاقہ میں احتجاجی سڑکوں پر نکل آئے۔

8 تا10ملین ایرانی کرد احتجاج میں شامل تھے۔ نیم سرکاری خبر رساں ادارہ ’فارس‘نیوزیجنسی نے بتایا کہ تہران کی متعدد یونیورسٹیوں میں احتجاجی جمع ہوگئے تھے اور انہوں نے امینی کی موت کی تحقیقات اور اخلاقی پولیس کی برخواستگی کا مطالبہ کیا۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ مظاہرین بڑی تعداد میں وسطی شاہراہیں عام تہران کی کیشا ورس بلوارڈمیں جمع ہوگئے تھے وہ ڈکٹیٹر مردہ آباد کے نعرے لگارہے تھے۔

انہوں نے پولیس کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئے پولیس گاڑیوں کو نقصا ن پہنچایا۔ عینی شاہدین نے سیکوریٹی اندیشوں کے تحت اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی خواہش کی۔ گزشتہ پیر کو اے پی رپورٹرس نے مرکزی علاقہ کے چوراہے میں جلی ہوئی کچرے کے ڈبے اور پتھر بکھرے ہوئے دیکھے۔ اس کے علاوہ فضا میں آشک آور گیس کی بو محسوس ہورہی تھی۔ پولیس نے سنٹرل ویالی عصراسکوائر جانے والے شاہراہوں کو بھی مسدود کردیاتھا۔ سادہ لباس سیکیوریٹی فورسس اور انسداد فساد پولیس کو اس سارے علاقہ میں دیکھا گیا۔

موبائیل انٹرنٹ خدمات وسطی تہران میں معطل رہیں۔ بائیکس پر سوار متعدد احتجاجی دو جنکشن پر نمودار ہوئے جہاں انہوں نے کچرے کے ڈبے کو الٹ دیا اور سرکاری عہدیداروں کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئے وہاں سے تیزی سے روانہ ہوگئے۔ احتجاجیوں نے وسطی تہران میں حجاب اسٹریٹ پر مارچ کرتے ہوئے اخلاقی پولیس کی مذمت کی۔ اثنا نیوزایجنسی رپورٹ میں یہ بات بتائی۔ فارس نے بتایا کہ سینکڑوں افراد نے سرکاری عہدیداروں کے خلاف نعرے لگائے ان میں سے چند نے اپنے حجاب بھی نکال دیئے تھے۔

اس نے مزید بتایا کہ پولیس نے متعدد افراد کو گرفتار کرتے ہوئے لاٹھی چارج اور آشک آور گیس کے ذریعہ ہجوم کو منتشر کردیا۔ فارس کے مختصر ویڈیو میں متعدد افراد کے ایک ہجوم کو دکھایاگیاجس میں خواتین شامل تھیں جنہوں نے اپنے اسکارف اتاردیئے تھے اور اسلامی جمہوریہ مردہ آباد کے لگارہے تھے۔ اسی طرح سے مشہد کے شمال مغربی شہر میں مظاہرے ہوئے۔

تسنیم ایجنسی رپورٹ میں یہ بات بتائی۔ پولیس کا کہناہے کہ امینی حرکت قلب بند ہوجانے سے فوت ہوگئی تھی اور اس سے بدسلوکی کی بھی پولیس نے تردید کی۔ انہوں نے گذشتہ ہفتہ کلوز سرکٹ ویڈیو فوٹیج جاری کیا جس میں وہ وقت بتایاگیا تھا جس وقت وہ نیچے گرپڑی تھیں۔ اس کے خاندان کا کہناہے کہ کبھی بھی اسے قلب کا کوئی مرض لاحق نہیں رہا اور وہ پوری طرح صحت یاب تھیں۔اس کے والد امجد امینی فارس کو بتایا کہ پولیس نے اس بات کامظاہرہ کیا ہے وہ اسے قبول نہیں کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ فلم کو تراش دیاگیاتھا۔ایران کے صدر ابراہیم رئیسی جو پیر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے لیے نیویارک روانہ ہوگئے تھے انہوں نے تحقیقات کا حکم جاری کرتے ہوئے اس بات کاعہد کیا کہ وہ امینی کے خاندان کو فون کال کرتے ہوئے اس کیس کی کاروائی کریں گے۔عدلیہ نے تحقیقات کاآغاز کردیاہے اور پارلیمانی کمیٹی بھی اس واقعہ کاجائزہ لے رہی ہے۔امریکہ کے وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے بتایا کہ مہسا امینی کو آج زندہ رہناچاہئے تھا اس کے بجائے امریکہ اور ایران کی عوام اس کی موت کا سوگ منارہے ہیں۔بلنکن نے حکومت ایران سے اپیل کی کہ وہ خواتین کی منظم انداز میں ایذا رسانی کو ختم کرے اور پرامن احتجاجی مظاہروں کی اجازت دے۔

1979 سے اسلامی جمہوریہ ایران میں خواتین کے لیے حجاب لازمی رہاہے اور اخلاقی پولیس کو ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ حجاب اور دیگر تحدیدات کو نافذ کرے۔ حالیہ سالوں کے دوران نوجوان خواتین کے ساتھ سلوک پر اخلاقی پولیس پر تنقیدیں کی گئیں۔ متعدد خواتین نے 2017میں احتجاجی مظاہروں میں اپنے اسکارف اتاردیئے تھے۔

امریکہ میں مقیم ایرانی ناراض قائد مسی علی نجاد نے پیر کو ویڈیو پیش کئے جن میں خواتین کو حجاب اتارتے ہوئے دکھاگیاتھا اور ہجو م کی جانب سے احتجاج کے طور پر ایک حجاب کو نذر آتش کیاجارہاتھا۔ علاوہ ازیں تہران میں احتجاجیوں کو گرفتار بھی کیاگیا جن میں متعدد یونیورسٹیوں سے تعلق رکھنے والے اور دوسرے شہر مشہد میں بھی مظاہرین کی گرفتاریاں عمل میں آئی۔ فارس اور تسنیم نیوزایجنسی نے یہ بات بتائی۔