دہلی

4 ریاستوں کے اسمبلی الیکشن نتائج کا کل اعلان، صبح 8 بجے سے ووٹوں کی گنتی

مدھیہ پردیش‘ راجستھان‘ چھتیس گڑھ اور تلنگانہ میں کل ووٹوں کی گنتی ہوگی۔ ان ریاستوں کے اسمبلی الیکشن کو آئندہ سال منعقد شدنی عام انتخابات سے قبل سیمی فائنل کے طورپر دیکھا جارہا ہے۔

نئی دہلی: مدھیہ پردیش‘ راجستھان‘ چھتیس گڑھ اور تلنگانہ میں کل ووٹوں کی گنتی ہوگی۔ ان ریاستوں کے اسمبلی الیکشن کو آئندہ سال منعقد شدنی عام انتخابات سے قبل سیمی فائنل کے طورپر دیکھا جارہا ہے۔

متعلقہ خبریں
اے پی میں لوک سبھا کے 13حلقوں کیلئے ٹی ڈی پی کی پہلی فہرست جاری
6ریاستوں میں 10حساس تنصیبات عوام کی پہنچ سے باہر
ٹرین میں خاتون نے بچی کو جنم دیا، بوگی میں موجود خواتین نے ڈلیوری کرائی
پارلیمنٹ سیکیوریٹی میں نقائص، راجستھان کے ناگور سے موبائل فونس کے ٹکڑے برآمد
اسمبلی انتخابات: چندرابابو نائیڈو کی پون کلیان سے ملاقات

راجستھان اور چھتیس گڑھ میں کانگریس برسراقتدار ہے جبکہ مدھیہ پردیش میں بی جے پی کو اقتدار حاصل ہے۔ ان 3 ریاستوں میں دونوں جماعتوں میں راست مقابلہ ہوا۔ سیاسی مبصرین نتائج کے تعلق سے منقسم ہیں۔

بعض اکزٹ پولس میں مدھیہ پردیش میں بی جے پی کو آگے دکھایا گیا اور راجستھان میں اسے سبقت کی بات کہی گئی جبکہ تلنگانہ اور چھتیس گڑھ میں کانگریس کے فائدہ میں رہنے کی پیش قیاسی ہوئی ہے۔

ووٹوں کی گنتی صبح 8 بجے پوسٹل بیالٹس کے ساتھ شروع ہوگی۔ مدھیہ پردیش کی 230‘ چھتیس گڑھ کی 90‘ تلنگانہ کی 119 اور راجستھان کی 199 نشستوں کے لئے رائے شماری ہوگی۔ سیکوریٹی کے 3 گھیرے ہوں گے۔ پاس رکھنے والوں کو ہی رائے شماری مراکز میں داخل ہونے دیا جائے گا۔

مئی میں بی جے پی سے کرناٹک چھین لینے کے بعد کانگریس کی نظر اب مدھیہ پردیش اور تلنگانہ پر ہے۔ وہ راجستھان اور چھتیس گڑھ میں اپنا اقتدار برقرار رکھنے کی امید میں ہے۔ ان انتخابات میں متاثرکن کارکردگی اس کا حوصلہ بڑھادے گی۔ 2024 کے لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی سے ٹکر لینے کے لئے بنے اپوزیشن انڈیا اتحاد میں کانگریس کا قد بڑھ جائے گا۔

ڈپٹی چیف منسٹر کرناٹک ڈی کے شیوکمار نے ان خبروں کی تردید کی کہ ان سے کہا گیا ہے کہ وہ جیتنے والے کانگریس امیدواروں کو کرناٹک کے ریسارٹس اور ہوٹلوں میں لے آئیں۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی رکن اسمبلی کہیں نہیں جانے والا۔ کسی نے بھی مجھے یہ ذمہ داری نہیں دی ہے۔

میں پراعتماد ہوں کہ تمام ریاستوں میں ہماری جیت ہوگی۔ ڈی کے شیوکمار نے اگست 2017 کے راجیہ سبھا انتخابات کے دوران گجرات سے 44 ارکان ِ اسمبلی کو کرناٹک لانے کے انتظابات کئے تھے۔ وہ بنگلورو میں میڈیا سے بات چیت کررہے تھے۔ مدھیہ پردیش میں 52 ضلع مستقروں پر رائے شماری ہوگی۔

اِس ریاست میں 2533 امیدوار میدان میں ہیں۔ راجستھان میں 199 نشستوں کے لئے 1800 امیدواروں نے قسمت آزمائی۔ ریاست میں ووٹوں کی گنتی کے لئے 979 ٹیبلس لگائے گئے ہیں۔ اسٹرانگ رومس کو مبصرین‘ امیدواروں اور ان کے نمائندوں کی موجودگی میں کھولا جائے گا۔

اتوار کے دن جب 4 ریاستوں کے اسمبلی الیکشن کے ووٹوں کی گنتی ہوگی تو نتائج نہ صرف ملک کے سیاسی منظرنامہ پر بڑا اثر ڈالیں گے بلکہ یہ کئی علاقائی قائدین کا سیاسی مقدر بھی واضح کردیں گے کیونکہ ریاستوں میں کئی دہوں سے سیاست ان قائدین کے گرد ہی گھوم رہی ہے۔

مدھیہ پردیش میں بی جے پی قائد اور چیف منسٹر شیوراج سنگھ چوہان کا بہت کچھ داؤ پر لگا ہے جنہوں نے کانگریس سے درپیش چیلنج سے نمٹنے اپنی حکومت کی فلاحی اسکیموں پر انحصار کیا۔ خود ان کی پارٹی میں کئی لوگ انہیں ہٹانا چاہتے ہیں۔

بی جے پی نے امیدوارِ چیف منسٹری کی حیثیت سے ان کا نام نہیں لیا۔ اس نے کئی بڑے علاقائی قائدین بشمول مرکزی وزرا سے الیکشن لڑوایا تاکہ اجتماعی قیادت کا پیام جائے۔ شیوراج سنگھ چوہان کو بڑی سرگرمی سے مہم چلانی پڑی۔ انہیں رائے دہندوں سے جذباتی طورپر جڑنے کی بھی کوشش کرنی پڑی تاکہ ریاست کی سیاست میں ان کا دبدبہ برقرار رہے۔

بی جے پی کی کارکردگی طئے کرے گی کہ آیا ریاست میں طویل عرصہ سے چیف منسٹری کے عہدہ پر فائز اس کے قائد کی پرزور واپسی ہوتی ہے یا نہیں۔ شیوراج سنگھ چوہان 2005 سے حکومت کی کمان سنبھالے ہوئے ہیں۔ 2018 کے انتخابات کے بعد مختصر وقفہ کے لئے وہ اقتدار سے دور رہے کیونکہ اس وقت تقریباً 15ماہ کے لئے کمل ناتھ کی کانگریس حکومت بنی تھی۔

راجستھان میں امکان ہے کہ منفی نتائج کانگریس قائد و چیف منسٹر اشوک گہلوت اور ان کی پیشرو بی جے پی کی وسندھرا راجے دونوں کے سیاسی مقدر پر اثرانداز ہوں گے۔ شیوراج سنگھ چوہان کی طرح اشوک گہلوت نے بھی اپنی حکومت کے فلاحی اقدامات پر انحصار کیا۔

اقتدار گنوانے کی صورت میں کانگریس کو او بی سی قائد سے آگے دیکھنا ہوگا جو 3 مرتبہ چیف منسٹر رہے جبکہ وسندھرا راجے کا سیاسی مقدر بھی بی جے پی کی کارکردگی پر منحصر ہوگا۔ مدھیہ پردیش اور راجستھان میں بی جے پی کے 7 ارکان ِ پارلیمنٹ نے الیکشن لڑا۔

چھتیس گڑھ میں بھگوا جماعت کے 4 اور تلنگانہ میں 3 ارکان ِ پارلیمنٹ نے اسمبلی الیکشن میں اپنی قسمت آزمائی۔ مرکزی وزیر جیوترآدتیہ سندھیا کا بھی بہت کچھ داؤ پر لگا ہے۔ وہ قبل ازیں کانگریس میں تھے۔

چھتیس گڑھ میں سیاسی مبصرین کی نظر رمن سنگھ کے مقدر پر لگی ہے جو 2003-18 کے درمیان چیف منسٹر تھے۔ چھتیس گڑھ‘ مدھیہ پردیش‘ راجستھان اور تلنگانہ میں ووٹوں کی گنتی اتوار کے دن ہوگی جبکہ میزورم میں رائے شماری پیر کو ہوگی۔