مشرق وسطیٰ

اسرائیل کا حساس جوہری میزائل اڈہ بھی حماس کے نشانہ کی زد میں رہا

سیٹلائیٹ کی مدد سے لی گئی تصاویر نے بھی حماس راکٹ حملوں سے اس جوہری میزائلوں سے لیس فوجی اڈے پر آگے کے بھڑکنے کے مناظر دیکھے ہیں۔

یروشلم: فلسطینی مزاحمتی گروپ حماس کی جانب سے سات اکتوبر کو کیے گئے راکٹ حملوں میں اسرائیل کا ایک ایسا حساس فوجی اڈہ بھی نشانے کی زد پر رہا جہاں جوہری میزائل لانچ کرنے کی فوجی سہولت موجود تھی۔

متعلقہ خبریں
غزہ کے عوام کا تاریخی صبر جس نے اسلام کا سر بلند کردیا: رہبر انقلاب اسلامی
اسماعیل ہنیہ کی معاہدے سے متعلق شراط
غزہ میں امداد تقسیم کرنے والی ٹیم پر اسرائیل کی بمباری، 23 فلسطینی شہید
غزہ میں پہلا روزہ، اسرائیل نے فلسطینیوں کو مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے سے روک دیا
اسرائیل، دل آزار گانوں کے مقابلے کے اندراجات پر نظرِ ثانی کرے گا

سیٹلائیٹ کی مدد سے لی گئی تصاویر نے بھی حماس راکٹ حملوں سے اس جوہری میزائلوں سے لیس فوجی اڈے پر آگے کے بھڑکنے کے مناظر دیکھے ہیں۔ تاہم یہ آگ اڈے سے متصل خشک گھنی جھاڑیوں اور پودوں میں راکٹوں کی وجہ سے لگی تھی۔ اسرائیل کا یہ اڈہ ‘سڈاٹ مائیکا بیس’ وسطی اسرائیل میں واقع ہے۔ اس فوجی اڈے پر اسرائیلی فوج نے اپنے جوہری میزائل ذخیرہ کر رکھے ہیں۔

نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق سات اکتوبر کو اس جگہ پر آگ لگی دیکھی گئی۔ تاہم رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ اسرائیلی جوہری ہتھیاروں کی زد میں خطے کے کون کون سے ملک آ سکتے ہیں اور ان غیر اعلانیہ ہتھیاروں کے بارے میں جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے کا تبصرہ کیا ہے۔

واضح رہے اپنے جوہری ہتھیاروں کے بارے میں اسرائیل نے کبھی باضابطہ اعلان نہیں کیا ہے۔ البتہ سات اکتوبر کے بعد اسرائیلی کابینہ میں غزہ میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کرنے کی آپشن پر غور سے متعلق ایک کابینہ رکن کا بیان سامنے آنے سے یہ واشگاف ہو گیا کہ اسرائیل نے غیر اعلانیہ طور پر جوہری ہتھیار بنا رکھے ہیں ، یا اس نے اپنی کسی اتحادی طاقت سے جوہری ہتھیار حاصل کیے ہیں۔

 یہ بھی کہنا مشکل ہے کہ اسرائیل کے ان جوہری ہتھاروں کے ممکنہ ہدف کونسے ملک ہو سکتے ہیں کیونکہ ان کی رینج غزہ سے باہر پورے خطے پر آسانی سے محیط ہے۔

العربیہ کے مطابق اس انکشاف کے بعد علاقے میں فطری طور پر اسرائیلی جوہری ہتھیاروں کے بارے میں تشویش ابھری ہے۔ ترکیہ کے صدر نے اس سلسلے میں جوہری توانائی کے امور سے متعلق بین الاقوامی ادارے کو بھی متوجہ کر رکھا ہے۔

تاہم امریکہ سمیت کسی مغربی ملک یا بین الاقوامی جوہری ادارے نے اسرائیلی وزیر کے اس انکشاف کے بعد بھی سنجیدگی ظاہر نہیں کی تھی۔ اب نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ سے یہ مسئلہ ایک بار پھر ابھرا ہے۔ تاہم اسرائیل نے اس تازہ رپورٹ کے بارے میں بھی کوئی جواب نہیں دیا ہے۔

نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ‘فیڈریشن آف امیریکن سائنٹسٹس’ کی مرتب کردہ معلومات یہ ہیں کہ اسرائیل کے مذکورہ فوجی اڈے پر پاس 25 سے 50 کی تعداد کے درمیان جوہری ہتھیار ہیں۔ یہ جوہری ہتھیار جریکو میزائلوں کی صورت میں ہیں جو جوہری وار ہیڈ سے لیس ہیں۔

رپورٹ میں نیور یارک ٹائمز نے میزائل تھریٹ پراجیکٹ کے ‘سنٹر فار سٹریٹجک اینڈ انٹرنینشل سٹڈیز ‘ نام کے تھنک ٹینک کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی جریکو3 میزائل ٹھوس ایندھن کے حامل ہیں اور درمیانی فاصلے تک مار کرنےوالے بلیسٹک میزائل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ان اسرائیلی میزائلوں کی لمبائی ساڑھے پندرہ سے سولہ میٹر تک ہے اور ان کا قطر ایک اعشاریہ چھپن میٹر تک ہے۔ اس میزائل کا وزن اندازاً 29000 کلو گرام جبکہ اس کی صلاحیت 1000 سے 1300 کلو گرام کا جوہری بارود گرانے کی ہے۔ تاہم یہ میزائل 750 کلو گرام تک جوہری وار ہیڈز سے لیس ہیں اور ان کی رینج 4800 سے 6500 کلو میٹر تک ہے۔

نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے، اس انتہائی حساس نوعیت کے جوہری میزائل اڈے کو نشانہ بنانے سے حماس کے سات اکتوبر کے حملوں کی شدت و اہمیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ راکٹ اڈے کی حدود میں گرا ، تاہم یہ میزائل کی بیٹری اور ایک ریڈار کے درمیانی علاقے میں موجود ایک کھائئ میں گرا تھا ۔جہاں خشک پودوں کی وجہ سے آگ بھڑک اٹھی۔ ‘