امریکہ و کینیڈا

امریکی انتخابات میں مداخلت کرتے رہیں گے، روسی اولی گارچ کا سنسنی خیز دعویٰ

روسی صدر ولادیمیر پوتن سے قریبی تعلق رکھنے والے، واشنگٹن اور یورپی ممالک کی جانب سے پابندیوں کے شکار روس کی بااثر کاروباری شخصیت یوگینی پریگوزن نے امریکی انتخابات میں مداخلت کا اعتراف کیا ہے۔

ماسکو: گزشتہ کئی برسوں سے امریکی انتخابات میں روسی مداخلت کے الزامات کے بعد تازہ ترین مداخلت میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ روس کے صدر سے قریبی تعلق رکھنے والی ایک کاروباری شخصیت نے امریکی انتخابات میں مداخلت کا اعتراف کرلیا ہے۔

روسی صدر ولادیمیر پوتن سے قریبی تعلق رکھنے والے، واشنگٹن اور یورپی ممالک کی جانب سے پابندیوں کے شکار روس کی بااثر کاروباری شخصیت یوگینی پریگوزن نے امریکی انتخابات میں مداخلت کا اعتراف کیا ہے۔

ڈان میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق یوگینی پریگوزن کی ٹیم نے ان کے حوالے سے ایک بیان جاری کیا جس میں انہوں نے کہا کہ حضرات، ہم نے مداخلت کی، ہم مداخلت کر رہے ہیں اور ہم مداخلت کریں گے۔

پابندیوں کے شکار یوگینی پریگوزن پر کئی مغربی ممالک کے الیکشن میں ووٹنگ کے نتائج کو متاثر کرنے کے لئے ٹرول فیکٹری چلانے کا الزام ہے۔ یوگینی پریگوزن نے اپنے بیان میں کہا کہ احتیاط کے ساتھ، ٹھیک ضرورت کے مطابق، صرف ہدف کو نشانہ بناکر اور جس بھی طریقے سے ہم اسے کرسکتے ہیں، ہم اسے کر تے ہیں۔

انہوں نے مبہم اور غیر واضح انداز میں مزید کہا کہ اپنے آپریشن کے دوران ہم ایک ساتھ گردے اور جگر دونوں ہی نکال دیتے ہیں۔

یوگینی پریگوزن (61 سالہ) نے بلومبرگ کی ایک رپورٹ پر رد عمل ظاہر کرنے کی درخواست کا جواب دیا جس میں کہا گیا تھا کہ روس، امریکی وسط مدتی انتخابات میں مداخلت کر رہا ہے۔

یہ بیان وسط مدتی الیکشن کے لئے جاری انتخابی مہم کے آخری روز شائع کیا گیا جب کہ یہ مڈ ٹرم الیکشن امریکی صدر جو بائیڈن کی بقیہ مدت کا تعین کریں گے اور سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔

ستمبر میں، یوگینی پریگوزن نے تصدیق کی تھی کہ انہوں نے ویگنر مرسینری گروپ کی بنیاد رکھی تھی جس کے ارکان یوکرین میں ماسکو کے حملے میں ہراول دستے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

ہائی پروفائل شخصیت کی جانب سے سامنے آنے والے بیان کو بہت سے تجزیہ کاروں نے اس بات کا ثبوت قرار دیا ہے کہ یوگینی پریگوزن، روس میں ممکنہ سیاسی کردار پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔

ویگنر گروپ پر برسوں سے ماسکو کے لئے بیرون ملک منصوبوں کو پورا کرنے میں کردار ادا کرنے کے شکوک و شبہات تھے جبکہ کریملن اس گروپ کے ساتھ کسی بھی رابطے سے انکار کرتا رہا ہے۔

شام، لیبیا، مالی اور وسطی افریقی جمہوریہ سمیت تنازعات والے علاقوں میں اس کی موجودگی کی اطلاعات سامنے آتی رہی ہیں جہاں گروپ پر ریاستی اختیارات کے غلط استعمال اور ان پر قبضہ کرنے کا الزام لگایا جاتا رہا ہے۔

جولائی میں امریکی محکمہ خارجہ نے امریکی انتخابات میں مداخلت میں ملوث ہونے کے سلسلہ میں یوگینی پریگوزن سے متعلق معلومات دینے پر ایک کروڑ ڈالر کے انعام دینے کا اعلان کیا تھا۔

یوگینی پریگوزن نے حالیہ دنوں تک عوامی سطح پر خود کو کم نمایاں کیا اور پس منظر میں ہی رہے لیکن یوکرین کی جنگ کے دوران روس کے جرنیلوں کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے وہ خبروں کی زینت بنے اور نمایاں ہوگئے۔