مضامین

سائنس اور ٹیکنالوجی سے دوری؛ عالم اسلام کی بڑی محرومی

مسلمانوں کی ذلت وخواری کا سبب اس سائنس اور ٹیکنالوجی سے چھٹکارا پالینا تھا جو عہد وسطیٰ میں انہوں نے حاصل کی تھی اور جس کی بنا پر وہ ساری دنیا میں اپنا وقار اور معاشی برتری حاصل کئے ہوئے تھے۔

از ڈاکٹر محمد اقتدار حسین فاروقی

متعلقہ خبریں
نرمل میں پیر کو سائنس، میتھس، انوائرنمنٹل اور انسپائر ایگزیبیشن کا آغاز

مسلمانوں کے عروج وزوال پر دنیا کے متعد دانشوروں نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے اوربیشتر کا خیال ہے کہ سائنس اور ٹکنالوجی سے قربت اور پھر دوری ہی ان کے عروج وزوال کی کہانی ہے۔ 

ہندوستان کے مختلف علماء کرام اور دانشور حضرات نے بھی زوال اسلامی کے اسباب پر روشنی ڈالی ہے۔ تاریخی اعتبار سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ زوال کا اصل سبب مسلمانوں کی علم بہ معنی سائنس سے وہ بے توجہی ہے جو چودھویں صدی کے بعد ان کے ذہنوں میں پیدا ہوگئی تھی اور وہ علم سے بے زار نظر آنے لگے تھے۔

مسلمانوں کی ذلت وخواری کا سبب اس سائنس اور ٹیکنالوجی سے چھٹکارا پالینا تھا جو عہد وسطیٰ میں انہوں نے حاصل کی تھی اور جس کی بنا پر وہ ساری دنیا میں اپنا وقار اور معاشی برتری حاصل کئے ہوئے تھے۔ دین اور دنیا ساتھ لے کر چلنا ہی وہ قومی، ملی اور مذہبی فریضہ سمجھتے تھے۔ مولانا آزاد علم کو ایک اکائی مانتے تھے جس کی تقسیم کے وہ قائل نہ تھے۔ 

دنیائے اسلام کی علم سے بیزاری اور مملکت اسلامیہ کا جدید چیلنج سے ہم آ ہنگ نہ ہو نے کا رویہ ایک تکلیف دہ امر رہا ہے۔ مغربی تہذیب ایک سیلاب کی طرح اسلامی معاشرے میں اپنا اثرورسوخ پیدا کرتی چلی جارہی ہے۔ اسلامی معاشرہ میں سائنسی فکر کا فقدان ہے۔ ایک بڑے علاقہ میں معاشی بدحالی ہنوز مسئلہ بنی ہوئی ہے۔

دینی اور عصری علوم میں ٹکراؤ کا ماحول ہے۔ اصل مسائل سے آنکھ چرانا اور فروعی مسائل میں الجھے رہنا قومی شعار بن چکا ہے۔ اپنا محاسبہ نہ کرتے ہوئے، ملت اسلامیہ ماضی کی کامرانیوں پر نازاں تو ہے لیکن دور جدید کی کائناتی وسعتوں سے بے خبر اور تسخیر دنیا سے بے نیاز ہے۔

اگر مسلمانوں کو نشاۃ ثانیہ کی جانب قدم بڑھانا ہے تو مکمل طور سے اپنا احتساب کرنا لازم ہے۔ اسلام کو نئے سائنسی رجحان سے ہم آہنگ کرنا وقت کی پکار ہے۔ اسلام دراصل عقل پسندی کا مذہب ہے اور فطرت کے عین مطابق ہے۔ اسلام کو نئے عالمی نظام سے ہم آہنگ نہ ہونے دینا اور مغربی علوم سے اپنے آپ کو دور رکھنا ایسا عمل ہے جو ملت کے لئے زہر قاتل ہے۔

یورپ تاریک دور میں کئی صدیوں تک مبتلا رہا اور وہ صرف اس بنا پر کہ وہ مسلمانوں کے مقابلے میں سائنسی اعتبار سے بہت پیچھے تھا۔ تعلیم اور علم بہ معنی سائنس کا رشتہ معاشی ترقی سے براہ راست جڑا ہوتا ہے۔ لہٰذا معاشی اعتبار سے مسلم دنیا کے متعدد ممالک میں غربت وافلاس کی حالت نہایت افسوسناک ہے۔ ڈیوڈ کینتھ لکھتا ہے کہ: ’’افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمان اپنی حالت زار کو Divine Will یعنی اللہ کی مرضی سے تعبیر کرتے ہیں جو یقینا غیر اسلامی رویہ ہے‘‘۔

اکیسویں صدی کے اس دور میں اسلامی اور مغربی معاشرہ کے درمیان کسی جنگ یا معرکہ آرائی کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ ہاں اسلامی معاشرہ کو اپنی گذشتہ روش پر آنا ہوگا تاکہ مسلم دنیا اور مغربی دنیا کے درمیان علمی اور معاشی نابرابری کو ختم کیا جاسکے اور مسلمانوں کااستحصال روکا جاسکے۔ ابلیس کے اس مشورے کو ناکام بنانے کی ضرورت ہے۔

تم اسے بیگانہ رکھو عالمِ کردار سے ؛ تابساطِ زندگی میں اس کے سب مہرے ہوں مات: اقبال

انیسویں صدی کی ذلت وخواری کے باوجود امت مسلمہ بیسوی صدی میں ہنوز گہری نیند میں ڈوبی رہی اور علمی ومعاشی دوڑ میں دوسری قوموں سے پچھڑتی گئی۔ 1980 کے عالمی سروے کے مطابق مسلم دنیا کی اوسط خواندگی 30 فیصد سے کم تھی۔ خوش قسمتی سے اکیسویں صدی میں بیشتر مسلم علاقوں میں علم بہ معنی تعلیم کی جانب مناسب قدم اٹھائے گئے ہیں۔

سال 2022کے ایک عالمی سروے میں بتایا گیا ہے کہ مسلم دنیا کے   23ممالک نے   90 فیصد  سے زیادہ  خواندگی  حاصل کر لی ہے۔یہ ممالک  اپنے جی۔ڈی۔پی کا  4    سے  9    فیصد حصہ تعلیم پر خرچ کرتے ہیں ۔ ان میں سر فہرست  آذربا ئیجان  (  100  فیصد )  ، سعودی عرب  (98   فیصد )،  ترکی  (98   فیصد )،  قطر  (98   فیصد )، یو۔اے۔ای (98   فیصد )، اردن (98   فیصد )، برونائی  (98   فیصد )  اور اندونیشیا  (96  فیصد )ہیں ۔   افریقہ کے غریب مسلم  ملکوں اور ایشیا کے چند  زیادہ آبادی  والے مسلم ممالک کی کم خواندگی کی بنا پراسلامی دنیا کی اوسط  خواندگی عالمی اوسط سے  اب بھی کم ہے۔

بہرحال  افسوس  اس بات کا ہے کہ  سائنسی ریسرچ   (R & D) پر  مناسب توجہ نہیں کی گئی ہے۔   ساری اسلامی دنیا  (آ بادی ۔180 Crores)  کل  75 بلین  ڈالرسائنسی   ریسرچ  پر  خرچ کرتی  ہے جبکہ   U.S.   (آ بادی۔32 crores)  660 بلین ڈالر سائنسی تحقیقات (  R & D ) خرچ کرتاہے۔ جاپان (آبادی ۔ 13 Crores)   194  بلین ڈالر۔۔ جرمنی  (آبادی ۔8 Crore )  148بلین ڈالر اور جنوبی کوریا  (آبادی5 Crores  )  105  بلین ڈالر  خراچ کرتے ہیں۔یہ اعداد و شمار  بیان کرتے ہیں  مسلم ممالک اور  سائنسی اعتبار  سے ترقی یافتہ ممالک کے درمیان فرق کو۔   بہر حال یہ امر کسی حد تک اطمینان بخش ہے کہ سعودی عرب۔ ترکی۔ ملیشیا  اور قطر  وغیرہ نے  (R & D)  پر اپنے اخراجات  جلد ہی تین گنا بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے جو یقینا ایک خوش آئند  اعلان ہے۔

بہر کیف  قوم مسلم کو سائنس کے تئیںکواپنا رویہ بدلنا ہوگا  اور ماضی کی اس سائنسی و فکری دور پرواپس  آنا  ہو گاجس کو ہم  زریں دور( Golden Period) مانتے ہیں او اس پر  فخر کرتے ہیں۔

ذیل میں دنیا کے کچھ اہم دانشوروں کے نظریات پیش کئے جاتے ہیں، جو مسلمانوں کے زوال پر اپنے دردوغم، نیز حیرت کا اظہار کرتے ہیں اور اس عبرت انگیز دور سے نکلنے کی راہیں تلاش کرتے ہیں۔دراصل ان نظریات کی  روشنی  میں مندرجہ  بالا  خیالات  کا اظہار کیا گیا ہے۔

جمال الدین افغانی:(۱۸۳۹۔۱۸۹۷)۔ ترجمہ ۔صرف اور صرف سائنسی ترقی ہی مسلمانوں کے پچھڑے پن کو دور کرسکتی ہے موجودہ سائنس ایک عالمی تصورہے اس کو کسی قوم یا تہذیب سے نیز مذہب سے جوڑ دینا غلط ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمارے علماء نے سائنس کو دو حصوں میں بانٹ دیا اور ایک کا نام اسلامی سائنس رکھ دیا اور دوسرے کا یوروپی سائنس اور اس طرح یوروپی سائنس کے دشمن ہوگئے دراصل انہوں نے دشمنی مذہب سے کی اور اس کے نتیجہ میں مشرق کے اسلامی ملکوں میں سائنسی تحریک پر روک لگادی یہ ہماری تباہی کا باعث بنا۔ : ’’وہی مسلمان اسلام کے محافظ ہوسکتے ہیں جوعلوم ومعارف مختلفہ سے آشنا اور واقف ہوں‘‘۔۔

مولانا ابوالحسن علی ندوی: (  ۱۹۱۴ – ۔ ۱۹۹۹) ’’ دور انحطاطِ اسلامی میں عبقری صلاحیت کے لوگ (Genius) بہت کم نظر آنے لگے۔زیادہ تر علماء اورمفکرین نے علوم مابعد الطبعیات (Metaphysics) کی طرف توجہ زیادہ کی اور علوم طبعیہ اور عملی اورنتیجہ خیز فنون کی طرف توجہ کم کی۔

ان مباحث میں جن کا دنیا وآخرت میں کوئی فائدہ نہ تھا صدیوں تک درد سر ی ودیدہ ریزی کرتے رہے اور ان علوم اورتجربوں کی طرف توجہ نہ کی جوان کے لئے کائنات کی طبعی قوتیں مسخرکردیتے اوراسلام کے مادی اور روحانی تسلط کو تمام عالم پر (پھر سے) قائم کردیتے‘‘ ۔۔ : ’’مسلمانوں نے وقت کی قدرنہ کی اور صدیاں ضائع کردیں (مباحث میں) برخلاف اس کے یورپی قوموں نے وقت کی قدر کی اورصدیوںکی مسافت برسوں میں طے کی‘‘ .۔ : ’’مسلمان اپنی علمی روش بھول گیا اورمقلدانہ اور روایتی ذہنیت کاشکار ہوگیا اوراس طرح سائنس اور ٹکنا لوجی میں پیچھے رہ گیا اور مغرب نے اسے غلام بنادیا‘‘۔۔ــ

’’سولہویں اور سترہویں صدی کا عہد تاریخ انسانی کا اہم دور ہے ، ۔ اس دور میں یورپ اپنی لمبی نیند سے بیدار ہوا تھا اور ایک جوش وجنون کی  حالت میں اٹھ کر غفلت او رجہالت کی طویل زمانے کی تلافی کرنا چاہتا تھا  ۔وہ ہر شعبہ حیات میں ترقی کررہا تھا طبعی قوتوں کو مسخر کررہا تھا، ہر علم وفن میں ان کی فتوحات اور انکشافات جاری تھے، اس مختصر مدت میں ان کے یہاں عظیم محقق -موجد اور مجتہد پیدا ہوئے،  مسلمانوں کا تنزل صرف حکمت وعلوم نظریہ اور صنعت وحرفت میں ہی نہ تھا بلکہ یہ ایک ہمہ گیر اور عمومی انحطاط تھا، جومسلمانوںپر پورے طور پر محیط تھا۔۔۔:۔۔۔ ’’

اگرعالم اسلامی کی خواہش ہے کہ نئے سرے سے اپنی زندگی شروع کرے اور غلامی سے آزاد ہو تو اسے تعلیمی خود مختاری اور علمی لیڈر شپ حاصل کرنا ہوگا، یہ کوئی آسان کام نہیں ہے اس کیلئے علوم کی تدوین جدید کا کام شروع کرنا ہوگا جس کے سربراہ عصری علوم سے واقفیت اور گہری بصیرت رکھتے ہوں اس مقصد کیلئےایسے ماہرین فن کا انتخاب کرنا ہوگا، جو ہر فن میں دستگاہ رکھتے ہوں‘۔۔۔۔

’’اب ضرورت ہے کہ مسلمان اپنی بھولی ہوئی تحقیقی روش کو اپنائیں اور مفید وبامقصد طریقہ پر سائنس وصنعت کو فروغ دیں اور علمی وسائنسی سرگرمیوں کی ہمت افزائی کریں اور ماہرین فن و سائنس دانوں کی فنی وعلمی تحقیقات کا جائزہ لیں اوران سے استفادہ کرکے تحقیق وجستجو اور تجربہ ومشاہدہ کے میدان میں آگے بڑھنے کی کوشش کریں‘‘۔۔۔۔

مولانا ابوالکلام آزاد:( ۱۸۸۸۔۔۱۹۵۸ )’غفلت اور سرشاری کی بہت سی را تیں بسر ہوچکی ہیں ۔اب خدا کے لئے بستر مد ہو شی سے سرا ٹھا کر دیکھئے کہ آفتا ب کہاں پہنچ چکا ہے آپ کے ہمسفر کہاں تک پہنچ گئے ہیں  اور آپ کہاں پڑ ے ہو ئے ہیں ۔‘‘(غبا ر خاطر ،ابو الکلا م آزا د )۔۔۔’’اگر تعلیم انسان کے لئے ہے اور اس لئے ہے کہ زمین پر بسنے والے اس پر عمل کریں تو اسی حالت میں اسی صورت میں پیش کرو کہ وہ اسے دیکھ کر گھبرا نہ جائیں اور اگر اس لئے ہے کہ اس پر فرشتے عمل کریں تو تمہیں اختیار ہے ۔ آج سے ایک سو برس پہلے ہم نے اس چیز کو محسو س کیا ہوتا اور اس حقیقت کو تسلیم کیا ہوتا کہ اب دنیا  کہاں سے کہاں آگئی ہے اور اس کے بارے میں کیا تبدیلی ہمیں کرنا ہے لیکن اگر سو برس پہلے ہم نے تبدیلی نہیں کی تو کم ازکم یہ تبدیلی اب ہم کو کرلینی چاہئے۔۔۔ ۔ یہ حقیقت مان لینی چاہئے کہ جو فلسفہ آج پڑھانا ہے وہ زمانہ کے مسائل ہیں ۔اگر آپ یہ نہیں کرتے تو آپ زمانہ سے واقف نہیں ہیں بلکہ آپ زمانے سے لڑ رہے ہیں‘‘(خطبات آزاد)

مولانارابع حسنی ندوی : (۱۹۲۹۔۔۲۰۲۳’)’مغرب نے اپنی اصل طاقت وقت کے تقاضہ کا لحاظ کرنے اور ترویج علم اوراس میںفروغ حاصل کرنے سے بنائی ہے ۔انہوں نے علم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ترقی وقوت کی نئی راہیں تلاش کیں اور اقتصادی طاقت پیدا کرنے کی کوشش کی۔۔آج اہل دین (مسلمان)قدیم اختیار کردہ ذرائع کو مقاصد کا درجہ دینے لگے ہیں اور بہتری کی جو صورتیں پیدا ہورہی ہیں ان کو اختیار کرنے سے گریزکرنے لگے ہیں‘۔( تعمیر حیات 1994) ۔

مولانا ڈاکٹر کلب صادق : (۱۹۳۹۔۲۰۲۰,)اس صدی میں اگر مسلمانوں نے سائنس و ٹکنالوجی  میںمثالی ترقی نہ کی   تووہ دنیاوی سماج میںضم ہو جائنگے  اور اگر دین سے دوری ااختیارکر لی تو وہ اپنا تشخص ختم کر دینگے۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ آج مسلمان سائنس اور ٹکنا لوجی میں سب سے آگے ہوتا لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہے کیونکہ مسلمانوں نے اسلامی اصولوں کو ترک کردیا ہے۔ اب ہماری توجہ تمام علوم پر ہونی چاہئے۔ علم کو دو خانوں  میں بانٹ کر۔۔ دینی  علم اور دنیاوی علم۔۔ بڑی غلطی کی ہے۔

 مولانا   سید  سلیمان ندوی :  (  ۱۸۸۴۔۱۹۵۳)  ــ'”جدید علوم سے بے خبر علماء اسلام کی سچی خدمت انجام نہیں دے سکتے ہیں، آج ہم ایک تماشائی بن کر زندہ نہیں رہ سکتے ہیں‘‘۔

  ٹنکو عبدالرحمن:  وزیر اعظم ۔(  ۱۹۰۳۔۱۹۹۰)۔ ملیشیا :لازم ہے کہ آج کی دنیا میں مسلمان غیر عقلی عقائد کوخیر بادکرکے نئے چیلنج کامقابلہ کرنے کے لئے اسلامی طریقہ اپنائے‘‘۔

  علامہ امیر شکیب ارسلان :  (  ۱۸۶۹۔۱۹۴۸)اسلام دشمن طاقتیں پروپگینڈا کرتی ہیں کہ اسلام موجودہ تمدن کے ساتھ چلنے کا اہل نہیں جسکی اصل وجہ وہ تنگ خیال لوگ ہیں جنکے ذاتی عقا ئد اس نئی تہذیب و تمدن کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ موجودہ ترقی کے راستے میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں” ۔

سر سید احمد خان :  (.۱۸۱۷۔۔۱۸۹۸) – ہم  اسلام کو جدید سائنس کے ساتھ  آہنگ کریں۔ فطرت سے مطابقت اسلام کا جوہر ہے۔ ہمیں تفتیش اور تحقیق کا جذبہ پیدا کرنا چاہیے۔ مسلمانوں کی مغربی تعلیم سے بیزاری پسماندگی کی وجہ ہے۔

 عبداللہ بن احمد بدوی: (پیدائش، ۱۹۳۹) ..سابق وزیر اعظم، ملیشیا): مسلمانوں کو اختراع کرنا سیکھنا چاہیے یا پیچھے رہ جانا چاہیے۔ 

عمرو موسی:(مصر)  (  ۱۹۳۶۔):  جس عہد میں ہم سانس لے رہے ہیں وہ سائنس اور ٹکنا لوجی کا دور ہے اور ہم سے انتھک محنت اورپیہم عمل کا طلبگار ہے تاکہ ہم بھی اس کی رفتار کا ساتھ دے سکیں۔ لہٰذا ناگزیر ہے کہ ہم اسلام کے بنیادی اصولوں کو تھامے رکھیں اور ذیلی فروعیات میںاپنے قیمتی وقت کوضائع نہ کریں۔ دنیا بڑی تیز رفتاری سے رواںدواں ہے۔ ہمیں اس کے علوم وفنون سے دستگاہ پیداکرنا ہے۔ (سمینار۔سید سلیمان ندوی بھوپال۔ ۱۹۸۴ء)

 شاہ عبدالقادر رائے پوری 🙁   ۱۸۷۸۔۱۹۶۲) ‘‘ اسلام باتوں سے نہیں قائم ہوسکتا ہے۔ اگر دنیا کے بڑے ملکوں کے دوش بدوش کھڑا ہونا ہے تو جدید علوم سیکھنے ہوں گے۔ جب کوئی ملک اپنے پائوں پر کھڑا نہیںہوتا تو وہ نہ دین کی خدمت کر سکتا ہے اور نہ دنیا کی‘‘

۔سید حسین نصر: ( ۱۹۳۳۔)  ایران۔ــ  ترجمہ -قرآن کے بنیادی مفروضوں اور عقیدوں نیز محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مثالی برتائو نے اسلامی ثقافت اور سائنسی تہذیب کے ترقیات کے لئے بنیادیں فراہم کیں  – قرآنی علمیات انسان کوکٹر عقیدوں کے بوجھ اور سماج مخالف نفسیاتی اور معجزاتی تجربات سے چھٹکارا دلاتی ہے قرآن نے جب انسانی تصورات کوجھنجھوڑا تووہ تمام رکاوٹیں جنہوںنے انسانی تقاضوں کی روح اور اذہان کودبوچ رکھا تھا سب کے سب بہہ گئیں اور سائنس، فلسفہ، نیز ثقافت کا ’’اصل وجود‘‘ عمل میں آیا-‘    :’’عالم اسلام میں سائنس اور ٹکنا لوجی کی زرخیزی اصلیت اور خلافیت سولہویں صدی تک باقی رہی اس کا انحطاط سترہویں صدی اور اٹھارویں صدی میں شروع ہواجب ریاضی او ردوسرے ترقی یافتہ مضامین کو مدرسوں کے نصاب سے خارج کردیا گیا

سابق وزیر اعظم مآثر محمد: (  ۱۹۲۵۔ ) ترجمہ -مسلمان صنعتی انقلاب میں مسیحی ملکوں سے بچھڑتے چلے جارہے ہیں اور مسٗلہ لباس وزبان جیسے جزئیات میں الجھے رہتے ہیں۔ سائنسی نشاط ِثانیہ کے بغیر اسلام کا احیا ممکن نہیں ہے مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ سائنسی علم کی روشنی کو ایک مرتبہ پھر سے اجاگر کریں اور اجتہاد کا راستہ اختیار کریں(اخباری رپورٹ دسمبر2003) ۔

 محمد حسین ہیکل:(    ۱۸۸۸۔۱۹۵۶)مصر ۔  ترجمہ -اسلامی معاشرہ کی بنیاد جس علم و حکمت اور عقلیت پسندی پر تھی اسی  کو مغرب نے آج اپنایا ہے۔

سید عابد حسین :  ( ۱۸۹۶۔۱۹۷۸)‘‘زمانہ حال کے مسلمان جنہیں اسلام کے ذہنی خزانہ کا وارث ہونا چاہئے تھا، دور انحطاط کے رنگ میں ڈوب کر حکمت کو مذہب کامخالف سمجھ کر اسے چھوڑ بیٹھے‘‘۔ (تاریخ فلسفہ اسلام)

 اسلام آباد کانفرنس: IOC  :   ترجمہ۔ اگر بے دینی کی لہر کو روکناہے اورمسلمانوںکو قعر مذلت سے نکالنا ہے تواسلام کو بہتر سائنٹفک طور پر پیش کیاجائے۔ ۔ علم دین اور علم دنیا کودو خانوںمیں نہ بانٹاجائے۔۔ ناخواندگی کو پورے طور سے ختم کیاجائے۔ عوام میں جدت اورنیا پن لایا جائے۔۔ ہر نئی بات کو بدعت پر محمول نہ کیا جائے۔ اورنہ ہر نئی ایجاد کو گمراہی سے تعبیر کیا جائے۔ تماتر توجہ اس بات پر دی جائے کہ مسلمان اپنے عہد کے ساتھ چلے ۔

حامد گول پیرا: ( -۱۹۶۰۔۲۰۱۵  ۔ ایران):    ترجمہ -۔ اسلامی دنیا کے لئے اب ایک ایسا مقام آگیا ہے جہاں وہ یا تو اسلامی نشاط ثانیہ کے لئے سخت  محنت کرے یا پھر اپنے زوال پر ہی پڑارہے ۔

شیخ محمد عبدہ :  (  ۱۸۴۹۔۱۹۰۵)  (مصر)   ترجمہ -روایتی اسلام کو جدید، عقلی اور سائنسی فکر کے  چیلنج کا سامناہے۔ اسلام اور جدید مغربی تہذیب ہم آہنگ  ہے۔ انسانی عقل  عظیم ہے   اور  مذہب  اسکو روشنی عطا کرتا ہے۔ اسلام عقل کا مذہب ہے۔( تاریخ  اسلام)

براک اوباما :(سابق صدر امریکہ کی ( ۱۹۶۱ ۔)یہ اسلام ہی تھا جس نے کئی صدیوں تک  علم  کی روشنی ڈالی اور یورپ کی نشاۃ ثانیہ اور روشن خیالی کی راہ ہموار کی۔ (4 جون 2009 قاہرہ میں تقریر)

ضیا گوکلپ:  (۱۸۷۶۔۱۹۲۴- اسکالر  ترکی) – اسلام کو وقت اور جگہ میں مناسب تبدیلیوں کو ایڈجسٹ کرنے اور ان کے مطابق ڈھالنے کے لیے ایک مناسب فریم ورک سے لیس کیا گیا ہے۔ اسلام وہ مذہب ہے جو تبدیلی کی تلقین کرتا ہے۔

اے ۰بوسانی:  (   ۱۹۲۱۔ ۱۹۸۸)        روم، اسلامی اسکالر): یہ سچ ہے کہ قرون وسطیٰ کے دوران مسلم دنیا کو کم و بیش اب امریکہ کی طرح سمجھا جاتا تھا، یعنی وہ دنیا جہاں کسی کو سائنس میں کامل ہونے کے لیے جانا پڑتا تھا۔ ٹیکنالوجی

سید حامد 🙁  ۱۹۲۰۔۲۰۱۴) چابسلر ہمدرد   یونیورسٹی: سائنس سے دوری مسلمانوں کے لیے ایک تباہ کن محرومی ہے۔ ’’سیکھو یا فنا ہو جائو‘‘   یہ وہ سبق ہے جسے تمام پلیٹ فارموں  اور منبروں سے گھر گھر پہنچانا ہے

سرسید۔’’ فلسفہ ہمارے دائیں ہاتھ میں ہو، اور نیچرل سائنس بائیں میں اور کلمہ لا الہ الّا اللّہ محمد رسول اللّہ(ﷺ)  کا تاج سر پر‘‘۔