سوشیل میڈیا

بلقیس بانو کے مجرمین کی رہائی پر مہوا موئترا کا شدید ردعمل، کہی یہ بڑی بات

واضح رہے کہ 2002 میں گجرات فسادات کے دوران نہ صرف بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت دری کی گئی بلکہ اس کے پورے خاندان کا قتل کردیا گیا تھا۔ ان میں بلقیس کی تین سالہ بیٹی بھی شامل ہے جبکہ بلقیس اس وقت پانچ ماہ کی حاملہ تھی۔  

کولکاتہ: بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی گجرات حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے، ترنمول کانگریس کی ممبر پارلیمنٹ مہوا موئترا نے آج کہا کہ بلقیس بانو گینگ ریپ کیس کے مجرمین کی رہائی عمل میں لاتے ہوئے گجرات حکومت نے اخلاقی گراوٹ کی تمام حدیں پار کردی ہیں۔

واضح رہے کہ 2002 میں گجرات فسادات کے دوران نہ صرف بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت دری کی گئی بلکہ اس کے پورے خاندان کا قتل کردیا گیا تھا۔ ان میں بلقیس کی تین سالہ بیٹی بھی شامل ہے جبکہ بلقیس اس وقت پانچ ماہ کی حاملہ تھی۔  

کرشنا نگر سے ٹی ایم سی کی رکن پارلیمنٹ محترمہ مہوا موئترا نے بلقیس بانو کے مجرمین کی رہائی پر اپنا شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے آج ایک ٹویٹ کیا جس میں انہوں نے کہا کہ ’’قوم نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ بلقیس بانو ایک عورت ہے یا مسلمان۔”

محترمہ موئترا سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اپنی صاف گوئی کے لیے جانی جاتی ہیں اور وہ اکثر اہم سماجی و سیاسی مسائل پر بہت زیادہ آواز اٹھاتی رہی ہیں- چاہے وہ متنازعہ شہریت (ترمیمی) ایکٹ ہو یا اس سال اپریل میں مغربی بنگال کے نادیہ ضلع میں ہنسکھلی گاؤں کی ایک نابالغ لڑکی کی اجتماعی عصمت دری اور قتل۔

بلقیس بانو اجتماعی عصمت دری کیس میں مجرم قرار دیے گئے 11 افراد کی رہائی کے فیصلے نے ملک بھر میں غم و غصے اور احتجاج کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے، کیونکہ ان کی رہائی کے بعد مجرموں کو پھولوں کے ہار پہنانے اور مٹھائی کھلانے کی ویڈیو فوٹیج سامنے آئی ہے۔ یہ سبھی گودھرا سب جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے۔ رہائی پر جیل کے باہر ہی ان کی گلپوشی اور مٹھائی کھلانے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئیں۔

https://twitter.com/I_am_azhar__/status/1559488198966927362

بلقیس بانو کے خاندان نے اس وقت خوف اور بے بسی کا اظہار کیا جب پیر کے روز گجرات حکومت نے عصمت دری کے گیارہ مجرمین کو رہا کردیا۔ یوم آزادی کے موقع پر ان کی رہائی عمل میں لائی گئی۔ بلقیس بانو کے شوہر یعقوب رسول نے بتایا کہ "سپریم کورٹ، بمبئی ہائی کورٹ نے حکم دیا اور پھر بھی… صرف ایک اقدام میں ہماری 18 سال کی لڑائی ختم ہوگئی، ہم خوفزدہ ہیں، ہمیں رہائی کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں دی گئی”۔

گجرات حکومت کی طرف سے تشکیل دی گئی ایک کمیٹی نے 1992 کی اپنی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے معافی کے حق میں متفقہ فیصلہ دیا تھا۔ ایک مجرم کے سپریم کورٹ سے رجوع ہونے کے بعد یہ معاملہ ریاستی حکومت تک پہنچا۔ سپریم کورٹ نےگجرات حکومت سے اس معاملے پر غور کرنے کو کہا تھا۔