شمال مشرق

ہلدوانی: ریلوے اراضی پر کیا صرف مسلم قابض ہیں؟

ہلدوانی شہر کی 70 فیصد زمینیں نزولی ہیں۔ نزولی وہ زمین ہوتی ہے جو گورنمنٹ کی ہوتی لیکن عام پبلک استعمال کرسکتی ہے البتہ ضرورت پڑنے پر حکومت اس کو اپنے قبضہ میں لینے کی مجاز ہو گی۔

نینی تال: ہلدوانی شہر کی 70 فیصد زمینیں نزولی ہیں۔ نزولی وہ زمین ہوتی ہے جو گورنمنٹ کی ہوتی لیکن عام پبلک استعمال کرسکتی ہے البتہ ضرورت پڑنے پر حکومت اس کو اپنے قبضہ میں لینے کی مجاز ہو گی۔

متعلقہ خبریں
ہلدوانی میں صورتحال معمول پرنیم فوجی فورسس کی مزید کمپنیاں تعینات
ہلدوانی تشدد کی مجسٹرئیل تحقیقات کا حکم۔ 6 کروڑ کا نقصان
ہجوم نے پولیس ملازمین کو زندہ جلانے کی کوشش کی
کثرت ازدواج، کمسنی کی شادی پر مکمل امتناع کی سفارش
مدرسوں میں بھگوان رام کی کہانی پڑھائی جائے گی: :صدرنشین وقف بورڈ

بعض دفعہ حکومت اسکیم کے تحت رجسٹری کی آفر بھی کرتی ہے۔ 2006 میں چھ ایکڑ زمین کو لیکر ریلوے نے مقدمہ کیا۔ پھر 2016 میں 29 ایکڑ کا دعویٰ کیا اور اب 78 ایکڑ کا دعویٰ کر رہا ہے۔

پہلے دو دفعہ کورٹ سے حکم التوا مل چکا ہے لیکن اب کورٹ نے اس کے خلاف فیصلہ کیا ہے اور کچھ بھی سننے کے لیے تیار نہیں ہے جبکہ 900 زمین کے معاملات کورٹ میں التوا کا شکار ہیں لیکن اس معاملے میں کورٹ کا رویہ افسوسناک رہا۔ چونکانے والی بات یہ ہے کہ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ ریلوے کی زمین کتنی ہے اور نزولی کتنی ہے۔

دوسری بات یہ کہ لال نشان انہی علاقوں میں لگایا گیا ہے جہاں مسلمان ہیں۔ ہلدوانی سے پہلے بڑا اسٹیشن لال کنواں ہے۔ وہاں سے اگر صفائی ہو توہندوؤں کے سارے علاقے زد میں آئیں گے۔ اسی طرح ہلدوانی سے 6 کلومیٹر اوپر کاٹھ گودام ہے۔ وہاں ہندو ہیں لیکن کاروائی مسلمانوں کے دو کلومیٹر علاقوں میں کی جارہی ہے۔

ان علاقوں میں 3 گرلز کالج، ایک کالج، دو ٹیوب ویل، دس مساجد اور دو مندر ہیں۔ متعدد پرائیویٹ اسکول اور کالجس الگ سے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے قائم ادارے وغیرہ کی تعمیر کے وقت انتظامیہ کو زمینوں کی اصلیت معلوم نہیں تھی؟

ایک بڑا سوال یہ بھی ہے کہ ان زمینوں پر آباد لوگ بجلی، پانی بل اور ٹیکس بھی ادا کرتے رہے ہیں۔ آخر کس بنیاد پر ان سے یہ سب لیا گیا؟ یہ سب آزادی سے پہلے ہی سے آباد ہیں۔ دوسرے یہ کہ ریلوے کوئی ایسا پروجیکٹ بھی نہیں دکھا رہا ہے کہ جس کے تحت وہ اپنی زمینوں کو واگزار کرانا چاہ رہا ہے۔

کل سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی گئی ہے جس کی سماعت 5 جنوری کو ہے۔ دوسری طرف یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ کاروائی کو انجام دینے کے لیے پیرا ملٹری فورسز بھی آرہی ہیں۔ ریلوے پھاٹک پر مائک لگا کر ایک ہفتہ میں علاقہ خالی کرنے اعلان مسلسل کیا جارہا ہے۔

42 سو گھروں کو نوٹس جاری کی گئی ہیں۔ شہر میں سیاسی طور پر کانگریس اور بی جے پی مضبوط ہیں۔ مسلمان کانگریس کا ساتھ دیتے رہے ہیں۔ اس وقت شہر کا میئربی جے پی کا ہے۔ سیاسی مفادات کے حصول کے علاوہ انتظامیہ اور عدلیہ کا رویہ اب تک فرقہ وارانہ رہا ہے۔

سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ بڑی جماعتیں اس پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ جمیعت العلماء نے کچھ قانونی مدد کا وعدہ کیا ہے۔