شادی میں مطالبہ کی ہوئی رقم میں سے مسجد کا تعاون
پس یہ جو مطالبہ کرکے لڑکوں والوں سے رقم یا سامان وصول کیا جاتا ہے ، وہ حرام ہے اورمال حرام یوں تو ہر مسلمان کے لئے ناقابل استعمال ہے؛ لیکن خاص کر مسجد میں اس کا صرف کرنا تو گناہ بھی ہے اور خلاف ادب بھی ؛ اس لئے اس سے احتراز کرنا واجب ہے۔

سوال :- شادی کے موقع سے لڑکے والوں کی طرف سے مطالبہ اور لڑکی والوں کا بدرجۂ مجبوری اسے ادا کرنا عام بات ہے ؛ لیکن ہمارے علاقہ کے بعض دیہاتوں میں ایک نئی بات یہ شروع ہوگئی ہے کہ جب دونوں فریق لین دین کی بات طے کرتے ہیں اورلڑکے والے لڑکی والوں کے یہاں پیسے لینے کے لئے جاتے ہیں ، تو مسجد کمیٹی کے ذمہ داران بھی رسید لے کر پہنچ جاتے ہیں کہ اس محصلہ رقم میں سے دو فیصد انہیں بھی دی جائے ، کیا مسجد کے لئے اس طرح رقم لینا اور اسے مسجد میں خرچ کرنا درست ہے ؟
( محمد شاکر حسین، بی بی نگر)
جواب:- آج کل شادی کے موقع سے لڑکی والوں سے مطالبہ کی جو صورت مروج ہوگئی ہے ، یہ قطعا حرام ہے اور اس کا حکم رشوت کا ہے ، اس کا لینا بھی حرام ہے اور لینے کے بعد تنبہ ہو تو واپس کردینا واجب ہے ،اور شدید ضرورت کے بغیر دینا بھی جائز نہیں ، فتاوی قاضی خاں میں ہے کہ : ’’ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق دے چکاہو ، عورت دوبارہ اسی مرد سے نکاح کی خواہاں ہو ، شوہر اس رجحان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہے کہ میں اس شرط پر نکاح کروں گا کہ تم واجب ہونے والا مہر مجھے ہبہ کردینا ، تو یہ شرط باطل ہے اور اگر عورت آئندہ اس شرط کے تحت اپنا مہر ہبہ بھی کردے تب بھی مرد کے لئے وہ مال جائز نہیں؛ کیوںکہ نکاح میں عورت پر مالی عوض عائد نہیں کیا جاسکتا ‘‘ وفي النکاح لا یکون العوض علی المرأۃ (فتاویٰ قاضی خان علی ہامش الہندیۃ:۱؍۳۳۰)
پس یہ جو مطالبہ کرکے لڑکوں والوں سے رقم یا سامان وصول کیا جاتا ہے ، وہ حرام ہے اورمال حرام یوں تو ہر مسلمان کے لئے ناقابل استعمال ہے؛ لیکن خاص کر مسجد میں اس کا صرف کرنا تو گناہ بھی ہے اور خلاف ادب بھی ؛ اس لئے اس سے احتراز کرنا واجب ہے ، اگر مسجد کمیٹی کے ذمہ داران اس رقم کو مسجد میں استعمال کریں گے تو مسجد کی بے احترامی کے مرتکب اور سخت گناہ گار ہوں گے ، اس کے علاوہ عام حالات میں بھی کسی دینی کام کے لئے جبر کرکے چندہ وصول کرنا جائز نہیں ۔
٭٭٭