مضامین

کیا روس، یوکرین جنگ دنیا پر امریکہ کی بالادستی اور موجودہ عالمی نظام کے خاتمے کا آغاز ہے؟

زبیر احمد

یوکرین پر روس کے حملے کا دوسرا سال شروع ہو گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس جنگ نے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان خلیج کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ مغربی ممالک کے سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ اس جنگ نے موجودہ عالمی نظام کے لیے بہت بڑا خطرہ پیدا کر دیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ یہ دنیا کا نظام اصولوں پر قائم ہے اور ان قوانین میں تبدیلی کے واضح آثار اب موجود ہیں۔ترقی یافتہ ممالک (امریکہ اور یوروپی ممالک) ہندوستان، چین، جنوبی افریقہ اور برازیل جیسے ترقی پذیر ممالک کو روسی جارحیت کے خلاف لڑنے کے لیے اپنا ساتھ دینے پر راضی کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ مغربی ممالک یوکرین پر روس کے حملے کو نہ صرف یوروپ پر حملہ بلکہ جمہوری دنیا پر حملہ قرار دے رہے ہیں اور اسی لیے وہ چاہتے ہیں کہ دنیا کی ابھرتی ہوئی طاقتیں یوکرین پر حملے کی وجہ سے روس کی مذمت کریں، لیکن انڈیا اور چین کے ساتھ ساتھ بہت سے دوسرے ترقی پذیر ممالک بھی روس اور یوکرین کی جنگ کو پوری دنیا کے لیے درد سر نہیں سمجھتے۔ یہ ممالک بڑی حد تک اس جنگ کو یوروپ کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ یوروپ اور امریکہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا اور چین کا روسی صدر پوتن کو جنگ کے لیے جوابدہ ٹھہرانے سے انکار موجودہ قوانین پر مبنی عالمی نظام کے وجود کے لیے خطرہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر ترقی پذیر ممالک نے یوکرین کی جنگ کے حوالے سے انتہائی سوچ سمجھ کر غیر جانبداری کا راستہ چنا ہے جو بین الاقوامی قوانین اور استحکام کے بجائے ان کے اپنے مفادات کو مقدم رکھتا ہے اور غیر مغربی ممالک کا یہ رویہ بالآخر روس کے لیے فائدہ مند ثابت ہو رہا ہے۔شام میں فرانس کے سابق سفیر اور پیرس میں قائم تھنک ٹینک انسٹیٹیوٹ مونٹیگن کے خصوصی مشیر مشیل ڈوکلو کا کہنا ہے کہ ’معاشی محاذ پر، روس کو انڈیا اور سعودی عرب جیسے ممالک کی طرف سے چلائی جا رہی سیاست سے فائدہ ہو رہا ہے۔‘ امریکی اسکالر جان ایکن بیری کا دعویٰ ہے کہ امریکہ کی زیر قیادت موجودہ عالمی نظام شدید مشکلات کا شکار ہے۔ایکن بیری کہتے ہیں کہ ’موجودہ ورلڈ آرڈر دوسری جنگ عظیم کے بعد کے زمانے میں امریکہ نے بنایا تھا۔ پچھلے 70 سالوں سے، یہ ورلڈ آرڈر مغرب کے مرکز میں لبرل انٹرنیشنل آرڈر کی رہنمائی کر رہا ہے۔ یہ قواعد و ضوابط اور کثیرالجہتی تعاون کی بنیاد پر بنایا گیا تھا۔‘ وہ کہتے ہیں ’آج یہ بین الاقوامی نظام شدید مشکلات کا شکار ہے۔ مشرق وسطیٰ، مشرقی ایشیا اور یہاں تک کہ مغربی یوروپ میں دیرینہ علاقائی نظام یا تو تبدیلی سے گزر رہے ہیں، یا وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہے ہیں۔ عالمی بین الاقوامی معاہدے، ادارے، تجارت اور ہتھیاروں کے کنٹرول سے۔ اور انسانی حقوق کا ماحول کمزور ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔‘ تاہم یوکرین میں جنگ شروع ہونے سے بہت پہلے موجودہ عالمی نظام کو چین جیسی ابھرتی ہوئی عالمی طاقتیں چیلنج کر رہی تھیں اور انڈیا جیسے ممالک یہ سوال اٹھا رہے تھے کہ ابھرتی ہوئی طاقتوں کو اقوام متحدہ جیسے عالمی اداروں میں نمائندگی کیوں نہیں دی جانی چاہیے؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے ماہرین کا خیال ہے کہ امریکی قیادت میں بین الاقوامی نظام کا یہ بحران ابھرتے ہوئے ممالک کے لیے نئے مواقع پیدا کرے گا۔ خاص طور پر چین، انڈیا اور دیگر غیر مغربی ترقی پذیر ممالک کے لیے۔ ان مواقع کی مدد سے یہ ترقی پذیر ممالک عالمی نظام کو نئی شکل دینے کے قابل ہو جائیں گے۔ ان ممالک میں نئے ورلڈ آرڈر کا مطالبہ کرنے والی آوازیں بلند ہوتی جا رہی ہیں، لیکن، بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ابھرتے ہوئے ممالک ایک نیا ورلڈ آرڈر بنانے کے لیے دوسری جنگ عظیم کے بعد کے قوانین اور اداروں کی اصلاح اور تنظیم نو کی کوشش کر رہے ہیں؟ یا وہ موجودہ ورلڈ آرڈر کی طاقت میں حصہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں؟ مصنف، صحافی اور ہندوستان کے سابق وزیر مملکت برائے امور خارجہ ایم جے اکبر اس سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ ’جب آپ ورلڈ آرڈر کہتے ہیں تو کوئی ایک ورلڈ آرڈر کامل ورلڈ آرڈر نہیں ہے۔ ہر ’ورلڈ آرڈر‘ ایک جزوی ورلڈ آرڈر ہے۔ دنیا کے موجودہ اصول و ضوابط کا فیصلہ دوسری عالمی جنگ کے فاتحین نے کیا تھا۔ مغرب بھی اپنے اندر کبھی متحد نہیں رہا۔ آخر روس بھی مغرب کا حصہ ہے۔پورا یوروپ موجودہ ورلڈ آرڈر میں کبھی شامل نہیں تھا۔ یہ ایک جزوی ورلڈ آرڈر تھا اور جوں کا توں رہے گا۔ آپ اس وقت جو کچھ دیکھ رہے ہیں (روس کا یوکرین پر حملہ) دراصل پرانے تنازعات کے اسی سلسلے کی ایک نئی کڑی ہے، جسے میں تیسری عالمی جنگ کا نام دینا چاہوں گا۔ سرد جنگ دراصل تیسری عالمی جنگ تھی۔ اسے تیسری عالمی جنگ کا نام دیا گیا کیونکہ یوروپ نے اس میں کبھی جنگ نہیں لڑی۔ لیکن، یہ جنگ ویتنام میں بہت لڑی گئی۔‘اْن کا مزید کہنا تھا کہ ’افریقہ اور لاطینی امریکہ بھی میدان جنگ بن گئے۔ اور اب جنگ یوروپ میں واپس آ گئی ہے۔‘
ہانگ کانگ اور کوالالمپور میں مقیم ایک آزاد ایشیائی تھنک ٹینک گلوبل انسٹیٹیوٹ فار ٹومارو کے بانی اور سی ای او چندرن نائر کہتے ہیں ’یہ ایک اہم موڑ نہیں ہے۔ یہ ایک غیر ضروری جنگ ہے۔ لیکن، جب آپ اس کا موازنہ عراق یا افغانستان پر مسلط کی گئی جنگوں سے کریں تو یہ بہت چھوٹی جنگ ہے۔ اس بات کو آپ ان جنگوں میں مارے جانے والے لوگوں کی تعداد سے سمجھ سکتے ہیں۔‘مرکز برائے بین الاقوامی سیاست، تنظیم اور تخفیف اسلحہ، جے این یو کے پروفیسر ہیپیمون جیکب کہتے ہیں کہ ’موجودہ نظام نہ تو بین الاقوامی ہے اور نہ ہی منظم ہے۔ یہ دوسری جنگ عظیم کے فاتحین کے لیے بنایا گیا امریکہ پر مبنی نظام تھا۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ اس وقت ایک طرف امریکہ کی زیر قیادت ورلڈ آرڈر اور دوسری طرف چین، وسطی ایشیائی ممالک، روس اور ترکی وغیرہ کے درمیان کوئی نیا جیو پولیٹیکل آرڈر اْبھر رہا ہے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ’میں واضح طور پر دونوں کے درمیان دراڑ نہیں دیکھ رہا ہوں، جس کا ایم جے اکبر نے حوالہ دیا۔ ایسا کیوں؟ کیونکہ اول تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس جنگ کے بعد روس بہت کمزور ہو جائے گا اور دوسری بات یہ کہ چین اتنا بے وقوف نہیں کہ مکمل طور پر روس کے ساتھ ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ چین بڑی شان سے آگے بڑھ رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ دنیا کا ایک ایسا حصہ ہے، جو ابھی تک یہ طے نہیں کرسکا کہ وہ کس طرف جائے گا۔ چین کسی بھی اوسط ترقی پذیر ملک جیسا نہیں رہا۔ تاہم میں انڈیا، برازیل، جنوبی افریقہ اور بیشتر افریقہ کو ترقی پذیر ممالک کی فہرست میں رکھوں گا۔ میری نظر میں اس کی وجہ ان کا طریقہ کار ہے، جس کے ذریعے وہ بین الاقوامی مسائل پر اپنی بات رکھنے اور قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘ پروفیسر ہیپیمون جیکب کہتے ہیں کہ ’یہ موجودہ ورلڈ آرڈر یا اس نظام کے انتظامی ڈھانچے کے ٹوٹ پھوٹ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اب اگر موجودہ عالمی نظام کا انتظامی ڈھانچہ منہدم ہو گیا ہے اور اب اگر بڑی طاقتوں کے درمیان یہ معاہدہ ہو جائے کہ نیا ڈھانچہ قائم کیا جائے یا نیا انتظامی ڈھانچہ بنایا جائے تو بھارت اس کا حصہ ہو گا۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ انڈیا کو موجودہ نظام میں شامل کیا جائے گا۔‘