سوشیل میڈیاشمالی بھارت

ہزاروں مساجد پر ادعا کی ہندو قوم پرستوں کی کوشش

شمسی جامع مسجد کے تعلق سے وکلاء وی پی سنگھ اور ان کے ساتھی بی پی سنگھ نے کہا ہے کہ یہ مسجد جوکہ ہندوستان کی قدیم مساجد میں سے ایک ہے مسجد نہیں ہے۔یہ ہندو مندر ہے۔وی پی سنگھ نے ادعا کرتے ہوئے سفید گنبد کی مسجد کے تعلق سے ان احساسات کا اظہار کیا۔

نئی دہلی: ہزاروں مساجد کو نشانہ بناتے ہوئے ہندو قوم پرستوں کی جانب سے ہندوستان کی دوبارہ تاریخ لکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اترپردیش کی 800سالہ مسجد کے تعلق سے بھی تنازعہ پیدا کیا جارہاہے۔

شمسی جامع مسجد کے تعلق سے وکلاء وی پی سنگھ اور ان کے ساتھی بی پی سنگھ نے کہا ہے کہ یہ مسجد جوکہ ہندوستان کی قدیم مساجد میں سے ایک ہے مسجد نہیں ہے۔یہ ہندو مندر ہے۔وی پی سنگھ نے ادعا کرتے ہوئے سفید گنبد کی مسجد کے تعلق سے ان احساسات کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ ہندوؤں کیلئے یہ انتہائی مقدس مقام ہے۔مقامی مسلمان اس کی تعمیر کے بعد سے یہاں نماز ادا کرتے آرہے ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ مسلم بادشاہ شمس الدین التمس نے 1223 اس کی تعمیر کی۔وی پی سنگھ اور بی پی سنگھ نے تاہم اس تعلق سے مختلف تاثرات کا اظہار کیا ہے۔

جولائی میں ان دونوں نے مقامی ہندو کسان کی جانب سے عدالت میں کیس دائر کیا۔جس کی دائیں بازو کی ہندو نیشلسٹ پارٹی اکھل بھارتیہ ہندو مہاسبھا (اے بی ایچ ایم) کی تائید حاصل ہے۔تنظیم نے بھی الزام عائد کیا ہے کہ شمسی جامع مسجد‘مسجد نہیں ہے بلکہ ایک غیر قانونی ڈھانچہ ہے جوکہ گاڈ شیوا کی دسویں صدی قدیم ہندو مندر کو تباہ کرکے تعمیر کی گئی ہے۔

انہوں نے درخواست پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ہندوؤں کو اراضی پر حق ملکیت ہے اور یہاں پر وہ عبادت کرسکتے ہیں۔بدان میں قائم ایک چھوٹے دفتر میں جہاں کئی گرد آلود قانونی کتابیں رکھی ہوئی ہیں۔یہاں دو قانون داں وی پی سنگھ اور ان کے ساتھی بی وی سنگھ مساجد کے تعلق سے بحث وتکرار کرنے لگے اور آخر کارادعا کیا گیا کہ مندروں کوڈھاکر مسجدیں تعمیر کی گئی ہیں۔

وی پی سنگھ ابتداء میں ادعا کیا کہ مسلم بادشاہوں نے ہندو مندروں کو توڑ کر مساجد تعمیر کئے ہیں لیکن وی پی سنگھ کا بیان متزاد ہے۔انہوں نے کہا کہ کئی اوریجنل ہندو ٹمپل اب بھی ہیں۔انہوں نے ادعا کرتے ہوئے بتایا کہ مسجد کے اندر کنول کے پھول کا پینٹ اس کا ثبوت ہے۔

انہوں نے بتایا کہ مقفل کمروں میں ہندوؤں کی مورتیاں رکھی ہوئی ہیں۔وی پی سنگھ نے ادعا کیا ہے کہ 1970سے اپنے بچپن سے وہ دیکھتے آرہے تھے۔دونوں وکلاء شمسی جامع مسجد کے تعلق سے اتفاق رائے نہیں کرسکے۔ وی پی سنگھ نے بتایا کہ مسلمان یہاں عبادت کر رہے ہیں۔ دونوں نے مسجد کہنے کے تعلق سے انکار کردیا۔

انہوں نے ادعا کیا کہ درحقیقت یہ مسجد نہیں ہے اور یہ مسلمانوں کی جانب سے نماز کیلئے ہرگز استعمال نہیں کی گئی جبکہ مسلمانوں نے جبری طورپر اس پر قبضہ کرلیا اور اس کو ایک مسجد میں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی۔

انہوں نے ادعاکرتے ہوئے بتایا کہ اس کا ثبوت ہے لیکن پیش نہیں کرسکے۔ مسلمان حکمرانوں کے دوران ہندوؤں کو اذیت پہنچائی گئی اور ہلاک کیا گیااور اب ہم ہمارے حقوق حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

مسجد کمیٹی کے وکیل انور عالم نے کہا کہ اس تعلق سے قانونی طورپر جو ادعاکیا جارہاہے وہ غیر درست ہے جبکہ 800سال سے مسجد کا وجود ہے اسلئے اس تعلق سے کوئی قانونی کاروائی نہیں ہوسکتی لیکن بودان نے کہا ہے کہ ہماری فہرست میں تقریبا تین ہزار مساجد ہیں۔جس کے تعلق سے قانونی ادعا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ بات سنجے ہریان نے بتائی جوکہ اے بی ایچ ایم کے ریاستی ترجمان ہیں۔2014میں جبکہ بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت قائم ہوئی ہندوستان کے 200ملین اقلیتی مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایاجارہاہے اور ہندوتوا ایجنڈہ کے تحت امتیازی سلوک کیا جارہاہے۔بی جے پی کے ایک سینئر قائد نے ادعا کیا کہ مغل بادشاہوں نے36ہزار ہندو مندروں کو تباہ کردیا۔اور ہم اس تعلق سے ایک کے بعد دیگرے ادعا کریں گے۔

یونیورسٹی آف اریزونا میں ہندوستانی تاریخ کے پروفیسر ریچرڈ ایٹن نے کہا کہ مغل بادشاہوں کی جانب سے اس قدر بڑی تعداد میں مندروں کو ڈھائے جانے کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ تقریبا دو درجن مساجد کو ڈھایاگیا ہے۔بغیر بنیاد کے غیر ذمہ دارانہ طورپر بیانات دئے جارہے ہیں۔مورخین نے الزام عائد کیا ہے کہ بی جے پی نا صرف ہندوستان کی دوبارہ تاریخ لکھنے کی خواہاں ہیں بلکہ وہ ہندوستان کی تاریخ اختراع کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

یہ بات سید علی ندیم رضوی نے بتائی جوکہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مغلیہ تاریخ کے پروفیسر ہیں۔رضوی ان چند مورخین میں سے ہیں جو بے باکانہ طورپر اظہار کرتے ہیں۔

اخبار دی گارجین کے حوالہ سے بتایا گیا ہے کہ متھورا کی شاہی عید گاہ مسجد جو کہ 1670میں مغل شہنشاہ اورنگ زیب نے تعمیر کی تھی اور اب اس پر لارڈ کرشنا کی جائے پیدائش ہونے کا ادعا کرتے ہوئے قانونی کاروائی کی جارہی ہے۔

اس طرح گیان واپی مسجد کے تعلق سے بھی ادعا کیا جارہاہے جوکہ وارانسی میں اورنگ زیب نے تعمیر کی تھی۔سید محمد یاسین (75) جوکہ تیس سال سے زائد عرصہ سے گیان واپی مسجد کے کیرٹیکر ہیں کہا کہ مورتیوں کی موجودگی کے تعلق سے ہندوؤں کا ادعا غیر درست ہے۔