مذہب
ٹرینڈنگ

غیر مسلم والدین کی جائیداد سے میراث

اگر کسی ملک کا یہ قانون ہو کہ غیر مسلم رشتہ دار اپنے مسلم رشتہ دار کی جائیداد سے فائدہ اٹھا سکتا ہےتو مسلمانوں کے لئے بھی ملکی حالات اور قانونی دشواری کی وجہ سے اپنے غیر مسلم رشتہ دار وں کی جائیداد سے استفادہ کرنے کی گنجائش ہے۔

سوال: آج کل مخلوط معاشرتی نظام کی وجہ سے بہت سے مغربی ممالک کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں خاندان، دین ومذہب کو دیکھے بغیر ایک دوسرے سے شادی کر لیتے ہیں،

بسا اوقات لڑکا مسلمان ہوتا ہے اور لڑکی غیر مسلم اور کبھی اس کے برعکس،نیز ان دونوں سے پیدا ہونے والے بچہ کا بھی یہی حال ہو تا ہے کہ کبھی وہ باپ کے مذہب کو اختیار کرتا ہے اور کبھی ماں کے،

اور پھر جب والدین دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں، تو ترکہ کے سلسلہ میں ایک مسئلہ پیش آتا ہے کہ جو بچہ مسلمان ہے، کیا وہ اپنے غیر مسلم والدین کی جائیداد سے شرعاً فائدہ اٹھا سکتا ہے؛

حالانکہ حدیث میں یہ صراحت ہے کہ کوئی مسلمان کسی کافر کا وارث نہیں ہوسکتا ؟(دلاور حسین، برطانیہ)

جواب: شریعت کا ایک اصول ہے کہ کوئی مسلمان کسی کا فر کا اور کوئی کا فرکسی مسلمان کا شرعاً وارث نہیں ہوسکتا،

لیکن اگر کسی ملک کا یہ قانون ہو کہ غیر مسلم رشتہ دار اپنے مسلم رشتہ دار کی جائیداد سے فائدہ اٹھا سکتا ہےتو مسلمانوں کے لئے بھی ملکی حالات اور قانونی دشواری کی وجہ سے اپنے غیر مسلم رشتہ دار وں کی جائیداد سے استفادہ کرنے کی گنجائش ہے،

نیز اگر کوئی مسلمان اپنے کسی غیر مسلم رشتہ دار کے حق میں وصیت لکھ دے، یا کوئی غیرمسلم اپنی زندگی میں کسی مسلم رشتہ دار کو کچھ ہبہ کردے، یا بخشش کے طور پر کچھ دیدے،یا اس کے لئے کسی چیز کی وصیت کر دے تومسلمان کے لئے اس کا لینا جائز ودرست ہے:

(وتصح) الوصية (من المسلم للذمي وبالعكس) فالأول لقوله تعالى {لا ينهاكم الله عن الذين لم يقاتلوكم في الدين} [الممتحنة: 8]، والثاني لأنه بعقد الذمة ساوى المسلم في المعاملات والتبرعات حتى جاز التبرع من الجانبين في حال الحياة فكذا بعد الممات ۔۔ وفي السير الكبير ما يدل على الجواز، ووجه التوفيق أنه لا ينبغي أن يفعل، وإن فعل جاز كذا في الكافي وفيه تأمل، (مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر: 2/692) نیز دیکھئے:(تفسير القرطبي: 2/262)