تلنگانہسوشیل میڈیا

اور جب سی ای او‘وقف بورڈ کے چیمبرکو تالا ڈالا جانے والا تھا…

تلنگانہ اسٹیٹ وقف بورڈ میں ان دنوں جو کچھ ہورہا ہے اس کی توقع ایک باوقار ادارہ سے نہیں کی جاسکتی۔

حیدرآباد: تلنگانہ اسٹیٹ وقف بورڈ میں ان دنوں جو کچھ ہورہا ہے اس کی توقع ایک باوقار ادارہ سے نہیں کی جاسکتی۔

بورڈ کے موجودہ چیف ایگزیکیٹیو آفیسر جناب محمد شاہنواز قاسم سے وقف بورڈ کے ارکان کی بیزارگی کا یہ حال ہوچکا ہے کہ وہ کسی بھی قیمت انہیں بورڈ میں دیکھنا نہیں چاہتے جس کے لئے وہ قانون کی پاسداری کا بھی خیال نہیں رکھ رہے ہیں۔

قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے بورڈ کے ارکان نے گزشتہ جمعرات کو سی ای او کی عدم موجودگی میں ہی ایک اجلاس منعقد کیا اور چند ارکان نے شاہنواز قاسم کی خدمات ان کے اصل محکمہ کو واپس لوٹاتے ہوئے ایک قرار داد منظور کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے طور پر وقف بورڈ میں مستعار الخدمت ٹاسک فورس آفیسر جناب خواجہ معین الدین کو جو محکمہ پولیس میں ڈی ایس پی کا عہدہ رکھتے ہیں نگران سی ای او مقرر کردیا مگر خواجہ معین الدین نے جب یہ محسوس کرلیا کہ سرکاری عہدیداروں اور بورڈ ارکان کے درمیان جاری سرد جنگ میں وہ بلی کے بکرے بنائے جارہے ہیں۔

انہوں نے ایک مکتوب موجودہ سی ای او کو روانہ کرتے ہوئے نگران سی ای او کا عہدہ قبول نہ کرتے ہوئے ڈی ایس پی، ویجلنس، ٹاسک فورس کے طور پر ہی برقرار رہنے کی خواہش ظاہر کی۔ انہوں نے اپنے مکتوب میں کہا کہ بورڈ نے 20/اکتوبر کو ایک قرار داد منظور کرتے ہوئے انہیں انچارج سی ای او مقرر کیا تھا جو قانون کے مطابعت میں نہیں ہے چونکہ حکومت کو ہی وقف بورڈ کے سی ای او کا تقرر کرنے کا اختیار حاصل ہے۔

بورڈ کے اجلاس کے بعد بہت سے ڈرامائی واقعات رونما ہونے لگے ہیں۔ معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ جناب خواجہ معین الدین نے بورڈ کی منظورہ قرار داد کے ساتھ اپنے نگران سی ای او مقرر کئے جانے سے متعلق ایک مکتوب دفتر سکریٹری محکمہ اقلیتی بہبود میں داخل کرنے خودہی پہنچ گئے تھے مگریہ قانونی پہلو واضح کرتے ہوئے کہ سی ای او کے تقرر کا اختیار صرف حکومت کو حاصل ان سے مکتوب قبول نہیں کیا گیا اور ان کی سرزنش بھی کی گئی، جس سے صدرنشین وقف بورڈ اور چند ارکان کو آگاہ کردیا گیا جس پر ہفتہ کو بورڈ میں زبردست ہنگامہ ہوا۔

بورڈ کے ایک رکن، جناب خواجہ معین الدین کو انچارج کا عہدہ قبول کرلیتے ہوئے جائزہ حاصل کرلینے کے لئے آمادہ کرتے رہے اور جب انہوں نے تردد کا مظاہرہ کیا تو بورڈ کے ملازمین سے تحکمانہ انداز میں کہا گیا کہ کوئی بھی سی ای او جناب شاہنواز قاسم کو امثلہ جات نہ پہنچائے اور چند ملازمین پر سی ای او کی غلامی کا الزام عائد کرتے ہوئے انہیں سخت سست کہا گیا اور یہاں تک کہا جانے لگا کہ سی ای او کے چیمبر کو مقفل کردیا جائے جس کی بھنک لگتے ہی جناب شاہنواز قاسم نے اے سی پی عابڈز کو اطلاع دیتے ہوئے ان کے چیمبر کو مقفل کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی خواہش کی۔

جوں ہی بورڈ میں یہ بات پھیل گئی کہ عابڈز پولیس اسٹیشن کی بھاری جمعیت داخل دفتر وقف بورڈ ہورہی ہے، چیمبر کو مقفل کردینے کی ہانکنے والے چپ چاپ وہاں سے نکل پڑے۔پولیس کے پہنچنے سے قبل جو شور وغل تھا وہ سناٹے میں تبدیل ہوگیا۔

جناب خواجہ معین الدین نے بھی جب یہ دیکھ لیا کہ حالات ان کے موافق نہیں ہیں، نگران سی ای او کو عہدہ قبول کرنے سے انکار کردیا۔ بورڈ نے جس عجلت میں دو قراردادیں منظور کی ہیں اس سے بہت سے سوالات کھڑے ہورہے ہیں اور یہ پوچھا جانے لگا ہے کہ آخر شاہنواز قاسم کو عہدہ سے برخاست کرنے کے لئے بورڈ کے ارکان اس قدر بے چین کیوں ہیں؟ اگر بورڈ کے ارکان چاہتے ہیں کہ بورڈ کے لئے ایک باقاعدہ سی ای او ہونا چاہئے تو وہ قرار داد منظور کرتے ہوئے ریاستی حکومت کی کارروائی کا انتظار کرتے۔

یہ بھی سوال کیا جارہا ہے کہ انتخابی ضابطہئ اخلاق کے نفاذ کی پروا نہ کرتے ہوئے اوقاف کے مفاد میں اجلاس منعقد کیا تو پھر اس اجلاس میں پیش کئے جانے والے 47 ایجنڈہ ایٹمس پر غور و خوض کیوں نہیں کیا گیا جن میں بیشتر امور کا تعلق عوام سے تھا۔ اگر سی ای او کے اقدامات وقف کے مفاد میں نہیں ہیں تو انہیں منظر عام پر لایا جائے ورنہ یہی سمجھا جائے گا کہ بورڈ کے ارکان کو ان سے ذاتی پرخاش ہے۔