سوشیل میڈیاکرناٹک

‘مسلم رواداری کے باعث آج ہندو اکثریت میں ہیں’

ایک موظف ضلع جج وسنت ملاساولگی نے یہ کہہ کر ریاست میں تنازعہ پیدا کردیا کہ ہندوستان میں ہندو اس لئے باقی رہے کہ مسلم حکمرانوں نے انہیں باقی رہنے دیا۔

وجیہ پورہ (کرناٹک): ایک موظف ضلع جج وسنت ملاساولگی نے یہ کہہ کر ریاست میں تنازعہ پیدا کردیا کہ ہندوستان میں ہندو اس لئے باقی رہے کہ مسلم حکمرانوں نے انہیں باقی رہنے دیا۔

مغل دورِ حکومت میں مسلمانوں نے اگر ہندوؤں کی مخالفت کی ہوتی تو ہندوستان میں ایک بھی ہندو باقی نہ رہتا۔ سارے ہندو مارے جاتے۔ سینکڑوں سال حکمرانی کے باوجود مسلمان اقلیت میں کیوں ہیں؟۔

ریٹائرڈ جج نے کرناٹک کے شہر وجیہ پورہ میں ایک سیمینار کے دوران یہ متنازعہ بات کہی۔ سیمینار کا موضوع ”آیا دستور کے مقاصد پورے ہوئے؟“ تھا۔ ان کا بیان سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا۔ راشٹریہ سہاراداویدیکے اور دیگر تنظیموں کے زیراہتمام یہ سیمینار جمعرات کو منعقد ہوا تھا۔

ریٹائرڈ جج نے کہا کہ جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے یہ کیا‘ وہ کیا انہیں جاننا چاہئے کہ ہندوستان میں مسلم دورِ حکمرانی کی تاریخ کیا کہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغل شہنشاہ اکبر کی بیوی ہندو ہی رہی۔ اس نے اسلام قبول نہیں کیا۔ اکبر نے اپنے محل میں کرشنا مندر تعمیر کرایا تھا۔

لوگ ابھی بھی وہاں اسے دیکھ سکتے ہیں۔ موظف جج نے یہ بھی کہا کہ ہندو بھگوان رام اور کرشن صرف ایک ناول کے کردار ہیں۔ یہ تاریخی شخصیتیں نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اشوک اعظم حقیقی تاریخی شخصیت تھا۔ وسنت ملاساولگی نے کہا کہ اتراکھنڈ میں شیولنگ پر گوتم بدھ کی تصویر دکھائی دیتی ہے۔

بدھ مت کے ماننے والوں نے اس سلسلہ میں درخواست داخل کی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مندروں کو ڈھاکر مساجد بنائی گئیں۔ مندروں کے بننے سے قبل سمراٹ اشوک نے 84 ہزار بودھ وہار تعمیر کرائے تھے۔ یہ وہار کہاں چلے گئے؟۔ گزرتے وقت کے ساتھ یہ سب کچھ ہوا۔ کیا اسے بڑا مسئلہ بنایا جاسکتا ہے؟۔

انہوں نے کہا کہ دستور کے مقاصد واضح ہیں۔ شبہات اس لئے پیدا کئے جارہے ہیں کہ سسٹم (نظام) دستور کے مقاصد پورے کرنے میں ناکام ہورہا ہے۔ نوجوان نسل کو چوکنا ہوجانا چاہئے اور اس کے خاتمہ کے لئے اس سمت میں کام کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ 1999میں ایک قانون بنا تھا تاکہ مندروں‘ گرجاگھروں اور مساجد کو 15 اگست 1947 کی حالت میں برقرار رکھا جائے۔

اس قانون کے باوجود ضلع عدالت نے اس سلسلہ میں متضاد فیصلہ دے دیا۔ موظف جج نے کہا کہ ہمیں موجودہ تناظر کے بارے میں سوچنا چاہئے۔ ہمیں ماضی میں نہیں جانا چاہئے۔ ایک اور موظف جج اے ناگراج نے رائے دی کہ تمام امیدواروں کو حلف نامہ داخل کرنا چاہئے کہ وہ الیکشن جیتنے کے بعد پارٹی نہیں بدلیں گے۔ آزادی سے قبل ملک میں حب الوطنی عروج پر تھی۔ اب اس کی جگہ خودغرضی نے لے لی ہے۔