سوشیل میڈیاشمالی بھارت

رام نومی کے نام پر تشدد کا ننگا ناچ ، مدرسہ عزیزیہ پر 500 شرپسندوں نے حملہ کیا تھا

مدرسہ عزیزیہ لائبریری میں تفسیر قرآن کی سینکڑوں کتابیں موجود تھیں۔ اسے پٹنہ کی خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریر کے برابر سمجھا جاتا ہے۔ پٹنہ کا مدرسہ عزیزیہ اور شمش الہدیٰ مدرسہ بہار کے دو قدیم ترین مدارس ہیں۔

بہار شریف: ہم نے خود کو بچالیا لیکن لائبریری کو نہ بچا سکے۔ مرار پور مسجد کے امام محمد سیا الدین نے یہ بات کہی۔ اُنہوں نے ملحقہ مدرسہ عزیزیہ میں جلی ہوئی لائبریری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کئی باتوں کا انکشاف کیا۔

متعلقہ خبریں
مرشدآباد میں رام نومی پر جھڑپیں، الیکشن کمیشن ذمہ دار: ممتا
مکہ مسجد لائبریری میں لاسیٹ کی فری کوچنگ کا 22 اپریل سے آغاز
ہلدوانی تشدد کی مجسٹرئیل تحقیقات کا حکم۔ 6 کروڑ کا نقصان
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اسٹوڈنٹ لیڈر کی گرفتاری کے خلاف طلبہ کا احتجاج
منی پور میں 4 ماہ کے تشدد میں 175ہلاکتیں، 32 افراد لاپتہ

دراصل بہار کے بہار شریف میں رام نومی کے دن ہوئے تشدد کے دوران انگریز دور کے اس مدرسے کی لائبریری کو شرپسندوں نے آگ لگادی تھی۔ یہ لائبریری بھی 31 مارچ کو بہار شریف میں فرقہ وارانہ تشدد کی آگ میں جلکر خاکستر ہوگئی تھی۔

https://twitter.com/Razia_Masood/status/1642470501330341889

مدرسہ عزیزیہ کی 113 سال پرانی لائبریری میں 4500 کتابیں تھیں۔ ان میں سے زیادہ تر ہاتھ سے لکھے گئے تھے۔ کتابوں میں اسلامی ثقافت، مذہب اور ادب کا ذکر تھا۔ 6 لاکھ کی آبادی والے اس شہر میں رام نومی کے دن ہونے والے تشدد میں نہ صرف یہ لائبریری جل کر راکھ ہوگئی بلکہ گاڑیوں، مکانوں اور دکانوں کو بھی آگ لگادی گئی تھی۔ اس پورے واقعہ میں کئی لوگ زخمی بھی ہوئے۔ اب تشدد کی آگ بجھنے لگی ہے تو اس سے ہونے والے نقصانات کی تصویریں آہستہ آہستہ دنیا کے سامنے آرہی ہیں۔

مدرسہ عزیزیہ لائبریری میں تفسیر قرآن کی سینکڑوں کتابیں موجود تھیں۔ اسے پٹنہ کی خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریر کے برابر سمجھا جاتا ہے۔ پٹنہ کا مدرسہ عزیزیہ اور شمش الہدیٰ مدرسہ بہار کے دو قدیم ترین مدارس ہیں۔

یہ مدرسہ بی بی سوگرہ نے 1910 میں اپنے شوہر عبدالعزیز کی یاد میں تعمیر کروایا تھا۔ پھر 1920 میں اس وقت کی برطانوی حکومت نے اسے تسلیم کیا اور اس نے تعلیم کی بہتری کیلئے کام کرنا شروع کیا۔  

امام محمد سیا الدین نے کہاکہ وہ اس واقعہ کے عینی شاہد ہیں جو 31 مارچ کو ہوا تھا۔ رام نومی کا جلوس مدرسہ اور مسجد کے قریب سڑک سے گزرا۔ اُنہوں نے بتایاکہ یہ دونوں عمارتیں گگن دیوان سے تھوڑی ہی دوری پر ہیں، جہاں سے فرقہ وارانہ تشدد شروع ہوا تھا۔ ہمیں لگتا ہے کہ مدرسہ کو شرپسندوں نے جان بوجھ کرنشانہ بنایا۔

https://twitter.com/ashoswai/status/1643988503284576257

امام صاحب نے مزید کہاکہ تین ایکڑ پر پھیلے 18 کمروں والے اس مدرسے پر 500 سے زیادہ لوگوں نے حملہ کیا۔ امام صاحب کا کہنا ہے کہ پولیس حملہ کے دو گھنٹے بعد موقع پر پہنچی ۔ تب تک آگ بے قابو ہوچکی تھی۔ آگ اتنی بھیانک بھی کہ اسے بجھنے میں اگلی صبح تک کا وقت لگا۔ اس وقت تک تمام کتابیں اور کاغذات جل چکے تھے۔