شمالی بھارت

تحفظ کے نام پر وقف بورڈ کا جائیداد پر قابض ہونا دستورِ ہند کے خلاف : سنی مسلمان برادری

سنی مسلمان برادری معافی داران مادریہ عالمین (فقران) سنستھان اور دیگر نے وقف جائیدادوں کے انصرام کے نام پر وقف بورڈ کے زیرقبضہ ایک جائیداد کے خلاف راجستھان ہائی کورٹ میں درخواست داخل کی ہے۔

جئے پور: سنی مسلمان برادری معافی داران مادریہ عالمین (فقران) سنستھان اور دیگر نے وقف جائیدادوں کے انصرام کے نام پر وقف بورڈ کے زیرقبضہ ایک جائیداد کے خلاف راجستھان ہائی کورٹ میں درخواست داخل کی ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ یہ سیکولرازم اور ملک کے اتحاد و یکجہتی کے مغائر ہے کیونکہ ہندومت‘ بدھ مت‘ جین‘ سکھ مت‘ یہودیت‘ بہاازم اور پارسی مذہب و عیسائیت کے ماننے والوں کے لئے کوئی مماثل قوانین نہیں ہیں۔

درخواست گزاروں کا کیس یہ ہے کہ جائیدادوں کے تحفظ کے نام پر وقف بورڈ کا جائیداد کا قابض ہونا دستورِ ہند کے یکسر خلاف ہے اور دستور میں کہیں بھی اس کا تذکرہ نہیں ہے۔ یہ سیکولرازم کے بھی خلاف ہے کیونکہ دیگر مذاہب کے لئے ایساکوئی قانون نہیں ہے۔

درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں تاحال درج رجسٹر وقف جائیدادوں کی تعداد لگ بھگ 6.6 لاکھ ہے اور یہ ملک بھر میں تقریباً 8 لاکھ ایکڑ اراضی پر محیط ہیں جس کی وجہ سے ریلویز اور وزارت ِ دفاع کے بعد وقف بورڈس زمین رکھنے والا تیسرا بڑا ادارہ بن جاتا ہے۔

گزشتہ 10 سال کے دوران وقف بورڈس نے تیزی سے دوسروں کی اراضیات پر قبضہ کیا ہے اور انہیں وقف جائیداد قراردے دیا ہے۔ درخواست میں مزید کہا گیا کہ وزارتِ اقلیتی امور کے تحت کارکرد وقف مینجمنٹ سسٹم آف انڈیا (ڈبلیو اے ایم ایس آئی) کی جانب سے جاری کئے گئے اعدادوشمار کے مطابق فی الحال 6,59,877 جائیدادیں بطور وقف اراضی درج کی گئی ہیں جو تقریباً 8 لاکھ ایکڑ اراضی پر محیط ہیں۔

درخواست گزاروں نے ادعا کیا ہے کہ وہ لوگ فقیر برادری سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے آباواجداد بھی فقیر تھے۔ وہ لوگ اس مقام پر نماز ادا کرتے تھے جسے تکیہ کہا جاتا ہے۔

درخواست گزاروں کے مطابق وقف کے حقیقی معنی قانون ِ وقف کی دفعہ 3(5)(8) میں بتائے گئے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی شخص کی منقولہ یا غیرمنقولہ جائیداد جسے مسلم قانون کے مطابق نیک مذہبی یا فلاحی مقصد کے لئے مستقل طورپر وقف کردیا گیا ہو۔

عموماً یہ ہوتا ہے کہ جائیداد کسی بھی نیک مذہبی یا فلاحی مقصد کے لئے وقف نہیں ہوتی۔ درخواست میں مزید ادعا کیا گیا ہے کہ اراضیات دینے کی حقیقی وجہ (مقصد) کو پورا نہیں کیا گیا ہے۔