سوشیل میڈیا

شادی مبارک اسکیم کی سست رفتاری

ایک عرصہ سے ریاست کی اپوزیشن کا کہنا ہے کہ ہماری ریاست تلنگانہ مالی بحران کا شکار ہے ۔ اور اپوزیشن کا یہ الزام غلط بھی نظر نہیں آتا چونکہ حکومت کی بہت سی اسکیمات پر عمل آوری میں تاخیر اپوزیشن کے الزامات کو درست ثابت کرتی ہے

محمد اسمٰعیل واجد
9866702650

ایک عرصہ سے ریاست کی اپوزیشن کا کہنا ہے کہ ہماری ریاست تلنگانہ مالی بحران کا شکار ہے ۔ اور اپوزیشن کا یہ الزام غلط بھی نظر نہیں آتا چونکہ حکومت کی بہت سی اسکیمات پر عمل آوری میں تاخیر اپوزیشن کے الزامات کو درست ثابت کرتی ہے، خاص طور پر اقلیتوں سے متعلق اسکیمات مثلاً شادی مبارک اسکیم، اقلیتی نوجوانوں کو مائناریٹی فینانس کارپوریشن کے ذریعہ قرض کی فراہمی، ضعیف افراد کو ماہانہ وظائف میں تاخیر، آئمہ وموذنین کی تنخواہوں میں تاخیر یہ سب مسائل چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ اپوزیشن کا الزام بالکل درست ہے کہ ریاست تلنگانہ مالی بحران کا شکار ہے ۔ ستم بالائے ستم یہ کہ مالی بحران اور اپنے ہی مسائل سے جوجھتی اسی تلنگانہ ریاست کے وزیر اعلیٰ کو قومی سیاست میں اپنی جگہ بنانے کا شوق سرچڑھ کر بول رہا ہے…

کہاوت مشہور ہے کہ ’’ پہلے اپنے گھر میں دیا جلاؤ پھر مسجد میں‘‘لیکن ہمارے وزیر اعلیٰ کے کانوں تک شاید یہ کہاوت نہیں پہنچی ہو اسی لئے وہ سرپٹ دوڑلگارہے ہیں، کبھی وہ بنگال کی وزیراعلیٰ ممتابنرجی سے ملاقات کے لئے کلکتہ پہنچ جاتے ہیں پھر تھوڑی سی سکون کی سانس لیکر دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کجریوال سے ملاقات کیلئے رخت سفر باندھتے ہیں اور وہ خالی ہاتھ بھی نہیں جاتے وہاں کے کسانوں میں مالی امداد کے چیکس تقسیم کرتے ہیں تاکہ ان کو ملک کے کسانوں میں مقبولیت حاصل ہو۔ چند دن قبل ہمارے وزیراعلیٰ بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار سے ملاقات کیلئے بہار گئے تھے جہاں ان کا شاندار استقبال بھی ہوا، نیشنل میڈیا نے بھی اس خبر کواچھی جگہ دی …

دونوں ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس بھی کی اس کے بعد ہمارے وزیراعلیٰ کے سی آر نے بہار میں گلوان وادی میں ہلاک فوجیوں کے ارکان خاندان سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں مالی امداد کے چیکس حوالے کئے ۔ شاید وزیراعلیٰ کا یہ ایک اچھا قدم ہو ، لیکن اپوزیشن نے سوال اٹھایا ہے کہ یہ رقم تلنگانہ کے عوام کے خون پسینہ اور محنت سے ادا کردہ ٹیکس کی رقم ہے۔ وزیراعلیٰ نے اپنے سیاسی مفاد کیلئے تلنگانہ کے شہید فوجیوں کو نظر انداز کررہے ہیں اور اپنی نمود و نمائش اور قومی سیاست میں اپنی جگہ بنانے بہار کے فوجیوں کی مدد کررہے ہیں، ان حالات میں مشہور شاعر وسیم بریلوی کا یہ شعر یاد آتا ہے ۔

لگا ہوا ہے وہی پروں کی نمائش میں
جو کہہ رہا تھا اُڑنا مجھے پسند نہیں

جیسا کہ ہم نے اپنی تحریر میں مندرجہ بالا عرض کرچکے ہیں ایک پرانی کہاوت کے ذریعہ ’’پہلے اپنے گھر میں دیا جلاؤ پھر مسجد میں‘‘ ایسی بہت ساری شکایتیں اور خبریں بھی شائع ہوتی رہتی ہیں، اقلیتی اسکیمیں چلانے کے لئے ریاستی حکومت مہینوں تک بجٹ جاری نہیں کرتیں جس کی وجہ سے یہ اسکیموں کو کچوے کی چال چلنے پر مجبور ہونا پڑرہا ہے ۔ اقلیتی فینانس کارپوریشن سے نوجوانوں کو روزگاردینے والی اسکیم تو جیسے برفد دان کے حوالے ہوگئی، لاکھوں درخواستیں جیسے ردی کی نذر ہوگئیں، نوجوان دفاتر کے چکر کاٹ کر اپنی چپلیں گھس چکے، عہدیدار صرف یہ کہتے رہے کہ بجٹ نہیں اب پھر اس باسی کڑی میں اُبال آرہا ہے ۔

پھر اقلیتی نوجوانوں سے قرض کی فراہمی کی درخواستیں مانگی جارہی ہیں، پہلے کی درخواستوں کا کیا ہوا؟ یہ درخواست کے نتائج کا انتظار کرنے والے نوجوانوں کا سوال ہے ان کا کہنا یہ بھی ہے کہ کہیں حکومت ان سے مذاق تو نہیں کررہی ہے ۔ اسی طرح اقلیتی طلباء کی فیس بازادائیگی کی اسکیم بھی لٹکی ہوئی ہے، جس سے ہزاروں طلبا متاثر ہیں اور موجودہ حکومت پر مشہور شاعر شارق کیفی کا یہ شعر صد فیصد درست ثابت ہوتا ہے ۔

بھیڑ نے یوں ہی رہبر مان لیا ورنہ
اپنے علاوہ کس کو گھر پہنچایا ہم نے

شادی مبارک اسکیم یہ حکومت تلنگانہ کی ایسی اسکیم ہے جو اقلیوں میں بے انتہا مقبول ہوئی ہزاروں غریب مسلمانوں نے اس اسکیم کا فائدہ اٹھایا چونکہ آج کے دور میں شادی ایک بڑا مسئلہ بن گئی ہے… کئی بن بیاہی لڑکیاں اس مسئلہ سے آج بھی جوجھ رہی ہیں، والدین فکر مند ہیں ایسے میں تلنگانہ حکومت کی شادی مبارک اسکیم غریب عوام کیلئے ایک نعمت ثابت ہوئی لیکن اس اسکیم میں ابتداء سے ہی خامیاں رہیں جسے اخبارات نے اُجاگر بھی کیا۔ اس اسکیم کی مقبولیت کو دیکھ کر حکومت نے اس کی رقم میں اضافہ بھی کیا لیکن شادی مبارک اسکیم میں حکومت وہ تبدیلیاں نہیں لاسکی جس سے غریب درخواست گذار کو وقت پر یا کم مدت میں اسکیم کے فوائد حاصل ہوں ۔

لاک ڈاون کے بعد شادی مبارک اسکیم کی چمک ماند پڑگئی غریب درخواست گذار اپنی لڑکی کی شادی اس اسکیم سے حاصل ہونے والی رقم کے بھروسہ پر سودخوروں سے رقم حاصل کرکے اپنی لڑکی کی شادی تو کرچکا لیکن مہینوں بیت جانے کے بعد بھی اس کی درخواست زیرالتواء ہی رہی اور ادھر سودخور کا سود بڑھتا ہی گیا اور حال یہ ہوگیا کہ یہ اسکیم اس کیلئے نعمت نہیں زحمت ثابت ہورہی ہے ۔

حکومت تو شادی مبارک اسکیم کی کامیابی کے دعوے پرزور انداز میں کرتی ہے لیکن اس اسکیم کے درخواست گذاروں کا ردِ عمل اس کے بالکل برعکس نظر آتا ہے۔ کئی شکایتیں اس اسکیم کے درخواست گذاروں کے سامنے آئی ہیں، درخواست گذار مہینوں دفاتر کے چکر کاٹ کر چپلیں گھس جانے پر بھی کام نہیں ہونے کی بات کرتے ہیں ۔ ایک مایوس درخواست گذار نے تویہاں تک کہہ دیا کہ اس کی لڑکی کی شادی ہوکر ایک سال سے زیادہ کا عرصہ ہوچکا اس نے یہاں تک کہہ دیا کہ اس کی لڑکی ایک بچہ کی ماں بن چکی لیکن درخواست جہاں تھی وہیں آج تک رکی ہوئی ہے، وہ دفاتر کے چکر کاٹ کاٹ کر عاجز آچکا ہے ۔

دراصل دیکھا جائے تو اس اسکیم میں قدم قدم پر دھاندلیاں ہیں اور یہ دھاندلیاں می سیوا سے شروع ہوتی ہیں جہاں درمیانی افراد مل جاتے ہیں جو درخواست گذار کو درخواست کی یکسوئی جلد کرانے کا لالچ دیتے ہیں ۔ جو درخواست گذار از خود اپنی کاروائی کرنے لگتا ہے اسے ہزاروں پاپڑ بیلنے پڑرہے ہیں ۔ محکمہ اقلیتی بہبود کے اعلیٰ عہدیدار اسکیم کی موجودہ خامیاں جس کے سبب ہونے والی پریشانیوں پر متوجہ کروانے پر یہ کہہ رہے ہیں کہ محکمہ کے ذریعہ صرف اسکیم چلائی جاتی ہے جبکہ ان اسکیمات میں رقومات کی اجرائی اور درخواستوں کی تنقیح میں دوسرے محکمہ جات سرگرم ہیں ۔یعنی گیند کسی دوسرے کے پالے میں ڈالنے والی بات … کبھی کہا جاتا ہے کہ ان درخواستوں کی تنقیح کا کام تحصیلدار کا ہے ان سب حیلے بہانوں میں مہینوں گذر جارہے ہیں اور اب تو ایسا لگنے لگا ہے کہ یہ اسکیم ہی وینٹیلیٹر پر آگئی ۔

وزیراعلیٰ قومی سیاست میں جانے کی کوشش ضرور کریں، لیکن اپنے ریاست کے مسائل جاننا اور ان کو حل کرنا ان کی اولین ذمہ داری ہے وہ دوسری ریاست کے کسانوں یا فوجیوں کی مدد ضرور کریں سب ہندوستانی ہی ہیں لیکن جیسا کہ ہم باربار کہہ رہے ہیں پہلے گھر میں چراغ جلنا چاہیے … ایسا نہیں ہوگا تو اپوزیشن تو کہے گی تلنگانہ حکومت معاشی بحران کا شکار ہے اب اس میں حقیقت کیا ہے فسانہ کیا ہے یہ تو حکومت جانے …
٭٭٭