مضامین

کیا ہم صرف نعرہ بازی اور بیان بازی ہی میں جینا چاہتے ہیں؟

محمد ضیاءالدین

گزشتہ ایک صدی میں مسلمانوں کی مذہبی سیاسی اور ملی قیادت نے مسلمانوں کا مزاج کچھ ایسا بنادیا ہے کہ بات چاہے کتنی ہی سنگین کیوں نہ ہو، اس کا حل وہ نعرے بازی اور بیان بازی ہی میں ڈھونڈتے ہیں۔ المیہ یہ کہ مسلمانوں کی اس مزاجی کیفیت کا مذکورہ بالا کی اکثریت نے بھر پور استحصال کرکے اپنا الو سیدھا کیا ہے۔ اب تو یہ حال ہے کہ اگر کوئی انھیں حقیقت کا آئینہ دکھائے تو اسے وہ ازلی دشمن سمجھنے لگتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کسی بات کو حقیقت کے پیمانے پر ناپا جائے تو پھر جذبات کے پتھروں سے بناے گئے خیالی حسین بت گر کر پاش پاش ہوجاتے ہیں۔ جذبات کی دنیا کی سیر کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ یہاں محنت اور عمل کی ضرورت نہیں پڑتی، بس اٹھائی زبان اور لگائی تالو کو اور بن گئے سورما۔ ایسے کئی معاملات ہیں جہاں ملت کسی بھی معاملے کی جڑ تلاش کرنے کی زحمت گورا کئے بغیر پتوں اور پھل کو ہی اصل سمجھتی ہے، اس کی ایک وجہ شعور کا فقدان بھی ہے، تربیت کی کمی بھی ہے اور غیر عملی بیان بازی بھی ہے۔ جب بھی مسلمانوں کے نوجوانوں کی بے ڈھنگی روش پر کوئی تنقید اور نکتہ چینی کرتا ہے تو ہمارے ناندیڑ کے ایک صحافی دوست کہتے ہیں کہ اس میں ان کا قصور کیا ہے ؟ ان کو جنھوں نے تربیت دینی چاہیے تھی، انھوں نے کیا کیا۔ سرپرست خود انھیں پتہ نہیں کہ اپنی اولاد کی تربیت کیسے کی جائے وہاں سے وہ بچہ اسکول گیا جہاں توقع تھی کہ لاکھ روپئے کے قریب تنخواہ پانے والے اساتذہ اسے ایک کامل انسان ایک باشعور شہری بنا کر معاشرے میں بھیجیں گے، لیکن وہاں سے بھی وہ کورا نکل آتا ہے۔ ایک جگہ اور ہے جہاں سے اس کے ایک نیک اور صالح انسان بن کر نکلنے کی توقع تھی وہ ہے مسجد جہاں ہر جمعہ وہ پابندی سے جاتا رہا اور جاتا ہے اور جہاں اس کو ایک پاک باز اور دین اسلام کی تعلیمات کے عین مطابق مومن بن کر نکلنے کے مواقع تھے اور ہیں لیکن وہاں سے بھی وہ بالکل کورا نکل آتا ہے، اب معاشرے کو باشعور اور حقیقی مومن کہاں سے میسر آئیں گے۔
آج کل سوشل میڈیا کا زمانہ ہے، یہ ایک ایسا ان ایڈٹیڈ پلیٹ فارم ہے جہاں کوئی بھی جاکر سقراط و بقراط بن سکتا ہے اور جہاں اسے اپنے منہ میاں مٹھو بننے سے کوئی بھی نہیں روک سکتا اور یہ ایک نہایت آسان ذریعہ ہے۔ اپنے فرایض کی ادائیگی کی کہ ایک پوسٹ یا کاپی پیسٹ پوسٹ ڈال دو اور بس اپنا فرض ادا اس دور میں ایک خاص بات یہ دیکھنے میں آرہی ہے کہ ہر کوئی اپنے آپ کو دانشور اور عالم و فاضل سے کم سمجھنے تیار ہی نہیں اور اس کی دانشوری کے اظہار کے لیے سوشل میڈیا اس کی خدمت میں موجود ہے۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ عام لوگ کبھی ان معاملات میں منہ نہیں کھولتے تھے جس کی ان کو کماحقہ واقفیت نہ ہوبلکہ لوگ مختلف معاملات میں اس شعبہ کے ماہرین کی رائے کے منتظر ہوتے اور اسے بغور سن کر اس پر عمل پیرا ہوتے تھے اور کم علمی کے باوجود منہ مارنے والوں کو نیم حکیم کہا جاتا اور خطرہ جان قرار دیا جاتا، لیکن آج کل سوشل میڈیا کی مہربانی سے نہ صرف نیم حکیم بلکہ نیم ملاﺅں کی بھی ایک بڑی تعداد جلوہ گر و مصروف عمل ہے۔ اب لوگوں کی جان جائے یا ایمان ان کی بلاسے ۔ غرض کہ عجیب صورت حال اور افرا تفری کا ماحول ہے لوگ بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے ہیں کہ ادھر کی رائے کنواں تو ادھر کی کھائی اور عام آدمی حیرت کا شکار ہے کہ الہی یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں، کس کا اعتبار کریں، کس پر ایمان لائیں۔ حال ہی میں ایک مہم چلی وہ تھی بایکاٹ کی مہم اور خیر سے نئی نہیں ہے کہ بارہا بائیکاٹ بھی ہوا اور ختم بھی ہوا کہ
توبہ بھی توڑی تو ٹوٹے ہوے پیمانوں سے
جب بھی یہ مہم اٹھتی ہے جو بڑے ولولہ خیز انداز سے اٹھتی ہے اور یوں لگتا ہے کہ اب کی بار یہ دشمن کی کمر توڑ کر ہی رہے گی اور ہوتا یہ ہے کہ
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پر تماشا نہ ہوا
غزہ پر اسرائیلی وحشیانہ حملوں نے ساری دنیا کے مسلمانوں میں بے چینی کی لہر دوڑا دی ہے اور ہر طرف سے اس کی مذمت کی جارہی ہے۔ مسلمانان عالم بھی اضطراب دکھ و غم و صدمے سے نڈھال ہیں ۔ ہندوستانی مسلمان بھی عالم عرب میں ہونے والی کسی بھی واردات سے بے چین ہوجاتے ہیں بالخصوس فلسطین کے مسلمانوں پر ہونے والے اسرائیلی مظالم انھیں بے چین کردیتے ہیں۔ پچھلی صدی میں جب مسلمانان ہند نے مسجد اقصیٰ میں آتشزنی کی خبر سنی تھی تو ہند کے مسلمانوں پر بجلی سی گر گئی تھی اور سارے کے سارے مسلمان سراپا غم بنے سڑکوں پر آگئے تھے۔ اسی طرح جب سعودی فرمان روا شاہ فیصل کو گولی ماری گئی تھی تو ان کی شہادت پر ہندوستانی مسلمان بے حد مضطرب ہو گیا تھا اور جابجا ان کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی تھی۔ ہندوستانی مسلمانوں کا عالم اسلام کے تئیں یہ جذبہ قابل صد تحسین ہے۔ اسی جذبے کے سبب حالیہ اسرائیلی بربریت نے ہندوستانی مسلمانوں کو بے چین کر رکھا ہے اور وہ مظلوم فلسطینیوں کے تئیں اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں جیسا کہ کہا گیا کہ ایسے صادق جذبات کا ہونا نہایت قابل تحسین ہے ، لیکن سوال یہ بھی ہے کہ کیا محض جذبات سے اور جذبات کے اظہار سے ہم اپنے مقصد کو پا سکتے ہیں جوش ضروری ہے، لیکن ہوش کے طابع جب کہ ہمارے ہاں صرف جوش کی فراوانی ہے جس میں ہوش کا عنصر کہیں بھی نہیں پایا جاتا اور یہ بھی ہے کہ جب تک جوش کو صحیح راہ نہ ملے وہ بے فیض بلکہ اکثر و بیشتر نقصان دہ ثابت ہوتا ہے اور افسوس کی بات یہ کہ ہماری ملت جوش میں بہی جارہی ہے۔ کبھی کبھی لگتا ہے جیسے ہم خود ہی کو دھوکہ دے رہے ہی۔ موضوع ہے اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کا جس سے شاید ہی کوئی مسلمان بلکہ انسانیت پسند انکار کرے کہ یہی تجارت ہے جس کے بل پر اسرائیل انسانیت کی حدود سے باہر نکل رہا ہے۔ یہی پیسہ ہے جس کی طاقت کے بل پر فلسطین کے نہتے عوام پر ظلم ڈھاکر خون ریزی کا بازار گرم کیے ہوئے ہے۔ ایسی انسان دشمن طاقتوں کو ہر محاذ پر کمزور کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے، اس لیے اس کو معاشی نقصان پہنچانا وقت کی اہم ضرورت ہے لیکن اس بائیکاٹ کی زمینی حقیقت کیا ہے۔ اسرائیل کی شرارت کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ قصہ سات دہائیوں پر محیط ہے اور ہر بار ہم بائیکاٹ کی نعرے بازی کرتے رہے اور اسرائیلی اشیاءاستعمال کرتے رہے بلکہ اس سے قبل کسی نے مزاحیہ انداز میں تحریر کیا تھا کہ اسرائیل کے بائیکاٹ کے لیے منعقدہ جلسے میں اسرائلی مصنوعات کے استعمال کے خلاف گلہ پھاڑ کر تقاریر کرنے والے جلسے کے اختتام پر اسرائیلی کولڈ ڈرنک سے اپنا گلہ تر کررہے تھے تو یہ ہے ہمارا بائیکاٹ۔ اس سے قبل جب اسرائیل نے غزہ پر حملہ رکے خوں ریزی کی تھی تب اسرائیل کے بائیکاٹ کے اپنے ارادے پر ہم قائم رہتے تو آج ہم کو اسرائیل کے بائیکاٹ کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ ویسے بھی بائیکاٹ منظم اور منصوبہ بند طریقے پر کیا جاتا ہے اور کیا جانا چاہیے نہ کہ چیخ پکار کرکے۔ ہمارے ملک میں بھی اسرائیلی ذہنیت کے تاجروں کی مصنوعات کا ہم کو بائیکاٹ کرنا چاہیے لیکن اس کا اعلان کرکے نہیں بلکہ اس کا متبادل تیار کرکے اور اس متبادل کو پروموٹ کرکے، تب ہی ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکتے ہیں ۔جب ہم بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہیں تب جہاں ہم اس کو معاشی نقصان پہنچانے کی ترکیب کرتے ہیں،وہیں اس عمل میں ہمارا اپنا فائدہ بھی ہمارے پیش نظر ہونا چاہیے، ابھی ایک صاحب بتارہے تھے کہ اگر ہم اپنے محلے کے دکاندار سے اسرائیلی اشیاءہٹانے کی گزارش کریں گے تو وہ کہے گا کہ صاحب میری تو دکان ہی خالی ہوجائے گی تب وہ کیا کمائے گا اور کیسے گزارہ کرے گا، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ساری ڈیلی نیڈ کی اشیاءجو اسمال اسکیل انڈسٹریز کی ذیل میں آتی ہوں ان کا پروڈکشن کیا جائے۔ ہوم انڈسٹری اور کاٹیج انڈسٹری کو فروغ دیا جائے اور اسرائیلی اشیاءکا ایک معیاری متبادل سامنے لایا جائے تاکہ اس کو معاشی طور پر زک پہنچائی جاسکے اور وہیں ہم معاشی طور پر مضبوط ہوں۔ آج صورت حال یہ ہے کہ اسرائیلی مصنوعات کے کئی ڈیلر مسلمان ہیں۔ ان مصنوعات کو بیچنے والوں کی بڑی تعداد مسلمانوں کی ہے، تب اچانک ان ساری چیزوں کا چھوڑ دینا کیسے ممکن ہے۔ اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی بجائے اور اس کے لیے راستہ ہموار کیے بغیر بائیکاٹ کے نعرے خود فریبی سے زیادہ کچھ نہیں اور اس سے خودنمائی کرنے والوں اور سستی شہرت کے لیے چیخ پکار کرنے والوں کی خواہشات تو پوری ہوسکتی ہیں، لیکن گوہر مقصود ہاتھ آنے سے رہا۔ مارکیٹ کا اصول یہ ہے کہ گاہک کو معیاری شئے سستے داموں میں ملے تو اس کے بنانے والے کی ذات دھرم نہیں دیکھتا، اسے اپنے فائدے سے مطلب ہوتا ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے محلوں میں گھریلو مصنوعات کی صنعت کو فروغ دیا جائے۔ ہمارے تعلیم چھوڑ ئے ہوئے نوجوانوں کو تکنیکی ٹریننگ دی جائے۔ ایک دور تھا، زندہ طلسمات فاروقی منجن جیسی مصنوعات صارفین کی اول پسند تھیں لیکن آج وہ ہماری دکانوں پر بھی دستیاب نہیں ہیں۔ آج کا دور ہر شعبہ میں سخت مقابلہ آرائی کا دور ہے۔ اگر ہماری مصنوعات مارکیٹ کی دیگر مصنوعات سے زیادہ معیاری ہوں تو ہی وہ مارکیٹ میں ٹک سکیں گی۔ ہمارے مسلم صنعتکاروں کو دیگر اقوام کے چیمبر آف کامرس کے طرز پر اپنے چیمبر آف کامرس قایم کرنا چاہیے۔ ہماری مصنوعات کے ماہرین کو میدان میں آکر مصنوعات کی تیاری اور اس کی مارکیٹنگ کے لیے رہنمائی کرنا چاہیے۔ الحمد للہ ہماری ملت میں ذہانت اور محنت کی کمی نہیں، کمی ہے تو مناسب رہنمائی کی۔ یہ بھی ہے کہ آزادی کے بعد سے ہماری صنعتوں کو ایک منظم سازش کے تحت تباہ وبرباد کیا گیا، تاہم اپنی سخت جانی کے سبب یہ قوم اس آگ سے بھی باہر نکلنے میں کامیاب رہی ہے۔ ہمارے اپنے شہر کی بات اس علاقے کا مسلمان پولیس ایکشن میں تباہ و تاراج ہوگیا تھا ۔۱۹۸۰ سے پہلے مسلمانوں کا یہ حال تھا کہ ان کے روزگار کے ذرائع سایکل ٹیکسی کی دکانیں ، چائے بھجیے کے ٹھیلے، پان کے ڈبے، کیرم کے اڈے یا پھر سیکل پنکچر بنانا، حمالی کرنا، سیکل رکشہ چلانا یہی مسلمانوں کے کاروبار تھے۔ مسلمانوں کی بڑی دکانیں اتنی ہی تھیں جتنا کہ آٹے میں نمک پھر وقت نے کروٹ بدلا تو یہ حالت ہوگئی کہ سارے مارکیٹ پر مسلمان ہی چھا گئے۔ ان کی کم منافع کی چھوٹی دکانداری منافع خوروں کی بڑی بڑی دکانوں کو نگل گئی اور بلا امتیاز مذہب و ملت گاہک سیدھے ان مسلم دکانوں کا رخ اس لیے کرتا ہے کہ اسے اس بات کا بھروسہ ہے کہ یہاں اچھی چیز کم دام میں ملے گی۔ یوں دیانت داری اور محنت نے نقشہ ہی بدل دیا۔ ضرورت ہے استقامت کی، کیوں مثل مشہور ہے کہ دولت اور شہرت کے معاملے میں مسلمانوں کا ہاضمہ بہت کمزور ہوتا ہے۔ اسی طرح کنسٹرکشن ریل اسٹیٹ جیسے کاروبار نے ہزاروں زمین پر رینگنے والے مسلمانوں کو دولت مندوں کی صف میں بٹھادیا ہے۔ غرض کہ صلاحیت اور محنت کی اس ملت کے پاس کوئی کمی نہیں کمی اگر ہے تو تنظیم و ترتیب کی منصوبہ بندی کی اور سائنسی رہنمائی کی۔ اگر ہماری ملت کے مختلف شعبوں کا ماہر طبقہ اس ملت کی مناسب رہنمائی کرے تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی وہیں ملت کے شعور کو بیدار کرنا بھی ضروری ہے۔ اگر ہمارے رہنما نما لوگ جو سوشل میڈیا پر چیخ پکار کرتے ہیں، متعلقہ لوگوں سے بالماشافہ مل کر ان کو اسرائیلی مصنوعات سے کنارہ کش ہونے کی ترغیب دیں تو یقینا ہم اس سے کہیں زیادہ زک پہنچا سکتے ہیں جو چیخ پکار کے ذریعہ بھی نہیں پہنچا پارہے ہیں۔