سیاستمضامین

آزادی اب بھی ادھوری ہے

محمد اعظم شاہد

۹ دو سال قبل جب ملک میں حصول آزادی کے 75 سال کا جشن منایاگیا، اس دوران وزیر اعظم مودی نے آزادی کا امرت مہاتسو، منانے کا اعلان کرتے ہوئے ایک نئے ترقیاتی منصوبہ، امرت کال پیش کیا ، یعنی 1947 ء سے 2047 ء تک آزادی کے پورے سوسال مکمل ہوجائیں گے ، اس لئے 2021 ء سے 2047 ء تک ملک کی ہمہ گیر ترقی کیلئے تاریخ ساز اقدامات کئے جائیں گے ، اس طول مدتی منصوبے کے تحت ملک کی وراثت کو مضبوط و مستحکم رکھتے ہوئے، ماضی کے تجربات کی روشنی میں ایک نئے بھارت کی شکیل کی کوششیں ہوں گی ۔ اپنے اعلان میں مودی نے کہا تھاکہ امرت کال ( آزادی کے سو سال کے متوقع جشن ) کے دوران ایک ایسا بھارت تشلیل پائے گا، جہاں تمام ترقیاتی منصوبے اور سہولتیں شہروں اور دیہاتوں میں کسی بھی تفریق کے بغیر یکساں طور پر پہنچائے جائیںگے اور ملک میں بسنے والے باشندوں کی زندگی اور روز مرہ کے معاملات میں حکومت کی غیر ضروری مداخلت بھی نہیںہوگی۔ ملک میں عالمی سطح کی سہولتیں فراہم ہوں گی اور ترقیاتی ڈھانچے تیار کرلئے جائیں گے ۔
کہنے اور کرنے میں عام طورپر جو فرق اور فاصلہ ہوتا ہے وہی سب کچھ اب نظر آرہا ہے ۔ محض ارمانوں سے تقدیریں کہاں بدل پائی ہیں؟ تدبیریں نہ ہوں تو اعلانات اور وعدے ادھورے ہی رہ جاتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ اب ہونے لگا ہے ، ملک کو خودکفیل Self Reliant بنانے کا عزم حصول آزادی کے بعد لیاگیا تھا، پنچ سالہ معاشی منصوبوں کی وساطت سے اس جانب کوششیں کی گئیں، مگر پچھلے دس سالوں میں ترقی کا پیمانہ منظم اور منصوبہ بند طورپر ہونے سے رہ گیا ہے ۔ حکومت کی غلط مالیاتی اور معاشی پالیسیوں کے باعث ترقی کا راستہ ٹیڑھا رہ گیا ہے ۔ امیر اور غریب کے درمیان فاصلہ بڑھتا ہی جا رہا ہے جو ملک کی مجموعی ترقی کیلئے صنعتی اور ادارے قائم کئے گئے تھے PSUs اب انہیں فروخت کرنے یا پھر نجی کاری Privatisation کے دہانے پر لایا گیا ہے ۔ اس موڑ پر جہاں بڑے شہروں اور دیہاتوں کی ترقی میں زمین آسمان کا فاصلہ ہے ، تو کیسے ہم آتما نربھر بھارت کی تشکیل کرپائیں گے ؟ ملک کے شہریوں کے معمولات زندگی میں حکومتوں کی غیر ضروری مداخلت نے تو جینا دوبھر کردیا ہے۔ ملک کی وراثت جس کی بنیاد کثرت میں وحدت رہی ہے ، وہ کمزور کی جاتی رہی ہے ۔ اب اس وراثت کو مضبوط اور مستحکم بنانے کا عزم صرف رسمی عزم ہی نظر آرہا ہے ۔
اب حصول آزادی کا 77 واں جشن منایا جا رہا ہے ۔ غلامی سے آزادی تو مل گئی، مگر جس آزادی کا عہدو پیماں ہمارے دستور میںکیاگیا ہے ۔ وہ آزادی حقوق کی مساوات ، اظہار خیال اور مذہب پر پابند رہنے کی آزادی ، ان سب پر موجودہ حکومت نے گھناؤنے سائے پھیلا رکھے ہیں۔ کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ گویا گہن آلود ہیںوہ تمام مراعات و حقوق جو دستور نے ہر ہم وطن کو عطا کئے ہیں، ملک کی تکثیریت Diversity اور سکیولر روایات کی صورتحال میں بگاڑ کا باعث محض اتفاق نہیں بلکہ یہ ایک دانستہ ہندوتوا ایجنڈے کی تکمیل کی جانب موجودہ حکومت کے بڑھتے قدم ہیں۔ مودی حکومت کی کارکردگی اور کارستانیوں پر اظہار ملال اور رنج کرنے سے حاصل تو کچھ نہ ہوگا، مگر افسوس اس بات کا ہے کہ عوام میں عدم رواداری اور عدم اطمینان کے تداراک کیلئے اکثر و بیشتر اپوزیشن پارٹیاں آواز اٹھاتی رہی ہیں، ایوان اقتدار میں ایسی آوازیں ان دنوں سنی جا رہی ہیں، مگر عوام کی جانب سے کوئی رد عمل ہوتا ہوا نظر نہیں آتا ۔ یوں لگتا ہے کہ عوام کو حالات کی ستم ظریفی سہنے کی عادت سی ہوگئی ہے ۔
موجودہ حکومت کا نظریہ اور طرز فکر ملک کی تاریخ اور وراثت کے حوالے سے بتدریج بدلتی جا رہی ہے ، یہ اس لئے بھی عرض کرنا پڑ رہا ہے کہ پہلے حکومت کی جانب سے جشن آزادی کے موقع پر اشتہارات جاری کئے جاتے تھے ، ان میں صداقتوں کا پیغام مثبت زاویہ سے پیش کیا جاتا تھا،اب ہر اشتہار میںمودی کی تصویر، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا مودی ہی سب کچھ ہے ۔ اور اشتہارات میں جانبدارانہ رویہ اور اکھنڈتا کا بیانیہ کھلے عام واضح ہوتا ہے ۔ اس ضمن میں دو اشتہارات کا موازانہ کرتے ہیں۔ پہلا اشتہار اکتوبر 1992 ء کا ہے جو میرے روبرو ہے ، عنوان ہے ’’ آزادی کے تحفظ کی ڈھال ‘‘ متن کی تفصیل یوں ہے ۔ ’’ ہند کے عوام نے ذات پات اور مذہب و ملت سے بلند اور متحد ہوکر آزادی کی جنگ لڑی ، جذبہ اتحاد ، قربانی اور سکیولر نقطہ نظر ان کی جدوجہد کا امتیازی نشان رہے ہیں، یہی جذبہ ہمیں متحد رکھ سکتا ہے اور ترقی کی راہ پر آگے لے جاسکتا ہے ‘‘ ۔
اختتام پر لکھا گیا ہے ۔’’ ہماری آزادی کا محافظ … سکیولرزم ‘‘ …
پچھلے ہفتے وزارت اطلاعات نے انگریزوں کے خلاف بھارت چھوڑو تحریک کی یاد میں 8 اگست کو ایک اشتہار مودی کی تصویر کے ساتھ شائع کیا جس میں ان کا بیان بھی شامل ہے ، جہاں کہا گیا ہے کہ امرت کال ، کرتویاکال ( فرض کی ادائیگی کا دور ) بھی ہے اور ہمیں نئی توانائی اور نئی ترغیب کے ساتھ آگے بڑھنا ہے ۔ اشتہار میں مہاتما گاندھی کی تصویر بھی لگی ہے ، اور لکھا گیا ہے کہ’’آج ملک کو ہر بری چیز کو بھارت چھوڑو کہنا ہے ۔ رشوت، پریوار واد ( نہرو خاندان کی جانب اشارہ ) اور بہلاوا اور خوشامد ( کانگریس کی طرف اشارہ ) بھارت چھوڑو‘‘… لکھا گیا ہے ۔ یعنی کوئی موقع اپنا ایجنڈا سیدھا کرنے کا ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی ہے مودی حکومت ، جشن آزادی پر محسوس ہوتا ہے کہ کیا یہی ہے آزادی جس کا تصور ہمارے مجاہدین آزادی نے دیکھا تھا ؟؟؟
۰۰۰٭٭٭۰۰۰