مضامین

ٹوئٹر آزاد ہوگیا ….؟؟

منور مرزا

”دی برڈ اِز فِریڈ“ یعنی چڑیا آزاد ہوگئی ہے۔ یہ وہ پیغام ہے، جو دنیا کے امیر ترین شخص، ایلون مسک نے ٹوئٹر خریدنے کے فوراً بعد دیا اور ساتھ ہی انہوں نے اپنے پروفائل میں ”چیف ٹویٹ“ کا بھی اضافہ کردیا۔ آج کی دنیا میں جہاں ہر شخص یہ کہتا نظر آتا ہے کہ جوکچھ نظر آرہا ہے، وہ درحقیقت سوشل میڈیا کا جادوہے، ایلون مسک کا ٹوئٹر خریدنا کوئی معمولی بات نہیں کہ ٹوئٹر سوشل میڈیا کا سب سے مقبول اور تیز ترین پلیٹ فارم ہے، جو بیک وقت لاکھوں بلکہ بعض اوقات کروڑوں افراد استعمال کرتے ہیں۔
اِدھر کوئی واقعہ ہوا اور اْدھر دھڑا دھڑ ٹویٹس آنے شروع۔ یاد رہے، ٹویٹ اُس پیغام یا اظہارِ رائے کو کہتے ہیں، جو ٹوئٹر کا اکاؤنٹ ہولڈر کرتا ہے۔ ویسے یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ ٹویٹس نے آج کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کرکے رکھ دیا ہے۔ ویسے تو ٹوئٹر پہلے ہی سے مقبول تھا، لیکن سابق امریکی صدر، ڈونالڈ ٹرمپ نے ٹویٹس کو سرکاری پریس ریلیزز کی جگہ استعمال کرکے ان کی اہمیت میں خاصا اضافہ کردیا اور اب ٹویٹس حکومتی معاملات اور سیاست میں ایک مرکزی مقام رکھتے ہیں۔ دنیا کی تمام اہم شخصیات نہ صرف ٹوئٹر پر موجود ہیں، بلکہ اس پلیٹ فارم پر سرگرم بھی رہتی ہیں۔
ٹوئٹر کی چڑیا ابتدا ہی سے خاصی آزاد رہی ہے کہ ٹوئٹر پر ہر کوئی، کسی بھی واقعے پر آزادانہ طور پر اپنی رائے کا اظہار کرسکتا ہے۔پھر ایک آسانی یہ بھی ہے کہ مین اسٹریم میڈیا پر خبر کے غلط ہونے کی صورت میں معافی مانگنی پڑتی ہے، جب کہ سوشل میڈیا پر ایسی کسی صورتِ حال میں تردید یا اعتذار کی کوئی زحمت گوارا نہیں کی جاتی۔ زیادہ سے زیادہ ٹویٹ ڈیلیٹ کردی جاتی یا اس کی جگہ کوئی تصحیح شدہ ٹویٹ پوسٹ کردی جاتی ہے۔امریکہ میں ٹرمپ نے ٹوئٹرکا بہت کام یاب استعمال کیا کہ جس سے اُن کا مقصد مین اسٹریم میڈیا کی اہمیت کم کرنا تھا، کیوں کہ مین اسٹریم میڈیا شروعات ہی سے ٹرمپ کا سخت مخالف تھا۔
چوں کہ ٹرمپ کو بیوروکریسی پر بھی اعتماد نہیں تھا، اس لیے وہ خود ہی اہم معاملات پر براہ راست اپنا موقف بیان کردیتے تھے۔ پھر انہی کے نقش ِ قدم پر چلتے ہوئے کئی سربراہانِ مملکت، بالخصوص پاپولسٹ اور قوم پرست لیڈرز نے اپنا ہر موقف ٹوئٹر پر دیناشروع کردیا۔لیکن ایلون مسک نے ٹوئٹر خریدتے ہی جو اقدمات کیے، ان کے بعد ٹوئٹر کی کیا شکل ہوگی، کیا وہ اپنی اہمیت برقرار رکھ پائے گا، یہ ایک اہم سوال ہے۔کیوں کہ ٹوئٹر ساری دنیا کے لیے تو دل چسپی کا باعث ہی ہے، مگر سیاست دانوں، سیلیبریٹیز وغیرہ کے لیے عمومی طور پر کافی اہم ہے۔
اب کسے اس پلیٹ فارم سے اپنی شہرت برقرار رکھنے یا پالیسیزآگے بڑھانے کا کتنا موقع ملتا ہے، اس کا فیصلہ مستقبل میں ہوگا کہ یہ سب ایلون مسک کے فیصلے پر منحصر ہے۔ لیکن ایک بات تو طے ہے کہ ایلون مسک یا اس کی پالیسیز کے خلاف کم از کم ٹوئٹر پر تو کوئی احتجاج نہیں ہو سکتا۔ واضح رہے، سابق امریکی صدر، ٹرمپ کو ٹوئٹر نے بین کردیا تھا، لیکن ایلون مسک نے ان کا اکاؤنٹ بحال کردیا ہے۔
ایلون مسک،ترقّی یافتہ دنیا، خاص طور پر تاجر کمیونٹی کی بہت ہی جانی پہچانی شخصیت ہیں۔یہ ایک امریکی تاجر ہیں، جو دنیا کے امیر ترین آدمی ہیں۔ان کے اثاثہ جات کی مالیت 250 بلین ڈالرز ہے۔اندازہ لگایا جاتا ہے کہ مسک کے پاس اتنی دولت ہے کہ وہ تنِ تنہا بڑے بڑے ممالک کی امداد کرسکتے ہیں۔تاہم، دنیا کے ممتاز ترین تاجر کی طرح وہ اپنی دولت بہت سوچ سمجھ کر ہی مختلف منصوبوں پر لگاتے ہیں۔ مسک کو تجارت میں کام یابی اُن کی انٹرنیٹ کمپنی، پیپال سے حاصل ہونا شروع ہوئی، جس کا آغاز انہوں نے جنوبی افریقہ سے کیا تھا۔
بعد ازاں، وہ امریکا آگئے اور اس وقت نصف درجن سے زیادہ انٹرنیشنل کمپنیز کے مالک ہیں، جن میں اب ٹوئٹر بھی شامل ہے۔ ایلون مسک نے ٹوئٹر چوالیس بلین ڈالرز میں خریدا ہے۔ ویسے تو ایلون مسک نے ٹیسلا کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو کی حیثیت سے کاروباری دنیا میں اپنی پہچان بنائی، لیکن انہیں حقیقی عالمی شہرت امریکہ کے خلائی پروگرام(ناسا) میں حصہ لینے کے فیصلے کے بعد حاصل ہوئی۔ ناسا نے جب فیصلہ کیا کہ وہ نجی سرمایہ کاروں کو اپنے اسپیس پروگرام میں حصہ لینے کا موقع دے گا، تاکہ حکومت پر سے اس شعبے میں سرمایہ کاری کا بوجھ کم ہو سکے(یاد رہے،ناسا کے پروگرامز میں چاند پر دوبارہ اترنا اور مرّیخ پر انسان کو اتارنا شامل ہیں)، تو ایلون مسک نے اس پروگرام میں شامل ہوتے ہوئے ”اسپیس ٹیکسیز“ کا اعلان کیا۔ ان کے خلائی ادارے کا نام ”اسپیس ایکس“ہے۔
یاد رہے،ان خلائی ٹیکسیز میں لوگ کرایہ دے کر خلا کی سیر کرسکتے ہیں اور اس سلسلے میں پہلی ٹیکسی میں لوگ سیر کرکے آبھی چکے ہیں۔ درحقیقت مسک کا خواب تو یہ ہے کہ وہ ناسا کے ساتھ مل کر مریخ پر انسانی بستیاں بسائیں۔ ان کی الیکٹرک کار، ٹیسلا نے بھی انڈسٹری میں بڑی دھوم مچائی ہے۔باالفاظِ دیگر وہ کام یابی کی ایک پوری داستان ہیں اور اب تک اپنے سرمائے کو کئی گنا بڑھا چکے ہیں۔ اور اب ٹوئٹر کی خریداری، میڈیا، بالخصوص سوشل میڈیا میں ان کی ایک اہم پیش رفت ہے۔
ایلون مسک نے آتے ہی سب سے پہلا کام یہ کیا کہ تمام ایگزیکٹیو اسٹاف کو فارغ کردیا، جن میں پراگ اگروال بھی شامل ہیں۔ یاد رہے، پراگ کو ٹوئٹر کا دماغ کہا جاتا تھا۔ دوسری اہم تبدیلی یہ کی کہ اوقاتِ کار بڑھا دئیے، جس پر اسٹاف کے احتجاج کے بعد یہ نتیجہ نکلا کہ یا تو ملازمین خود ہی ٹوئٹر چھوڑ کر چلے گئے یا انہیں کمپنی نے نکال دیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اب دیکھنا یہ ہے کہ کمپنی کے اہم ملازمین کے بغیر ایلون مسک یہ کمپنی کیسے چلا پائیں گے یا ان ملازمین کا نعم البدل کیسے ڈھونڈ سکیں گے۔ لیکن ایک بات تو طے ہے کہ اب ٹوئٹر کا دماغ اور ہاتھ ایلون مسک ہی ہوں گے۔
ویسے بھی ٹوئٹر خریدنے سے قبل وہ تنقید کرتے رہے ہیں کہ اگروال اسے صحیح طریقے سے استعمال نہیں کررہے۔ ایلون مسک کا کہنا ہے کہ وہ ٹوئٹر کو آزاد دیکھنا چاہتے ہیں، لیکن یہاں اہم نکتہ یہ ہے کہ آزادی سے ان کی کیا مراد ہے، اظہارِ رائے کی آزادی یاوہ آزادی،جس میں صرف مسک کی حمایت میں بات کی جائے۔ اب یہ کہناتو مشکل ہے کہ ٹوئٹرایپلی کیشن میں وہ کس طرح کی تبدیلی لانا چاہتے ہیں، لیکن پرانے اسٹاف کو نکالنے سے یہ بات تو ظاہر ہے کہ ایلون مسک کا ویژن کچھ اور ہی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ٹوئٹر ان کے مطابق ہی فنکشن کرے۔
اس مقصد کے لیے انہوں نے کیسا اسٹاف خاص طور پر انجینئرنگ کے شعبے میں کن لوگوں کو نظر میں رکھا ہوا ہے یہ کہنا تو ابھی قبل از وقت ہوگا، لیکن ایسا بھی نہیں ہوسکتا کہ مسک جیسا جہاں دیدہ بزنس مین بنا کسی منصوبہ بندی کے کوئی کمپنی خرید لے۔ وہ یقینا یہ پہلے ہی طے کر چکے ہوں گے کہ انہیں ٹوئٹر سے کیا فوائد حاصل کرنے ہیں۔ مسک نے ایک موقع پر کہا تھا کہ وہ موجودہ تہذیبوں کو ایک مشترکہ ڈیجیٹل ٹاؤن اسکوائرفراہم کرنا چاہتے ہیں، یعنی وہ جگہ، جہاں ساری تہذیبیں ملتی ہوں، یعنی دنیاایک ٹاؤن اور ٹوئٹر اس کا چوراہا۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ زیادہ آزادی دینا چاہتے ہیں، لیکن اس کی حدود امریکہ کے قانون میں متعین ہیں کہ یہ لامحدود نہیں اور اگر کوئی ایسا قدم اٹھائے گا، جو قانون سے متصادم ہو،تو پھر اسے عدالتی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یاد رہے، ٹوئٹر کا ایک اپنا اسٹائل اور طریقہ کار رہا ہے،یعنی اس نے کمرشل میدان میں بہت کم قدم رکھا اور ایلون مسک کا بھی یہی کہنا ہے کہ فی الحال وہ اسی سسٹم کے تحت چلیں گے، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ شاید وہ اس پلیٹ فارم کو مزید وسعت دیں، جیسے چین کی ”وی چیٹ“ ایپ۔
اپنی نئی ایپ کو مسک ایکس کا نام دیتے ہیں۔ اس کو دیکھتے ہوئے ماہرین کہتے ہیں کہ یہ ایپ ایک سُپر ایپ طرز کی ہوگی، جس میں ایک ہی جگہ بہت سی سہولتیں میسّر ہوں گی۔ مثال کے طور پر پیغام رسانی، مالیاتی لین دین، فوڈ آرڈرز، شاپنگ وغیرہ وغیرہ۔ ٹوئٹر کے میڈیا میں شامل ہونے سے اصل تبدیلی پیغام رسانی میں آئی۔ ویسے اس کی ایجاد تو عام آدمی کی آواز دنیا تک پہنچانے کے لیے ہوئی تھی، لیکن اس کا سب سے زیادہ فائدہ سیاست دانوں اور بڑی شخصیات کو ہوا۔ دنیا کے کئی حکم رانوں اور سلیبریٹیز کے پانچ پانچ کروڑ سے زیادہ فالووَرز ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس سے ایک عام آدمی اور بڑی شخصیت کا تعلق براہِ راست ہوگیا ہے۔
عوام محسوس کرتے ہیں کہ ان کی پسندیدہ شخصیات براہِ راست ان سے مخاطب ہیں۔یہ سچ ہے کہ کسی سیاسی لیڈر کی ایک ٹویٹ عوام میں وہی جوش و جذبہ پیدا کر دیتی ہے، جو جلسہ عام کرتا ہے۔نیز، سب سے اہم بات یہ کہ ایک ٹویٹ پر مزید ٹوئیٹس کاسلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ اس طرح بات چاہے سچ ہو یا جھوٹ،جنگل کی آگ کی طرح پھیلنے لگتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب سیاسی جماعتوں اور اداروں نے باقاعدہ سوشل میڈیا ٹیمز بنالی ہیں، جو ہر واقعے پر نظر رکھتی اور ٹرینڈز چلاتی ہیں، تاکہ عوام ان کے حق میں بات کریں۔ ٹوئٹر ایک یوزر فرینڈلی پلیٹ فارم ہے، جہاں کوئی بھی اپنا اکاؤنٹ بناسکتا ہے۔ اسی لیے ٹوئٹر آج سوشل میڈیا کا سب سے وسیع پلیٹ فارم اور اہم ٹُول بھی ہے۔
جب ٹرمپ نے آخر میں جارحانہ رویّہ اختیار کیا، تو ٹوئٹر نے ان پر پابندی عائد کردی، جس کا اس وقت انہیں شدید نقصان ہوا کہ مین اسٹریم میڈیا تو پہلے ہی ان کے خلاف تھا۔ ہمارے مْلک میں بھی جو شخصیات سوشل میڈیا پر غیر معمولی انحصار کرتی ہیں، ان کے لییٹوئٹر کا ایلون مسک کے ہاتھوں میں چلے جانا تشویش کا باعث ہوگا۔ خاص طور پر تب، جب کہ یہ پلیٹ فارم امریکہ کا ہے۔ ہم بارہا اس امر کا اظہار کرچکے ہیں کہ یہ تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بہت رِسکی ثابت ہو سکتے ہیں کہ ان کا کوئی کوڈ آف کنڈکٹ نہیں۔یہ صرف اپنے مالکان کی پالیسیز پر چلتے ہیں۔
اسی لیے ٹوئٹر جیسے پلیٹ فارمز فوری اثر پذیر تو ہوسکتے ہیں، لیکن طویل عرصے تک ان پر انحصار کرنا، ان کے حساب سے سیاسی پالیسیز مرتب کرنا حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کے لیے کچھ زیادہ سود مند ثابت نہیں ہو سکتا۔ عرب اسپرنگ اس کی بہترین مثال ہے کہ کیسے چند ہی دنوں یا ہفتوں میں حکومتوں کے تختے الٹ گئے، بڑے بڑے حکم ران اپنے اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ انہیں اس طرح تخت سے اُتار دیا جائے گا، مگر بعد کی کہانی بڑی مایوس کن ہے، کیوں کہ سوشل میڈیا کے ذریعے آنے والا انقلاب دیر پا ثابت نہیں ہوا۔ حکومتیں اورحکم ران تو چلے گئے، لیکن عوام بھی رُل گئے۔ ملک کا استحکام بھی چلا گیا اور سوشل میڈیا کچھ کام بھی نہ آیا۔ ٹوئٹر پر پیغامات زیادہ تر ان نوجوانوں کی طرف سے پھیلتے رہے، جنہیں سیاست، گورنینس یا معیشت کا ذرا بھی تجربہ نہیں تھا کہ وہ تو بس اندھی تقلید میں لگے تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ایلون مسک ایسے انقلابات کی حوصلہ افزائی کریں گے یا دنیا کو مستحکم کرنے اور کسی ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش کریں گے، جن میں تہذیبوں کی مشترکہ بھلائی ہو۔
٭٭٭