شادی ایک کے ساتھ ، معاملہ دوسرے کے ساتھ

محمد مصطفی علی سروری
26؍ جنوری یومِ جمہوریہ کا دن تھا لیکن خانگی ملازمت کرنے والوں کو کسی دن بھی چھٹی نہیں رہتی۔ پرانے شہر حیدرآباد کا رہنے والا ایک نوجوان بھی حسب معمول کام پر گیا اور جمعرات کی شام جب وہ اپنے گھر واپس آگیا۔ گذشتہ کئی مہینوں سے اس کا یہی معمول تھا۔ دوست احباب اکثر اس کو چھیڑتے تھے کہ جب سے سمیر کی شادی ہوئی ہے وہ رات میں گھر سے باہر نہیں دکھائی دے رہا ہے۔ حسب معمول وہ 26؍ جنوری کو گھر واپس لوٹا۔ اس کی شادی ہوکر صرف 7 مہینے کا عرصہ ہوا تھا۔ گھر آنے کے بعد انہوں نے بیوی کے ساتھ کھانا کھایا اور پھر بیگم سے فرمائش کی کہ انہیں گرما گرم چائے چاہیے۔ سمیر کی دلہن نے تھوڑی ہی دیر میں ان کے لیے چائے بناکر دی۔ سمیر نے چائے پی اور ابھی وہ کچھ وقت بیدار رہنا چاہتا تھا لیکن کام کی تھکن تھی یا کیا وجہ کہ جلد ہی اسے نیند کا غلبہ ہونے لگا اور وہ جلد ہی سونے چلا گیا۔
اگلے دن حسب معمول اسے نیند سے بیدار کرنے کے لیے ان کی دلہن کے بجائے ان کی والدہ کھڑی تھی۔ وہ پریشان ہوکر اٹھ بیٹھا تو ماں نے سوال کردیا کہ تمہاری دلہن کہاں ہے۔ کہیں دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ سمیر نے چونک کر گھڑی دیکھی تو پتہ چلا کہ صبح کے 8 بجے تھے اور اس کی دلہن گھر میں کہیں بھی نہیں تھی۔ گھبرا کر سسرال کو فون کیا تو ساس سسرے نے بھی بتایا کہ ان کی بیٹی تو ان کے ہاں نہیں آئی۔
تھوڑی ہی دیر میں گھر والے اور سمیر کے ساس سسرے سب ایک جگہ جمع ہوگئے تھے۔ جاننے والوں کو فون کیا۔ خود دلہن کے فون نمبر پر بات کرنے کی کوشش کی لیکن نمبر بند تھا۔ سمیر کے ساس سسرے اپنی ہی بچی کو کوسنے لگے تھے اور جلد ہی سب لوگ مل کر پولیس اسٹیشن پہنچ گئے اور سمیر نے اپنی سات مہینوں کی دلہن کی گمشدگی کی باضابطہ شکایت درج کروائی کہ سونے کے زیورات اور شوہر کی نقد رقم اور کچھ سامان لے کر بغیر کسی کو بتلائے خاتون جو بمشکل 18 سے 20 سال کی ہے غائب ہے۔ پولیس نے ایف آئی آر درج کرنے کے بعد ضابطہ کی کاروائی شروع کردی۔
اگلے دن سمیر کو چہ گنٹہ پولیس (ضلع میدک) کی جانب سے فون کال آتا ہے۔ وہ فوری طور پر ان سے رجوع ہوں۔ سمیر جب شہر حیدرآباد سے 73 کیلومیٹر دور واقع پولیس اسٹیشن پہنچتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ سمیر کی بیوی نہ ہی کہیں گم ہوئی ہے اور نہ کسی نے اس کا اغواء کیا ہے بلکہ وہ اپنے ایک دوست کے ساتھ خوشی کے ساتھ رہ رہی ہے۔ ساتھ سمیر کی بیوی نے خود اپنے والدین اور شوہر کے خلاف چہ گنٹہ پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کروائی ہے کہ ان لوگوں کی جانب سے اس کی اور اس کے عاشق کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے۔
اس دوران سمیر کی دلہن کی جانب سے بنایا گیا ایک ویڈیو خوب وائرل ہوگیا۔ ویڈیو میں لڑکی کیا بیان دے رہی ہے آپ بھی جان لیجئے۔
سلام کرنے کے بعد لڑکی اپنا اور اپنے والد صاحب کا تعارف کرواتے ہوئے کہتی ہے کہ میرے ابا سات مہینے پہلے میری شادی کروائے تھے۔ وہ بندہ مجھے بالکل بھی پسند نہیں ہے۔ میں تو شادی سے پہلے ہی ایک لڑکے سے محبت کرتی تھی جس کا نام نوشاد ہے۔ میرے گھر والوں کو میں بولی کہ مجھے نوشاد سے شادی کرنا ہے تو میرے والدین میری بات کو قبول نہیں کرے اور مجھے جذباتی طور پر بلیک میل کر کے میری شادی اس بندے سے کروادیئے جو بندہ مجھے بالکل بھی پسند نہیں ہے۔ وہ ایک نمبر کا جاہل ہے تو میں طلاق کا انتظار کرنے لگی لیکن جب مجھے طلاق نہیں ملا تو میں اپنے شوہر کے گھر سے اس کو نیند کی گولی کھلائی اور پھر کسی کی زبردستی کے بغیر اپنی مرضی سے بھاگ کر نوشاد کے پاس آگئی ہوں۔ مجھے اب سے پروٹیکشن چاہیے۔ پولیس مجھے اور نوشاد کے علاوہ نوشاد کی فیملی کو میرے والد صاحب اور میرے شوہر سے جان کا خطرہ ہے۔ میں پولیس سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ مجھے اس تعلق سے مدد کرے۔‘‘
قارئین ذرا اس واقعہ پر غور کریں۔ امت مسلمہ کی شمع محمدیؐ کے پروانوں کو کیا ہوگیا ہے۔ یہ دراصل سماجی برائیوں کی وہ مثالیں ہیں جو سوشیل میڈیا کے ناتجربہ کار نام نہاد صحافیوں کے ذریعہ سے عوام میں پھیل رہی ہیں۔ بعض اخبارات یہ سونچ کر اس طرح کی خبروں کی اشاعت سے گریز کرتے ہیں کہ اس سے امت مسلمہ کی رسوائی ہوگی۔ حالانکہ تلگو، انگریزی اور یوٹیوب کے بے شمار ذرائعوں سے یہ خبریں جنگل میں آگ کی طرح پھیل رہی ہیں۔
مسلم سماج میں شادیوں کو ایک اہم مسئلہ بنادیا گیا ہے۔ ہر لڑکی کے سرپرست کی زبان پر بس یہی ذکر ہوتا ہے کہ ہماری بچی کی شادی ہونا ہے جہاں ہم نے یہ تو سکھادیا کہ مسلمانوں میں شادیاں نکاح کے ذریعہ ہی سر انجام پاتی ہیں تو ہم نے یہ کیوں نہیں بتلایا کہ نکاح میں اگر خدانخواستہ شوہر کے ساتھ نبھانا ممکن نہیں رہا تو علیحدگی کے راستے بھی موجود ہیں اور کوئی خاتون کسی کے نکاح میں رہتے ہوئے دوسرے مرد کے ساتھ نہیں جاسکتی ہے۔ دوسرے لڑکیوں کے رشتے طئے کرتے وقت ان کی مرضی بھی معلوم کرنا اور سب سے اہم بات جیسے بچی پیدا ہوتی ہی والدین اس کی ذمہ داری پر سونچنے لگتے ہیں۔ ویسے ہی لڑکا ہو یا لڑکی دونوں کی پیدائش پر والدین کو سب سے پہلے اس بات کی بھی منصوبہ بندی کرنا چاہئے کہ ہمارے بچے نے مسلمان گھرانے میں آنکھیں تو کھولی ہیں اب اس کی ایک مسلمان کی حیثیت سے تربیت ہماری سب سے پہلی اور سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔
آیئے اب میں آپ حضرات کی توجہ امت مسلمہ کی ایک اور اہم مسئلہ کی جانب مبذول کرواتا ہوں۔ قارئین ایک نہیں بلکہ ہر مسئلہ اہم ہے۔ ان کا تذکرہ کرنے کا مقصد آگاہی میں اضافہ کرنا ہے کہ اگر ہم مسلمان فکر نہیں کریں گے اور ہوش کے ناخن نہیں لیں گے تو آگے چل کر سارے مسلم معاشرہ کو کھوکھلا کر کے جلا کر راکھ کرسکتی ہے۔
پرانے شہر حیدرآباد کے علاقہ عیدی بازار سے جاریہ ہفتے ایک خبر موصول ہوئی۔ یوٹیوب چیانلس کے ذریعہ ملنے والی اس خبر کی تفصیلات کے مطابق عیدی بازار علاقہ میں 318 گز کی ایک جائیداد کو لے کر تنازعہ اٹھ کھڑا ہوگیا ہے۔ مادنا پیٹ پولیس اسٹیشن کے حدود میں ایک مسلم خاتون کی 318 گز جائیداد کو اس کے انتقال کے بعد خاتون کے چار بیٹوں اور ان کی دو بیٹیوں کے درمیان تقسیم کو لے کر جھگڑا اٹھ کھڑا ہوگیا۔ حالانکہ جس مسئلہ اور لڑائی کی وجہ سے یہ معاملہ مادنا پیٹ پولیس اسٹیشن پہنچا اس کا زاویہ الگ ہے لیکن اس جھگڑے میں جو تفصیلات میڈیا اور پولیس کو بتلائی گئی وہ سارے مسلمانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ جس وقت یہ معاملہ پولیس کے ہاں پہنچا تو تفصیلات سامنے آئیں ہیں وہ درد مند مسلمانوں کو رلادینے کے لیے کافی ہیں کہ خاتون کے انتقال کے بعد خاتون کے چھ بچے اپنی ماں کی 318 گز کی جائیداد کے لیے پولیس اسٹیشن سے لے کر سٹی سیول کورٹ، کریمنل کورٹ اور ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں اور آپس میں قانونی لڑائی میں مصروف ہیں اور ان بچوں کی جو تفصیلات یوٹیوب چیانلس کے ذریعہ ملی ہیں اس کے مطابق یہ لوگ ماشاء اللہ سے اتنے تعلیم یافتہ ہیں کہ تعلیمی ادارے چلا رہے ہیں اور بیرون ملک بھی برسر روزگار ہیں۔
کیا امت مسلمہ کے لیے یہ کوئی فخر کی بات ہے کہ اپنی ماں کی جائیداد حاصل کرنے کے لیے بھائی بھائی کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹارہا ہے۔ بہن بھائی کے خلاف عدالت سے رجوع ہو رہی ہے۔ بھائی بھائی کے خلاف پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر درج کروا رہا ہے اور ہم مسلمان اسے ایک گھر کا انفرادی مسئلہ کہہ کر اپنی آنکھیں موند بیٹھے ہیں۔
وہ قارئین جو شہر حیدرآباد سے باہر ہیں وہ مطمئن نہ رہیں کہ یہ حیدرآباد کی خبریں ہیں۔ میرے پاس حیدرآباد سے 16 سو کیلومیٹر دور مغربی بنگال کے ملار پور کورٹ گرام کی وہ خبر بھی موجود ہے جہاں پر شیخ معراج اور ان کے پڑوسی شیخ ابراہیم کے درمیان واٹر پائپ لائن کی تنصیب کو لے کر جھگڑا ہوگیا اور یہ جھگڑا کس قدر بڑا تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مغربی بنگال کے اخبارات نے اس جھگڑے کے متعلق تفصیلی خبر بھی شائع کی۔
اس جھگڑے کی سنگینی کا اندازہ قارئین اس بات سے لگائیں کہ واٹر پائپ لائن کو بچھانے کے مسئلے پر ہوئی اس لڑائی کے دوران دونوں مسلم فریقین نے ایک دوسرے کے خلاف بم پھینکے۔ جی ہاں قارئین آپ حضرات نے بالکل درست پڑھا۔ بم بھی اس لڑائی میں دو مسلمان پڑوسیوں نے ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیے جس کے دوران 5 لوگوں کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔
اخبارِ مشرق نے 18؍ جنوری 2023 کو اس حوالے سے خبر شائع کی اور سرخی لگائی کہ ’’پڑوسیوں کے مابین تنازعہ کے سبب علاقہ میں بم اندازی۔ 5 زخمی‘‘
میڈیا مسلم سماج کی اس منفی تصویر کو پیش کرتا ہے تو اس کا مقصد اصلاح ہے لیکن یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ اردو میڈیا اس طرح کی خبروں سے اگر آنکھیں موند لیں تو اس سے مسائل حل نہیں ہونے والے ہیں۔ بلکہ خدشہ ہے کہ آگ بجھائی نہ گئی تو یہ سب کو جلا کر راکھ بناسکتی ہے۔
فکر کیجئے گا اور اپنے گھر سے شروعات کیجیے گا۔ کم سے کم اپنے بچوں میں بنیادی دینی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیجئے گا۔ بچوں کی شادیوں اور روزگار کی فکر تو سبھی کرتے ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی دین کی فکر پہلے کریں اور ہاں شادی و نکاح کے لیے اللہ رب العزت جس طریقے سے نبی کریمﷺ کے ذریعہ رہنمائی فرمائی ہے ویسے ہی جائیداد کی تقسیم کا بہت ہی پیارا اصول بھی بنادیا ہے۔ جب یہ طئے ہے کہ ہم سب کو ایک دن اللہ کے دربار روزِ محشر حاضر ہونا ہے تو والدین اور سرپرستوں کو چاہیے کہ وہ اپنی جائیداد و مال کے متعلق بھی باضابطہ طور پر شریعت کی روشنی میں وصیت کردیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سبھی کو دین اسلام میں پورے کا پورا داخل کردے۔ صرف نام سے ہی نہیں ہمارے کردار سے بھی ہمیں اپنے نبیؐ کا سچا امتی بنادے۔ (آمین یا رب العالمین)
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)۔sarwari829@yahoo.com
۰۰۰٭٭٭۰۰۰