مضامین

اسرائیل کے اصل اہداف۔۔اورا نجام

رشید پروین

یہود ی مذہبی اوربنیاد پرست شاس پارٹی کے رہنما کے ساتھ یہ بیان منسوب ہے جو اس نے ۵اگست ۲۰۰۰ کو اپنے ایک خطبے میں دیاتھا:
”اسماعیلی تمام لعنت زدہ ہیں اور گنہگار ہیں،خدائے واحد اور اس کی عظمت میں اضافہ ہو، وہ اسماعیلیوں کو تخلیق کرکے پچھتارہا ہے“(نقل کفر۔ کفر نہ باشد)۔
اسی اخباری اطلاع میں عواد یا یوسف کوبراک حکومت کا مذاق اڑاتے ہوئے پوچھتا ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ کسی معاہدے کی کیا ضرورت ہے؟وہ وزیر اعظم براک کو مخاطب کرکے کہتا ہے کہ (براک تم ان سانپوں کو ہمارے دوش بدوش کیوں لانا چاہتے ہو، تمہیں ذرا بھی عقل نہیں) اور یروشلم پوسٹ ۵ اگست ۲۰۰۰ کی اطلاع کے مطابق مجمع نے تالیوں کی گونج سے ان ریمارکس کو سراہا۔
یہ چند جملے اہل یہود کی سوچ و فکر اور یرو شلم سے متعلق ان کے نقطہ نگاہ کی وضاحت کے لیے کافی ہونے چاہیے، لیکن اس بات کو ہمیں مدِ نظر رکھنا لازمی ہوگا کہ صلیبی جنگیں اور یروشلم کو حاصل کرنے کی تڑپ عرب یہود کی اتنی شدید نہیں رہی ہے جتنی کہ یوروپی صیہونیوں نے ظاہر کی ہے اور تاریخ اس بات کی بھی گواہ ہے کہ حضر ت عمر ؓ نے یروشلم کو۶۴۵؁ء میں فتح کیا تو ایک قطرہ لہو بھی نہیں بہا۔
دوسری بار ایوبی ؔ نے۱۱۸۷ ؁ء یروشلم کو فتح کیا تو اعلان ہوا کہ آج سب کے لئے امان ہے لیکن جب صلیبیوں نے ۱۰۹۹ ؁ء میں یروشلم فتح کیا تو تاریخ کے ان ابواب سے اب تک لہو ٹپک رہا ہے اور حد یہ کہ بیت المقدس میں پناہ لیے ہوئے ۷۰ ہزار سے زیادہ مسلم بچے بوڑھے، جوان اور عورتوں میں سے کوئی زندہ نہیں بچا ۔ تاریخ گواہ ہے کہ صلیبی جنگوں میں اکثریت یوروپی صیہونیوں کی شامل رہی ہے۔ ریاست اسرائیل کا وجود یورپین یہودیوں نے توریت کی اُن آیات کو بنایا ہوا ہے جن میں ارض مقدس ان کو عطا کیے جانے کا وعدہ کیا گیا تھا اور یہاں سب سے پہلے حضرت داؤد علیہ السلام نے سلطنت قائم کی تھی۔
ڈیوڈ بن گورین، پہلے اسرائیلی وزیر اعظم نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ عہد نامہ عتیق ہماری سر زمین اسرائیل کی ملکیت کی دستاویز ہے۔ یروشلم جو مسلمانوں کا ایک مقدس شہر ہے، یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے بھی محترم شہر ہے اور یہ شہر وقت یا تاریخ کے اختتام کے سلسلے میں بہت ہی کلیدی اور اہم کردار ادا کرنے جارہا ہے۔
اسلام، یہودیت اور عیسائیت اس ایک نقطے پر متفق ہے،آج تاریخ کا آخری دور ہے اور یہ دور کب تک چلنے والا ہے یہ رب کائنات کے بغیر کوئی نہیں جانتا لیکن آثار و قرائن سے صاف ظاہر ہے کہ بہت سارا زمانہ باقی نہیں رہا ہے بلکہ وقت بڑی تیزی سے اپنے اختتام کی طرف گامزن ہے۔
یروشلم متضاد دعوؤں کا مرکز ہے اور ہر فریق کا دعویٰ ہے کہ وہی درست اور صحیح ہے۔ یہود سمجھتے ہیں کہ مسیحا آئیں گے۔ یروشلم ان کی سلطنت کا پایہ تخت ہوگا ، عیسائی دعویٰ ہے کہ جب عیسیٰ علیہ السلام آئیں گے تو یروشلم کو مرکز بنا کر وہ ساری دنیا پر حکو مت کریں گے اور اس طرح سے ان کے اعتقادات، تثلیث، حلول اور صلیب وغیرہ کی تصدیق کریں گے۔
مسلمان یقین رکھتے ہیں کہ ازل سے ہے ہی یرو شلم دین حق اوراسلام کو صحیح اور درست ثابت کردے گا کیوں کہ یروشلم ہی اصل میں کسوٹی ہے جہاں سے نبی آخر الزماں ﷺ کی حقانیت سارے زمانے پر آشکارا ہوگی۔اس کا اشارہ پہلے ہی معراج کی رات میں موجود ہے جہاں نبی برحقﷺ نے تمام پیغمبروں کی امامت فرمائی۔
حضرت عیسیٰ بہر حال حدیث مبارک کی روشنی میں امت محمدی بن کر آئیں گے، نہ کہ بحیثیت کسی نئے پیغمبر کے، اور اس میں مسلمانوں کی دو رائیں نہیں کہ یہ وہی عیسیٰ علیہ السلام ہیں، جن کے بارے میں یہودیوں نے فخر کے ساتھ کہا کہ انہیں صلیب دی ہے اور جس مسیحا کو انہوں نے صلیب دی ہے وہ مسیحا نہیں ہوسکتااور اس نے یروشلم میں حکومت بھی نہیں کی، اس لیے یہود کو اس کا انتظار ہے اور(اسی لیے وہ اُ س عیسیٰ کو نبی تسلیم نہیں کرتے) تاکہ وہ آکر اہل یہود کی مدد کرکے ساری دنیا پر یہود کی حکمرانی کا آغاز کرسکے اور یہود کا یہ بھی اعتقاد ہے کہ جب تک ہیکل سلیمانی تعمیر نہیں ہوتا تب تک مسیحا نہیں آئیں گے۔
اب جیسا کہ حالات سے ظاہر ہے کہ یہود نے اپنا ایک ورلڈ آرڈر تخلیق کیا ہوا ہے جس کے دائرے میں ساری دنیا کی سیاست اس وقت ان کے منشا اور مرضی کے مطابق گھوم رہی ہے اور اہل دانش،یروشلم اور اسلام پر نظر رکھنے والے اس بات کے قائل ہیں کہ اہل یہود امریکہ کو ایک ٹویلٹ پیپر کی طرح پھینک دیں گے جب ان کے مطابق انہیں کسی دوسرے سہارے اور امداد کی ضرورت نہیں رہے گی۔ حالات بتا رہے ہیں کہ اہل یہود بہت زیادہ انتظار نہیں کرسکتے، اس لیے فی لفور اقدامات کرکے ہیکل سلیمانی کی تعمیر میں مزید کوئی تاخیر کرنے کے روا دار نہیں،تاکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تشریف آوری کے لیے اسٹیج سیٹ کیا جائے اور بن گورین کا یہ بیان اس جملے کا عکس ہے:
”مسیحااسرائیل میں ایک حکومت قائم کرے گا جو تمام دنیا کی حکومتوں کا مرکز ہوگی اور تمام غیر یہودی اقوام اس کے ماتحت اور غلام ہوں گے“ (ایسیاہ۔۲۔ ۱۲)
اب اس بیان کو یروشلم میں امریکی سفارتخانہ کی منتقلی کی افتتاحی تقریب پر ٹرمپ کے سفیر پادری جان ہیکی کے بیان کے ساتھ ملاکر دیکھیے:
”اب ہمیں اس سر زمین میں مسیحا کے نزول کی بات کرنی چاہیے۔ میں آپ سے جھوٹ نہیں بولتا کہ دنیا کے سب سے طاقتور ملک امریکہ کی خارجہ پالیسی اسی ”بشارت“ سے اخذ کی جاتی ہے۔“
یہ بتانے کی کوئی ضرورت نہیں کہ کئی سابق امریکی صدور نے کھل کرعراق، ایران،افغانستان اور شام کی جنگوں اور ان ممالک کی تباہی کو صلیبی جنگوں سے تعبیر کیا ہے۔ اس لیے خوابوں کی دنیا میں رہنے سے بہتر یہ تھا کہ عرب ممالک اور عالم اسلام یہ بات سمجھ لیتا کہ گریٹر اسرائیل اور ہیکل سلیمانی کی تعمیر میں صہیونی کسی بھی طرح کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ معاہدات اور کبھی کبھی بہ ظاہر امن و اماں کے دکھاوے بھی اسی منصوبے کا جز لائینفک ہیں ۔
حضرت عیسیٰ دنیا میں آکر حدیث مبار ک کے مطابق صلیب توڑ دیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے،اور جزیہ کا خاتمہ کریں گے،(،صحیح بخاری)اس کے ساتھ ہی اس حدیث مبارک سے یہ پتہ چلتا ہے یا اندازہ ہوسکتا ہے کہ حضرت عیسیٰ کب اتریں گے۔احادیث کے مطابق یہ وہ دن ہوگا جب بحر گلیلی کا پانی تقریباً یا مکمل طور پر ختم ہو جائے گا۔
اہل یہود کو قرآن کریم کی رو سے اب تک دو بار دین ابراہیمی سے انحراف کی صور ت میں سزا کے طور پر یروشلم سے نکالا گیا ہے۔ ایک اس وقت جب ۵۸۷ برس قبل مسیح جب بیبلون کی ایک فوج جس کی قیادت بخت نصر کر رہے تھے، نے یرو شلم کا محاصرہ کیا، شہر جلا ڈالا، شہریوں کو ہلاک کیا، اور ہیکل سلیمانی کو مسمار کردیا، آبادی کے بہت بڑے حصے کو غلام بنا کر بیبلون لیا گیا۔یہ سزا انہیں محض اس لیے دی گئی تھی کہ انہوں نے توریت میں تحریف کرکے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کر دیا تھا۔
وسری مرتبہ انہوں نے اپنے انبیاء کو قتل کردیا،حضرت زکریا کو مسجد کے اندر بے دردی سے قتل کیا اور ان کے بیٹے یحییٰ کو بھی دھوکے سے قتل کیا۔ حضرت عیسیٰ نے صریح طور اس سنگین جرم کی مذمت کی، جضرت عیسیٰ جیسے جلیل القدر پیمبر کی نا فرمانی کی اور ان کے قتل کی کوشش بھی کی۔ ایک رومن فوج نے جنرل ٹائیٹس کی سر کردگی میں انہیں دوسری بار سزا دی، شہر تباہ کردیا شہری آبادی کو قتل کیا ۔ سورہ بنی اسرائیل (۴ تا ۱۷) میں اس کی پوری تفصیل دی گئی ہے ”لیکن اگر تم نے اپنی شرائط و وراثت پامال کیں اور اپنی حرکت دہرائی تو ہم اپنی سزا کو دہرائیں گے (بنی اسرائیل ۸)۔
یروشلم کی تقدیر اس آیت کریمہ میں صاف اور واضح بیان کردی گئی ہے، اور آج کی جو استحصالی، ظالم و جابر اسرائیلی حکومت وہاں قائم ہے وہ کسی طرح سے اللہ کے احکامات کی نہ تو پابند ہے اور نہ ابراہیمی دین پر قائم ہے بلکہ ایک ایسی ریاست ہے جس کا وجود ہی سودی معاشیات پر استوار ہے،ظلم وجبر پر استوار ہے، بے گناہوں اور معصوموں کے لہو سے رنگین اور منقش ہے۔
یہودی علماء کا ارض مقدس سے ایک مذہبی و جذباتی وابستگی کا دعویٰ ہے جو کہ ہیکل سلیمانی سے محبت کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں جب تک وہ فلسطین پر قبضہ نہیں جماتے اسرائیلی ریاست قائم نہیں ہوگی، لیکن یوروپی صیہونیوں کی دلچسپی الگ نوعیت کی ہے۔ وہ خدا بیزار اور مذہب بیزار معا شروں کو تشکیل دے چکے ہیں اور اپنی علمی اور منطقی چادروں سے الحاد اور کفر کو حقیقت اور اصلیت کا روپ دے چکے ہیں۔
آج کا یروشلم ابراہیمی دین پر استوار معاشرہ ان کے کسی بھی تصور سے میل نہیں کھاتا اور ہمارے مسلم معاشرے بھی اس دین کی بنیادوں پر استوار نہیں سوائے اس کے کہ یوروپی اس پردے میں پیٹرول پر قابض ہونا چاہتے ہیں۔ ”کالے سونے“ کی جنگ ہی آخری جنگ ہوگی اور اس پر قبضے کی کوشش میں تمام اقوام فنا ہوں گی۔
اہل یہود کا نبی برحق ﷺپر ایمان نہ لانے کی دوسری وجوہات تھیں ،جب آخری رسول ﷺ دنیا میں تشریف لائے تو علماء یہود پر زوال طاری تھا، چونکہ آپ ﷺ ان میں سے نہیں تھے اس لیے یہود نے آپ ﷺ کوآخری پیغمبر ماننے سے انکار کیا اگر چہ ان کے عالم اور اہل کتاب آپﷺ کو پہچان چکے تھے،جب آپ ﷺ مدینہ تشریف لے گئے تو ربیوں پر یہ واضح ہوتا گیا کہ آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں کیوں کہ آپ روزہ رکھتے تھے، بیت المقدس کی طرف ہی نماز ادا کرتے تھے،اور اس طرح ظاہر تھا کہ آپ ﷺ دین ابراہیمی پر ہی قائم ہیں،لیکن ۱۷ مہینوں کے بعد حکم دیا گیا کہ مومن اپنا رخ یر و شلم سے پھیر کر کعبہ کی طرف کریں۔
”بلا شبہ انسانوں میں ابراہیم کے قریب وہ ہیں جنہوں نے ان کی پیروی کی اور وہ جنہوں نے اس نبی (محمد)ﷺ کی پیروی کی اور ایمان لائے،اللہ ان مومنوں کا دوست ہے۔“ (قرآن آل عمران ۶۸)
اس بات کا اللہ کی طرف سے واضح اعلان تھا کہ یہ قوم کبھی راست روی اختیار کرنے کی طرف گامزن نہیں ہوگی اور اپنی انا اور خود پسندی کے خول میں پہلے بھی ہزاروں برس مقید رہی ہے اور اب آخری دن تک اسی بھرم میں مبتلا رہے گی کہ وہ اللہ کی برگذیدہ اور معتبر قوم ہے، چاہے ان کے اعمال اور طرز معاشرت دین ابراہیمی کے مخالف اور متضاد ہی کیوں نہ ہو۔
ان تمام باتوں سے یہ نتیجہ اخذ ہوجاتا ہے کہ اللہ نے ان کے قلوب، دل و دماغ پر مہر ثبت کی ہے، اور ان کی دیکھا دیکھی ان مسلم ممالک کی بصیرت اور بصارت بھی مقفل ہوچکی ہے تاکہ وہ بھی اس معتوب اور خود سر قوم کے ساتھ ہی اپنے انجام کو پہنچیں جو احادیث میں ان کے لیے پہلے ہی سے واضح ہے ۔
٭٭٭