طنز و مزاحمضامین

”بھارت۔ایک کھوج“

ایم اے حفیظ کوڑنگلی

”کھوج“……فطرت ِ انسانی کا اہم عنصر ہے۔ ملک ملک کی،جماعت جماعت کی،آدمی آدمی کی حتیٰ کہ بھائی بھائی کی،شوہر بیوی کی کھوج میں لگا ہوا ہے……آج ہرطرف کھوج ہی کھوج ہے……
کھوج کے معاملے میں خواتین مردوں سے بہت آگے نکل گئی ہیں۔ کسی تقریب میں کوئی خاتون اگرسونے کے قیمتی زیورات سے مزین نظرآئی تو ماہی بے آب کی طرح بے چین وبے قرار ہوکر اس کی اہمیت جاننے کی کوشش کرتی ہیں۔ باربار بازو سے دانستہ گزرتے ہوئے ان زیورات پراُچٹی نظر ڈالتی ہیں۔ دل تو چاہتا ہے کہ وہ نقلی نکلیں اگر یہ معلوم ہوجائے کہ وہ اصلی ہیں تو طبیعت ناساز ہوجاتی ہے۔
کبھی کبھی یہ زیادہ کھوج مہنگی پڑجاتی ہے۔شکی بیوی نے اپنے شوہر کو فون پر پوچھا۔ ”کہاں ہیں کیا کررہے ہیں؟ شوہر نے کہا ”بینک میں ہوں۔“ اچھا بینک سے مجھے شاپنگ کے لیے 15ہزار روپئے اور موبائیل کے لیے 25ہزار چاہیے۔ لیتے آنا۔ شوہر جھنجھلا کر غصہ میں چیخا۔ ”ہسپتال کے بلڈ بینک میں ہوں، کیا تم خون بھی پیوگی خون؟
بعض لوگ اپنے پڑوسی محلہ والوں کی کھوج میں سرگرداں رہتے ہیں۔ خود سے زیادہ اُن کوغیروں کی فکر ہوتی ہے۔ایک کمسن بچے نے ماں سے کہا۔ ”ممی!اگر کوئی شخص سیڑھی لگا کر بازووالوں کے صحن میں جھانک رہا ہو تواُسے کیا کرنا چاہیے۔ماں نے غصہ میں کہا۔ ”بیٹا بہت بری بات ہے۔ اگرکوئی ایسا کرے تو فوراً سیڑھی کھینچ لینی چاہیے۔ بچے نے معصومیت سے جواب دیا۔ ممی میں نے بالکل ایسا ہی کیا ہے۔ ابو نیچے گرکر زخموں سے کراہ رہے ہیں۔ جاکر انہیں اُٹھالیں۔“ ہم تو کہتے ہیں کہ اس طرح لوگوں کے گھر میں جھانکنے سے بہتر ہے اپنی گربیان میں جھانک لیں! اس بہانہ اپنی اصلاح ہوجائے گی اورجھانکنے کا شوق بھی پورا ہوجائے گا ……
ایک سائنس دان اس بات کی کھوج میں تھا کہ لوگ شادی کیوں کرتے ہیں اورشادی کیا ہوتی ہے۔ انہوں نے شادی کرلی اب وہ یہ سمجھ نہیں پارہے ہیں کہ سائنس کیا ہوتی ہے؟
کچھ سالوں سے ہمارے ملک ہندوستان جنت نشان میں ایک مخصوص طبقہ کے خلاف کھوج کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا ہے۔ سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہندوستان میں ہندوستانی کون کون ہیں۔ یہ دیش بھگتی ایک خطرناک وبا کی شکل میں ملک کے چپہ چپہ تک پھیل چکی ہے۔ ایک وقت آئے گا اپنی حبّ الوطنی ثابت کرنے کے لیے لوگوں کو ہاتھ میں جھنڈا لیے دیش بھگتی کے گیت گاتے ہوئے ’بھارت ماتا کی جئے‘ کے فلک شگاف نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پرگھومنا پڑے گا……
ہڑپہ اور موہن جوداڑو کے کھنڈرات کی کھدائی کی گئی تاکہ ماضی کی تہذیب تمدن، رہن سہن،ترقی وغیرہ سے آگاہی ہوسکے لیکن آج کل ……مسجدوں کی کھدائی کی وجہ معلوم نہ ہوسکی……غلط سوچ غلط کھوج کی طرف لے جاتی ہے……
بھارت کی کھوج میں عجیب وغریب حیرتناک انکشافات بھی سامنے آئے ہیں۔ جیسے دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پلاسٹک سرجری ہزاروں سال پہلے ہندوستان میں ہوئی تھی۔ گاندھی جی نے آزادی کے لیے کوئی کوشش نہیں کی۔ انگریزوں کو مجبوری کی وجہ سے آزادی کوان کے دامن میں ڈال دینا پڑا۔ گوڈسے سچے دیش بھگت تھے جنہوں نے دیش کے لیے اپنی جان قربان کردی۔ ساورکر بلبل پر بیٹھ کر جیل سے باہر جاتے اور آتے تھے۔نظام حیدرآباد اور ٹیپو سلطان انتہائی ظالم سفاک حکمراں تھے، جنہوں نے غیرمسلموں پربے انتہا مظالم ڈھائے……سکندرکی فوج نے پوری دنیا کو فتح کرلیاتھا، لیکن بہار میں آکر شکست سے دوچار ہوئی……
اگر کھوج کا منشاء مثبت ہو،اس کے نتائج بھی مفید اورکارآمد ہوتے ہیں۔ جیسے نیوٹن نے ایک معمولی واقعہ پراتنی کھوج کی کہ اس سے کئی ایجادات انکشافات ظہور پذیر ہوئے۔ اگر نیوٹن ہمارے ملک میں ہوتا تو وہ گرا ہوا سیب تو کھاتا ہی اوردوچار توڑکر اپنے گھر والوں کو لے جاتا اوردوسرے دن اپنے دوست احباب کو لاکر پورے باغ کے سیب تڑوا کر فروٹ مارکٹ میں بیچ دیتا۔ گوتم بدھ نے سکون کی کھوج میں تخت وتاج، اہل وعیال، آرام وآرائش قربان کرکے جنگل میں پناہ لی اور راہ نجات سے ہمکنار ہوئے۔ اگرآج ان کی جگہ کوئی ہندوستانی لیڈر ہوتا تو جنگل سے ساگوان وصندل کی لکڑیاں اسمگل کرکے بے شمار دولت کمالیتا ……
کبھی کبھی سمجھدار و تعلیم یافتہ لوگ بھی اس ”کھوج“ کی چکر میں پاگل پن کی حد تک پہنچ جاتے ہیں۔ ایک پاگل خانے کے ڈاکٹر کوایک مریض سے کافی ہمدردی تھی، وہ اُن حالات واقعات کوجاننا چاہتا تھا جواس کے پاگل پن کے ذمہ دار ہیں۔ اس نے پاگل کو اپنے کلینک میں بلایا اوروجہ دریافت کی۔ پاگل گویا ہوا ”ڈاکٹر صاحب! میں نے ایک یتیم لڑکی سے شادی کی۔ میرے باپ نے جن کی بیوی (میری ماں)مرچکی تھی، اس لڑکی کی بیوہ سوتیلی ماں سے شادی کرلی۔ اب میرا باپ میرا خسر اورساس میری ماں بن گئی اور میری بیوی میری بہن بن گئی۔ اُن کو لڑکی پیدا ہوئی۔ اب یہ لڑکی میری بہن اورسالی بن گئی اور میری بیوی کی نند اوربہن بن گئی۔اب مجھے بھی لڑکا تولد ہوا، یہ لڑکا میرے والدکا پوترا بھی ہے نواسہ بھی اوریہ لڑکا“……ڈاکٹر اپنے بال نوچتے ہوئے چلایا۔ بس کرو یہ کہانی۔ اسے میری نظروں سے دور کرو،وہ پاگل ہے ہی مجھے بھی پاگل بنادے گا……
ماضی کے حالات کوتوڑمروڑ کر ایک خاص طبقہ کے خلاف کوئی تاریخ بنائی جائے گی تو اس سے اندیشہ ہے کہ ملک کا جغرافیہ متاثر ہوجائے۔کھوجیوں کا حال یوں ہے:
”تمہاری کھوج میں نکلا ہوا ہوں …… اب اپنے آپ کو خود ڈھونڈتاہوں۔“