شہاب مرزا
بھارت بڑے بڑے گڑھوں کا ملک ہے جن میں اس ملک کا عدل و انصاف ملک کے کسی بھی گڑھے میں کسی بھی وقت کوئی بھی دفن کر سکتا ہے لیکن کفن ہونا ایسوں کے لیے ممکن ہے جنہیں دیکھ کر چلتی پھرتی لاش محسوس کیا جاتا ہے اور دفن کرنے والے کے ہاتھ میں ٹیکاس ہونا ضروری ہے۔ غرض کہ حالت بھی کچھ ایسی ہے کہ جہاں کے عوام کو یہ بھی نہیں معلوم کہ مسائل کیا ہیں؟ ان کا حل کیا ہے؟ اور اس کا حل کس کے پاس ہے؟ اور کون ہے جو اس ملک میں عدل و انصاف امن و سکون قائم کرنے کا کوئی تیر بہدف نسخہ دکھا کر حکیم لقمان کہلائے شائد اس ملک کا حل حکیم لقمان کے پاس بھی نہ ہو۔ دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیز جن میں یہ گرما گرم بحث کا موضوع بنا ہوا ہے کہ بھارت ملک کو آخر ہوا کیا ہے؟ کیا اس میں انسان بستے ہیں اور وہ خود اپنے آپ گڑھوں میں گر کر کیوں دفن ہونا چاہتے ہیں؟
ہمارے اس ملک میں 2014 کے بعد اس قدر طوفان انگیز، قیامت خیز تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں کہ دنیا کی تاریخ میں شائد نہیں دیکھی۔ ہر مظلوم کو مجرم کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ہے اور تختہ دار پر لٹکا دیا جاتا ہے جبکہ ہر ظالم تخت و تاج پر فائز ہوتا ہے۔ مودی شاہی کے اس دور کو دیکھ کر فرعون بھی مضحکہ خیز انداز میں مسکرا کر کہنے لگے کہ پروردگار عالم تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے جو تونے ہمیں ایسے بیوقوفوں پر اجارہ داری عطا نہیں کی کہ جو اپنے ہاتھوں سے گڑھوں میں دفن ہونا چاہتے ہیں بلکہ تو نے موسیٰ و ابراہیم جیسے جانبازوں کے دور میں پیدا کیا ورنہ مودی شاہی کے دور میں پیدا ہوتے تو فرعونیت چھوڑ کر خود کشی کر لیتے اس ملک میں قلم عاجز ہے کہ آخر اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ آخر مسئلہ کیا ہے؟اس ملک میں ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والوں کی کوئی حمایت نہیں کرتا اور مظلوم کی مظلومیت کا استعمال سیاست کے دلالوں کے ذریعہ اپنی سیاست چمکانے کے لیے کیا جاتا ہے یا اخباروں کی گرما گرم سرخیاں بٹورنے کے لیے میڈیا مافیا استعمال کرتے ہیں۔
ہندوستانی تاریخ کے گزشتہ 70 سال کا مطالعہ کریں تو کئی ایسے واقعات ہیں جس نے ہندوستان کی تہذیب، تمدن اور بھائی چارے کو نقصان پہنچایا ہے۔ اگر بات گاندھی پریوار کی کریں تو نتھورام گوڈسے نے مہاتما گاندھی کا قتل کیا تھا، اندرا گاندھی کا قتل ان کے باڈی گارڈ نے کیا تھا، راجیو گاندھی کا قتل ایک تمل خاتون کے خودکش حملے میں ہوا تھا یا پھر 500 سال قدیم بابری کا انہدام ہو جو آر ایس ایس، وشواہندو پریشد کے ہاتھوں انجام پایا تھا، چاہے پھر 1984 کے سکھ مخالف فسادات ہوں جس میں سینکڑوں سکھوں کا قتل عام ہوا تھا، یا پھر 2002 کا گجرات قتل عام جو مبینہ طور پر وشواہندو پریشد، آر ایس ایس، اور دیگر تنظیموں کے ہاتھوں فوجی انداز میں ہندو ہردئے سمراٹ کی سربراہی میں ہوا تھا۔
چونکہ برسراقتدار چند مٹھی بھر لوگوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آئی ہے کہ ظلم کرنا ہی ملک میں اقتدار حاصل کرنے کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ ایک ہزار سال قبل البیرونی نے کہا تھا "اس ملک میں تبدیلی ممکن نہیں ہے کہ یہاں کے لوگ روٹی سے روٹی کھاتے ہیں دودھ پھینکتے ہیں اور پیشاب پیتے ہیں” اس پر سلطان محمود غزنوی نے پوچھا کہ ایسا کیوں؟ تو جواب میں انہوں نے کہا کہ بھارت ملک میں غلاموں میں ظلم کے خلاف انتقام کا کوئی جذبہ نہیں ہے۔ یہاں کے غلام، غلامی کی بیڑیوں کے بجائے نفرت کرنے کی عقیدت رکھتے ہیں۔ یہاں پر ظالم نفرت کی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا بلکہ اس کی پوجا کی جاتی ہے اور اسے خوش کرنے کی خاطر اس کے قدموں میں معصوموں کی بلی چڑھائی جاتی ہے۔ بی جے پی حکومت کے ساڑھے آٹھ سال گزر جانے کے بعد کانگریس کے سپریم لیڈر راہول گاندھی کنیا کماری سے کشمیر تک بھارت جوڑو یاترا کر رہے ہیں – 5 ماہ چلنے والی یہ یاترا 12 ریاستوں سے گزرے گی۔
یاترا میں راہول گاندھی خود بی جے پی کی مودی سرکار کی فرقہ وارانہ، تفرقہ انگیز اور غیر منصفانہ پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے اسے نظریاتی جنگ قرار دے رہے ہیں، راہول گاندھی نے میسور میں کہا تھا "جس طرح گاندھی جی نے برطانوی راج کے خلاف جنگ لڑی تھی، آج ہم اس نظریے سے لڑ رہے ہیں جس نے گاندھی جی کو مارا تھا۔ پچھلے 8 سالوں میں اس نظریے کا نتیجہ یہ رہا ہے کہ سخت جدوجہد سے حاصل کی گئی آزادی کی عدم مساوات، تقسیم آج ملک میں پھیل چکی ہے۔ ، ”ہمارے 42 فیصد نوجوان بے روزگار ہیں۔ اگر وہ غیر محفوظ ہیں تو ہندوستان کا مستقبل کیسے محفوظ ہے؟ اس سے پہلے بھی اپنی تقریروں میں، راہول گاندھی نے موجودہ مودی حکومت کو اڈانی-امبانی کی حکومت یا سوٹ بوٹ کی حکومت کہا، اور بھارت جوڑو یاترا ہر ناانصافی کے خلاف ہے۔ ہندوستان بادشاہ کے اس ‘دو ہندوستان’ کو قبول نہیں کرے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ”بی جے پی-آر ایس ایس اس ندی (جنتا) کو تقسیم کرنا چاہتی ہے۔ وہ عوام کو آپس میں لڑانا چاہتے ہیں۔ وہ ایسا دریا چاہتے ہیں جس میں کوئی گرے اور کوئی نہ نکالے، سب اکیلے رہ جائیں۔ وہ تقسیم اور نفرت پھیلا کر ملک پر حکومت کرنا چاہتے ہیں۔
مودی سرکار کے کردار کے بارے میں راہول گاندھی کے مذکورہ بالا بیانات یقینا درست ہیں۔ مودی سرکار کی ہندوستانی عوام کو مذہب، ذات پات، زبان، علاقہ، قومیت وغیرہ کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی پالیسیاں، ان میں موجود باہمی تعصبات کو کم کرنے کی بجائے انہیں مزید گہرا زہر آلود بنانے، عوام میں باہمی انتشار پیدا کرنے، ان کے مفادات کو تباہ کرنے کا باعث بن رہی ہیں۔ اور یہ مکمل طور پر اتحاد ختم کرنے کی پالیسیاں ہیں۔ ان کا مقصد معاشرے میں ناانصافی کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز، حکمران طبقے کے مفادات کے خلاف اٹھنے والی ہر اختلافی آواز کو کچلنا ہے۔ جب معاشرے میں باہمی دشمنی کی زہریلی فضا چھائی ہو گی تو کوئی بھی ان آوازوں کے ساتھ کھڑا نہیں ہو گا اور حکام کے لیے انہیں ملک دشمن، مذہب دشمن وغیرہ کہہ کر خاموش کرنا بہت آسان ہو گا۔ راہول گاندھی اس لحاظ سے درست کہتے ہیں کہ بی جے پی حکومت مختلف طریقوں سے عوام کے درمیان باہمی دشمنی اور نفرت کی صورتحال پیدا کر رہی ہے اور اس کے بہانے عوام کی ‘آزادیوں’ یعنی جمہوری حقوق کو ختم کر رہی ہے۔
راہول گاندھی کا یہ بیان بھی درست ہے کہ آج ‘دو ہندوستان’ ہیں۔ درحقیقت سرمایہ داروں اور محنت کشوں کے دو ہندوستان ہیں اور دونوں کے درمیان شدید کشمکش ہے۔ اس کشمکش کی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ داروں اور محنت کش طبقے کے مفادات آپس میں متصادم ہیں۔ سرمایہ داروں کے لیے منافع کا واحد ذریعہ محنت کشوں کی محنت کا استحصال ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سرمایہ دار، خاص طور پر سب سے بڑے اجارہ دار کارپوریٹ سرمایہ دار، تمام چھوٹے مالکان اور مزدوروں کو تباہ کرنا چاہتے ہیں اور ان کی جائیدادوں پر بھی قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت ان سرمایہ داروں کا ہندوستان محنت کش طبقے پر زبردست حملہ کر رہا ہے۔ اور سرمایہ دار طبقے کی مینیجنگ کمیٹی ہونے کی وجہ سے اس حملے کی کارروائی مودی سرکار کے ہاتھ میں ہے۔ بہر کیف مبصرین کا خیال ہے کہ اس یاترا سے کانگریس پارٹی کو کچھ سیاسی فائدہ ضرور پہنچ سکتا ہے۔سینئر تجزیہ کار ہرویر سنگھ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اگر کوئی پارٹی عوام سے کٹ جائے تو اس کا مستقبل خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ کانگریس ایک عرصے سے عوام سے دور ہے۔ زمینی سطح پر اس کا کیڈر بہت کمزور اور بکھرا ہوا ہے۔ مقامی سطحوں پر اس کی شاخیں غیر فعال ہیں۔ بہت سے سینئر رہنما اور کارکن پارٹی چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ان کے خیال میں ان حالات میں راہول گاندھی کی یہ یاترا پارٹی میں کتنی جان ڈال سکتی ہے اس بارے میں ابھی کچھ کہنا مشکل ہے۔ ان کے مطابق یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ یاترا کے دوران عوام سے ان کا کتنا رابطہ ہوتا ہے اور وہ ان سے خود کو کتنا قریب کر پاتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ راہول گاندھی پیدل یاترا پر تو نکل گئے ہیں، لیکن پارٹی کے اندر جو بدنظمی ہے اسے دور کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ جب تک پارٹی میں گروہ بندی ختم نہیں ہوتی اور پارٹی رہنماﺅں کی شکایات دور نہیں کی جائیں گی، ایسی یاترائیں سیاسی طور پر کتنی مفید ثابت ہوں گی کہنا مشکل ہے۔بی جے پی نے راہول گاندھی کی پیدل یاترا کو ’فریب‘ قرار دیا اور کہا کہ پارٹی پر گاندھی نہرو خاندان کے کنٹرول کو باقی رکھنے کے لیے یہ یاترا ضروری تھی۔ اس کا کہنا ہے کہ راہول گاندھی تو اپنی پارٹی کو ہی نہیں جوڑ سکے۔ یہ یاترا ملک کو جوڑنے کے لیے نہیں بلکہ راہول کو ایک بار پھر لیڈر ثابت کرنے کی کوشش کے لیے کی جا رہی ہے۔ کانگریس نے اس یاترا کو بھارت کی سیاست میں ایک نئے موڑ سے تعبیر کیا ہے۔ یاترا ایسے وقت شروع ہوئی جب مرکز میں ایک طویل وقت تک برسراقتدار رہنے والی پارٹی ملکی سیاست میں اب تک کے سب سے برے دور سے گزر رہی ہے۔ اب جبکہ راہول گاندھی نے بیڑا اٹھایا ہے تو انہیں چاہیے کہ بھارت کو جوڑ کر ہی دم لے کیونکہ اگر اب بھی حالات نہیں سدھرے تو عوام کے پاس فاقے کاٹنے کے سوا کوئی راستہ نہیں رہے گا، بیروزگار ٹھوکریں کھا کھا کر بے بس ہوگئے ہیں مہنگائی نے عوام کو پوری طرح نچوڑ دیا ہے، راہول کی بھارت جوڈو یاترا صاحب کی بھارت بیچو یاترا سے لاکھ گنا بہتر ہے کیوں کہ ملک مہنگائی، بیروزگاری، اور نفرت کی دلدل میں دھنستا جارہا ہے بھلے ہی بھارت جوڑو یاترا دیر سے ہوئی ہے لیکن درست ہوئی۔ اگر راہول گاندھی یہی پھرتی 2019 کے انتخابات کے وقت دکھاتے تو شاید کانگریس کے حق میں بہتر فیصلہ ہوسکتا تھا ، آپ تاخیر سے آئے ہیں، لیکن پھر بھی ہم امید کرتے ہیں کہ اب بھارت کو جوڑ دیں گے اور یہ حوصلہ مستقبل میں نفرت کی تاریکی کو مات دے گا۔