مضامین

اورنگ زیب عالمگیرؒ کے مزار پر پرکاش امبیڈکر

شہاب مرزا

ہندوستان کی تاریخ کا وہ عظیم بادشاہ جو صدیاں گزر جانے کے بعد بھی جس کا نام سیاسی ایندھن کا کام کرتا ہو جس کے کارناموں سے تاریخ بھری پڑی ہے جس کا عدل و انصاف آج بھی مثال ہے، جس کی حکومت اتنی وسیع و عریض تھی کہ آج اس کا تصور کرنا مشکل ہے جس نے اپنے دور حکومت میں دنیا کی سب سے بڑی اور دولتمند سلطنت کھڑی کی اور خود اپنی زندگی فقیروں جیسی گزاری، ہم بات کر رہے ہیں اورنگ زیب عالمگیر ؒ کی۔
ہندوستان پر حکومت شہاب الدین غوری نے بھی کی، قطب الدین ایبک نے بھی کی، شمس الدین التمش نے بھی کی، علا الدین خلجی نے بھی کی، محمد بن تغلق نے بھی کی مغلیہ دور حکومت میں ظہیر الدین بابر، ہمایوں، شہنشاہ اکبر، جہانگیر اور شاہجہاں نے بھی کی لیکن سب سے زیادہ عظمت، عزت وقار، شان اور محبت صرف اورنگزیب عالمگیر کو حاصل ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ اتنے سالوں بعد بھی آج عالمگیر کا نام اور کارنامے باقی ہیں۔ اورنگ زیب عالمگیر آج بھی دلوں میں بستے ہیں اور فرقہ پرست نام سنتے ہی تلملا اٹھتے ہیں۔
حقائق مسخ کرنا، تاریخ دانوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے لیکن غیر مسلم مورخین بھی چند کو چھوڑ کر عالمگیر کی تاریخ اور کارناموں پر فدا ہوئے۔ ہندوستان کی تاریخ نویسی میں کئی طرح کی غلطیاں کی گئیں جس کی وجہ سے بادشاہوں کی شخصیت میں بہت اختلاف ملتے ہیں۔
اگست 2015 میں دہلی میں بی جے پی اور کجریوال سرکار کی ملی بھگت سے اورنگ زیب عالمگیر ؒ روڈ کا نام بدل کر عبد الکلام روڈ کردیا گیا تھا۔ حالانکہ یہ تاریخی مقامات کے نام نہ بدلنے والے قوانین کی صریح خلاف ورزی تھا۔ بھارتی مین اسٹریم میڈیا پر ایک سال تک یہ بحث ہوتی رہی کہ ہندوستانی مسلمان اورنگ زیب عالمگیر ؒ سے نفرت کیوں نہیں پیدا کرتے اور عبد الکلام کو عالمگیر ؒ سے زیادہ بہتر مسلمان کیوں نہیں سمجھتے یعنی اب حکومت مسلمانوں کو اپنی مرضی کے مطابق اپنے آئیڈیل پسند کرنے کا دباؤ بنا رہی ہے اور گودی میڈیا کے ذریعے اورنگ زیب عالمگیر کے اہم کاموں کو نظر انداز کر کے ایک کٹر اور ظالم حکمران کی صف میں کھڑا کر دیا گیا۔ اب اورنگ زیب عالمگیر ایک نام جو صدیوں بعد بھی تعصب پسند سیاسی منافع خوروں کی غذا رہا ہے، ایک طبقے کے یہاں اورنگ زیب عالمگیر کے خلاف پروپیگنڈا کرنا عبادت کا حصہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ وہ بضد ہیں کہ دنیا یہ پروپیگنڈا قبول کرلے کہ اورنگ زیب عالمگیر وحشی درندے تھے، جنھوں نے اپنے بھائیوں کا قتل کیا، ہندوؤں کی نسل کشی کی، ہزاروں مندروں کو تباہ کیا اور سکھوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے۔ جبکہ تاریخی اوراق اور ہی کہانی بتاتے ہیں۔ ”اورنگ زیب دی مین اینڈ دی متھ“ نامی کتاب کی مصنفہ نے بی بی سی کو بتایا کہ اگر رواداری کے موجودہ معیار کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ماضی کے تمام بادشاہ اور حکمران غیر روادار رہے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اورنگ زیب کے بارے میں غلط فہمیاں زیادہ ہیں اور ان کو ہوا دے کر موجودہ دور میں مسلمانوں کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ مشہور کتاب اورنگ زیب اور فرضی قصے کی مصنفہ آڈری ٹروسچکی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ اورنگ زیب نے اگر ہولی پر سختی دکھائی تو انھوں نے محرم اور عید پر بھی سختی کا مظاہرہ کیا۔ اگر انھوں نے ایک دو مندر توڑے تو کئی مندروں کو عطیہ بھی دیا۔ مختلف تاریخ دانوں نے اورنگ زیب کو اپنی عینک سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ آڈری بھی بتاتی ہیں کہ اورنگ زیب کو جتنا سخت گیر پیش کیا جاتا ہے وہ ویسے نہیں تھے۔ ان کی کئی ہندو بیگمات تھیں اور مغلوں کی ہندو بیگمات ہوا کرتی تھیں۔
اس کے برعکس اورنگ زیب عالمگیر کے تعلق سے سب سے زیادہ تعصب انگریزی مورخوں نے اپنایا اور اپنی اولاد کے حوالے سے فرضی قصے دیے جو آج ہندو، مسلمان میں معاشرتی، معاشی، سیاسی اختلافات بڑھانے کا کام کر رہے ہیں۔ انگریزوں کی پھوٹ ڈالو راج کرو پالیسی کا مورخ ایلیٹ اور ڈاوسن کی تحریروں پر کافی اثر پڑا انھوں نے مغلیہ دور حکومت کو خراب ثابت کرنے کے لیے اورنگ زیب عالمگیر کے اچھے کاموں پر دھیان نہیں دیا۔ جھوٹی باتوں کو بنیاد بنا کر تاریخ کے ساتھ اور اورنگ زیب عالمگیر کی شخصیت کے ساتھ نا انصافی کی۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی پروگرام عالمگیر کے نام کے بغیر ادھورا ہے۔ حکومت نفرت میں اندھی ہوچکی ہے۔ گزشتہ کچھ مہینوں میں اورنگ زیب عالمگیر کی تصویر کو عوامی مقام پر لانے، واٹس ایپ اسٹیٹس پر لگانے اور فیس بک پر پوسٹ کرنے کی وجہ سے مہاراشٹر میں 6 سے زائد ایف آئی آر درج کی گئی ہے اور درجن بھر نوجوان جیلوں میں قید ہیں۔ اورنگ آباد میں عالمگیر کی فوٹو کی وجہ سے چار نوجوانوں پر ایف آئی آر ہوئی تھی۔ عالمگیر کے واٹس ایپ اسٹیٹس کی وجہ سے مسلم نوجوانوں کی برہنہ پریڈ کی گئی، انہیں معافی مانگنے پر مجبور کیا گیا۔ فیس بک پوسٹ کی وجہ سے کولہاپور میں کرفیو نافذ کیا گیا تھا۔ ایک ایسے وقت میں جب ملی قیادت اور قائدین خاموش اور غائب تھے، ونچت بہوجن اگھاڑی کے سربراہ پرکاش امبیڈکر صاحب نے دریا دلی کا مظاہرہ کیا اور عالمگیر اورنگ زیب کے مزار پر حاضری دی اور یہ کہا کہ اورنگ زیب کا تعلق اسی سرزمین سے ہے اور اورنگ زیب کی 50 سالہ حکمرانی کو تاریخ سے نہیں مٹایا جا سکتا۔ اسی کے ساتھ پرکاش امبیڈکر نے ملک کی جمہوریت میں ہمت اور یقین پیدا کرنے کا کام کیا۔ انتخابی سیاست میں اس کے فائدے اور نقصانات ہوسکتے ہیں، لیکن اس کی پرواہ کئے بنا انھوں نے اس ملک کے مسلمانوں کی شناخت کی حفاظت کا کام کیا ہے۔ پرکاش امبیڈکر کا یہ اسٹینڈ بہت بڑھا ہے۔ سیاسی نفع و نقصان کو بالائے طاق رکھ کر اورنگ زیب کے مزار پر حاضری دینے پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔
پرکاش امبیڈکر کی بات صد فیصد صحیح ہے۔ حضرت اورنگ زیب عالمگیر رحمتہ اللہ علیہ سے نفرت کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اورنگ زیب باہر کے نہیں تھے، وہ ہندوستانی تھے۔ ان کی سلطنت اکھنڈ بھارت کا نمونہ تھی جس میں نہ صرف ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش بلکہ اورنگ زیب کی سلطنت کا راج موجودہ افغانستان کے آگے بھی تھا۔ اس وقت ہندوستان کا رقبہ (40 لاکھ مربع کلومیٹر) چین کے رقبے سے بڑا تھا۔ سن 1700 میں جب اورنگ زیب عالمگیر کی حکومت تھی، ہندوستان کی جی ڈی پی 24.4 فیصد تھی۔ اورنگ زیب عالمگیر نے سن 1658 سے سن 1707 تک 50 سال تک حکومت کی۔ سن 1651 میں، ایک شاہی فرمان کے ذریعے، اورنگ زیب عالمگیر نے مدھیہ پردیش کے چترکوٹ میں موجود بالاجی مندر کو عطیہ دیا۔
اورنگ زیب کے دور حکومت میں اہم عہدوں پر 33 فی صد ہندو تھے جب کہ اکبر کے دربار میں ان کی شرح تمام مغل بادشاہوں سے کم تھی یعنی صرف 16 فی صدی تھی۔ اورنگ زیب نے 51 سال تک 15 کروڑ افراد پر حکومت کی۔ ان کے دور میں مغل سلطنت اتنی وسیع ہوئی کہ پہلی بار انھوں نے تقریباً پورے برصغیر کو اپنی سلطنت کا حصہ بنا لیا۔
اتنا سب ہونے کے باوجود اورنگزیب عالمگیر کو ایک کچی قبر میں دفن کیا گیا جبکہ اس کے برعکس ہمایوں کے لیے دہلی میں لال پتھر کا مقبرہ بنوایا گیا اور شاہ جہاں کو عالیشان تاج محل میں دفنایا گیا۔ان کے مطابق؛ ’یہ ایک غلط فہمی ہے کہ اورنگ زیب نے ہزاروں ہندو منادر توڑے۔ ان کے حکم سے براہ راست چند منادر ہی توڑے گئے۔ ان کے دور حکومت میں ایسا کچھ نہیں ہوا جسے ہندوؤں کا قتل عام کہا جا سکے۔ دراصل، اورنگ زیب نے اپنی حکومت میں بہت سے اہم عہدوں پر ہندوؤں کو تعینات کیا۔ یہی وجہ تھی کہ ایک امریکی تاریخ داں آڈرے ٹرسچکی نے اپنی تازہ کتاب ”اورنگ زیب، دی مین اینڈ دی متھ“ میں بتایا ہے کہ یہ خیال غلط ہے کہ اورنگ زیب نے مندروں کو اس لیے مسمار کروایا کیوں کہ وہ ہندوؤں سے نفرت کرتے تھے۔٭٭