سیاستمضامین

ایک دیمک جو ملک کو چاٹ رہی ہے

مولانا سید احمد ومیض ندوی استاذ حدیث دارالعلوم حیدرآباد

گزشتہ کل دسمبر کی9/ تاریخ گزری؛ یہ دن دنیا بھر میں عالمی یوم انسداد بدعنوانی کے طور پر منایا جاتا ہے؛ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 31 اکتوبر 2003 کو اعلان کیا تھا کہ ہر سال ٩/ دسمبر کو ” ورلڈ اینٹی کرپشن ڈے” کے طور پر منایا جائے گا؛ پہلا ورلڈ "اینٹی کرپشن ڈے ٩/ دسمبر 2004 کو میکسیکو میں منایا گیا؛ ہر سال یہ دن کرپشن کے خلاف نفرت کی علامت کے طور پر منایا جاتا ہے؛ اس دن کو منانے کا مقصد عالمی معاشرے کو کرپشن کی لعنت سے چھٹکارا دلانے کے عزم کو فروغ دینے کے ساتھ ایسے اقدامات کرنا ہے جن سے کرپشن کی مکمل روک تھام ہو سکے؛ ہر سال ٩/ دسمبر کے موقع پر عالمی سطح پر بدعنوانی کے خلاف مہم چلا کر اس کے مضر اثرات سے قوموں کو باخبر کرنے کے ساتھ اس کے خاتمے کے لیے رائے عامہ کو ہموار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے؛ اقوام متحدہ کا کنونشن برائے تدارک بدعنوانی یو این سی اے سی ممبر ممالک کی جانب سے ایک یادداشت اور اظہار یکجہتی ہے؛ جس میں اس بات کا اعادہ کیا گیا ہے کہ عالمی سطح پر بدعنوانی کے انسداد پر کام کیا جائے گا؛ عالمی سطح پر کرپشن کے خلاف مندرجہ ذیل "سلوگن تھیم” دیے گئے ہیں: ” آپ کا انکار کہ کوئی آپ کو بدعنوانی پر مجبور کرے” "کرپشن سب سے بڑا مرض ہے اور شفافیت اس کا بہترین علاج ہے” "جو لوگ کرپٹ سیاست دان چور اور منافق لوگوں کو چنتے ہیں وہ اس بدعنوانی کا شکار ہیں بلکہ اس میں شامل ہوتے ہیں” "کرپشن کے رویے کو ایک غیر انسانی فعل قرار دیا جائے” "عام شخص پر کرپشن کے سب سے زیادہ اثرات ہوتے ہیں” "کرپشن ترقی کے عمل کا سب سے بڑا دشمن ہے” "بلاشبہ کرپشن ایسا گھن ہے جو بڑھتے بڑھتے نہ صرف سماج اور قوم کو بلکہ پورے ملک کو اندر اندر ہی کھوکھلا کر دیتا ہے” کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک اس معاشرے میں بدعنوانی کے عناصر موجود ہوں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بدعنوانی موجودہ انسانی معاشرے کے لیے ایک ناسور کی شکل اختیار کر چکی ہے؛ آج کے معاشرے میں کرپشن کو ایک حق تصور کیا جانے لگا ہے؛ بہت کم لوگ ہیں جو بدعنوانی کو برائی اور جرم سمجھتے ہیں؛ کرپشن کا مجرم گرفتاری پر وکٹری کا نشان بنا کر قانون کی دھجیاں بکھیرتا نظر آتا ہے؛ زیادہ دن نہیں گزرتے کہ وہ لین دین کر کے انتہائی باعزت انداز میں بری ہو جاتا ہے؛ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی گلے تک کرپشن میں ڈوبے نظر آتے ہیں؛ نفاذ قانون کے اداروں کی اسی کارکردگی کے سبب معاشروں میں بدعنوانی کو قبول کرنے کے رجحان میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے؛ بدعنوانی کے بڑھتے ہوئے اس ناسور کی ایک اہم وجہ نفاذ قانون کے اداروں کی نااہلی یا خود ان کا کرپشن میں ملوث ہونا ہے؛ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آج کے معاشروں نے کرپشن جیسی برائی سے سمجھوتہ کر لیا ہے؛ اب لوگ بدعنوانی کے مرتکب ہو کر بھی شرمندگی محسوس نہیں کرتے بلکہ اسے عقلمندی عیاری اور ہنر سمجھتے ہوئے اس پر فخر کرتے ہیں؛ جس معاشرے میں برائی پر فخر ہونے لگے اس معاشرے کا اللہ ہی حافظ ہے؛ دلاور فگار مرحوم نے نفاذ قانون کے اداروں کی صورتحال کا مذاق اڑاتے ہوئے خوب کہا ہے: لے کے رشوت پھنس گیاتھا _ دے کے رشوت چھوٹ جا؛
ملک میں کرپشن کے خاتمے اور ہر کام میرٹ کے مطابق چلانے کے لیے قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا ضروری ہے؛ دور حاضر میں ملکی مسائل کا جائزہ لیا جائے تو زیادہ تر مسائل کرپشن کی پیداوار نظر آتے ہیں: ہمارے ملک میں کرپشن کی صورتحال افسوسناک حد تک سنگین ہو چکی ہے؛ ہر جائز و ناجائز کام کروانے کے لیے رشوت دینے کا عمل جڑ پکڑ چکا ہے؛ ملک میں رشوت کو حق اور ملاوٹ کو کاروبار سمجھ لیا گیا ہے؛ جو جتنا بڑا قد اور لیڈر ہے اتنا ہی کرپٹ ہے؛ بدعنوانی کرپشن اور اقرباء پروری کی بدترین صورتحال ہے؛ ہر شعبہ کرپشن سے آلودہ ہے؛ کرپشن سے بھرپور تھانہ کلچر کا فروغ روز افزوں ہے؛ حکومتی اداروں کے کرپشن؛ حصول انصاف کا کمزور نظام اور بدعنوان افسروں کے باعث عوام میں بے بسی اور بے اختیاری کا احساس بڑھتا جا رہا ہے؛ بلکہ حکومتی شعبوں اور عدالتی اداروں پر سے عوام کا اعتماد اٹھتا جا رہا ہے؛ موجودہ مرکزی حکومت کہنے کو تو خود کو بدعنوانی کے خاتمے کی چیمپین کہتی تھکتی نہیں اور اس کے وزیراعظم گلا پھاڑ پھاڑ کر کہتے نظر آتے ہیں کہ "نہ کھاؤں گا اور نہ کھانے دوں گا” لیکن سب کچھ زبانی جمع خرچ ہے؛ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ہیں اور دکھانے کے اور؛ خود مرکزی وزرا انتہائی کرپٹ اور بدترین بدعنوان ہیں؛ موجودہ حکومت کرپشن کے خلاف ضرور آواز بلند کرتی ہے؛ لیکن یہ محض دکھاوا ہے؛ قومی دولت اور وسائل کی لوٹ کھسوٹ کے باعث سرکاری ادارے سفید ہاتھی بن چکے ہیں؛ اور یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور اختیارات کے ناجائز استعمال نے سماجی اور معاشرتی ڈھانچے کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے؛ قدرتی وسائل سے مالا مال ہمارے ملک میں اقتصادی صورتحال یوں ہی سنگین نہیں ہوئی؛ کرپشن کا دیمک اسے چاٹ رہا ہے؛ اقوام متحدہ کے ڈرگز اور کرائم سیل کے مطابق کسی بھی ملک میں ہونے والی بدعنوانی اور کرپشن سرمایہ کاری کو اصل بجٹ اور تخمینے سے 20 فیصد زائد کر دیتی ہے۔
مبصرین کے مطابق یوں تو دنیا میں کرپشن ہر سطح پر کسی نہ کسی حد تک موجود رہا ہے؛ مگر جنوبی ایشیا بر صغیر ہندو پاک میں مالیاتی بدعنوانی سکہ رائج الوقت کی شکل اختیار کی جا چکی ہے؛ ٹرانس پرنسی انٹرنیشنل سروے کے مطابق ایشیاء میں بھارت میں سب سےزیادہ رشوت کی شرح سب سے زیادہ ہے؛ اس سروے کے نتائج جسے عالمی بدعنوانی کے بیرو میٹر (جی سی ڈی) نے جاری کیے تھے اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں عوامی خدمات تک رسائی کے لیے ذاتی روابط استعمال کرنے والے افراد کی شرح سب سے زیادہ ہے؛ بھارت میں رشوت کی شرح 39 فیصد ہے جبکہ 46 فیصد افراد بنیادی خدمات تک رسائی حاصل کرنے کے لیے واقفیت استعمال کرتے ہیں؛ سروے کرنے والوں میں سے 50 فیصد نے انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے رشوت دی تھی؛ کیونکہ انہیں ایسا کرنے کے لیے مجبور کیا گیا تھا؛ 32 فیصد لوگوں نے کہا کہ وہ روابط کے استعمال پر مجبور ہیں؛ ورنہ دوسری صورت میں متعلقہ سہولت حاصل نہیں کر سکتے؛ ٹرانس پرانسی انٹرنیشنل نے تجویز پیش کی ہے کہ ہندوستانی حکومت عوامی خدمات کے لیے انتظامی عمل کو ہموار بنائے؛ رشوت اور اقرباء پروری کے خاتمے کے لیے اقدامات کو نافذ کرے؛ اور ضروری عوامی خدمات کو تیزی سے اور موثر طریقے فراہم کرنے کے لیے صارف دوست آن لائن پلیٹ فارم میں سرمایہ کاری کرے؛ عالمی کرپشن بیرو میٹر جس نے خطے کے 17 ممالک کے لوگوں کا سروے کیا ہے؛ پتہ چلایا ہے کہ ہندوستان میں ہر تین میں سے ایک فرد کو یقین ہے کہ ان کے ملک میں سرکاری بدعنوانی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے؛ سروے شدہ 38 فیصد لوگوں کا ماننا تھا کہ گزشتہ 12 مہینوں میں ان کے ملک بھارت میں بدعنوانی میں اضافہ ہوا ہے؛ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پچھلے سال صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم جیسے سرکاری خدمات تک رسائی حاصل کرنے والے ہر پانچ شہریوں میں سے ایک نے رشوت دی تھی؛ جبکہ پانچ میں سے ایک سے زائد لوگوں نے ذاتی رابطہ استعمال کیے؛ (بحوالہ روزنامہ نوائے وقت سات دسمبر 2020۔)
رشوت کی لعنت سے پاک معاشرے کے لیے ضروری ہے کہ ہر شہری اور سرکاری افسروں کو رشوت کے سنگین نتائج سے آگاہ کیا جاتا رہے؛ اسلام میں رشوت لینا اور دینا دونوں سنگین جرم ہیں؛ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں؛ آخرت میں جواب دہی کا احساس ہی اس لعنت سے چھٹکارا دلا سکتا ہے؛ اس کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے ادارے رشوت سے پاک ہوں اور نفاذ قانون میں شفافیت کو یقینی بنائیں؛ اس سلسلے میں سیاسی قائدین کا اہم رول ہے؛ پہلے منسٹری کی سطح پر رشوت کا خاتمہ ناگزیر ہے؛ جب تک اوپر سے رشوت ختم نہ ہوگی نچلے اداروں سے رشوت کا خاتمہ ناممکن ہے۔