طنز و مزاحمضامین

’’ جو جتیا وہی چیتا‘‘

چیتوں کے بارے میں پڑھتے پڑھتے ہم کب نیند کے ہاتھوںچت ہوگئے خود ہمیں بھی پتا نہ چلا…کچھ ہی دیر میں ہم خواب خرگوش کے مزے لینے لگے…دیکھتے کیا ہیں کہ رات کا وقت ہے اور جنگل میں ہر سو خرگوش ہی خرگوش اچھلتے کودتے پھررہے ہیں …انہیں یوں مستی میں چور پھدکتا دیکھ کرہمارا دل بھی گویاخرگوش بن گیا… دریں اثنا وہاں ایک چیتا آگیا،جیسے ہی ہم نے چیتے کو دیکھا ہماری آنکھوں کے آگے اندھیرا مزید گہرا ہوگیااور غیب سے آواز آئی ’’ تیرا کیا ہوگا گوریا؟‘‘جبکہ گوریا کی یعنی ہماری گھگی بندھ گئی تھی …چیتے نے ہمیں دیکھا اورہم نے بھی چیتے کو دیکھا ،حساب برابر ہوگیا ، البتہ چیتا ہمیں دیکھ کر ڈرا نہیں اور ہم ڈر گئے …دوسرے ہی لمحے چیتے سے متعلق جو کچھ پڑھا تھا وہ نگاہوں میں گھومنے لگا کہ ’’ رات میں چیتوں کی حالت انسانوں جیسی ہی ہوتی ہے، اسی لیے چیتے، یا تو صبح کے وقت یا دوپہر کے بعد شکار کرتے ہیں۔‘‘یعنی ہمارے شکار ہونے کے چانسس بہت کم تھے ،یہ سوچ کرہم بے ساختہ مسکرااٹھے اور پھر ہمارے اعصاب کو اس خیال نے مزیدتقویت بخشی کہ چیتا، چیتا ہونے کے باوجود بلی کے خاندان سے ہے اور یہ کہ چیتے بلیوں کی طرح بولتے ، غراتے اور بعض اوقات بھونکتے بھی ہیں…اب توہم بے ساختہ ہنس پڑے…

حمید عادل

شیر کو جنگل کا بادشاہ کہا جاتاہے لیکن جب ذکر پھرتی کا ہو تو چیتے کا ہی نام آتا ہے …ہم چیتے سے متعلق معلوماتی مضمون چاٹ رہے تھے کہ دنیا میں ان کی لگ بھگ 7000 کی آبادی میں سے اکثریت اب جنوبی افریقہ، نامیبیا اور بوتسوانا میں پائی جاتی ہے۔ بلی کے خاندان سے تعلق رکھنے والے اس جانور کو مبینہ طور پر آخری بارہندوستان میں1967-68ء میںدیکھا گیا تھا، لیکن 1900 تک ان کی تعداد بہت کم ہوچکی تھی۔کہتے ہیں کہ دنیا میں سب سے پہلے قید میں کسی چیتے کی افزائش 16 ویں صدی میں مغل بادشاہ جہانگیر کے دور حکومت میں کی گئی تھی۔ ان کے والد محترم اکبر اعظم کے دور میں ریکارڈ کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 10 ہزار چیتے موجود تھے جن میں سے ہزار ان کے دربار میں دم ہلاتے پھرا کرتے تھے…بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق چیتے 95 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ سکتے ہیں، یہ رفتار دنیا کے سب سے تیز رفتار ایتھلیٹ یوسین بولٹ سے دگنی ہے۔ ….
چیتوں کے بارے میں پڑھتے پڑھتے ہم کب نیند کے ہاتھوںچت ہوگئے خود ہمیں بھی پتا نہ چلا…کچھ ہی دیر میں ہم خواب خرگوش کے مزے لینے لگے…دیکھتے کیا ہیں کہ رات کا وقت ہے اور جنگل میں ہر سو خرگوش ہی خرگوش اچھلتے کودتے پھررہے ہیں …انہیں یوں مستی میں چور پھدکتا دیکھ کرہمارا دل بھی گویاخرگوش بن گیا… دریں اثنا وہاں ایک چیتا آگیا،جیسے ہی ہم نے چیتے کو دیکھا ہماری آنکھوں کے آگے اندھیرا مزید گہرا ہوگیااور غیب سے آواز آئی ’’ تیرا کیا ہوگا گوریا؟‘‘جبکہ گوریا کی یعنی ہماری گھگی بندھ گئی تھی …چیتے نے ہمیں دیکھا اورہم نے بھی چیتے کو دیکھا ،حساب برابر ہوگیا ، البتہ چیتا ہمیں دیکھ کر ڈرا نہیں اور ہم ڈر گئے …دوسرے ہی لمحے چیتے سے متعلق جو کچھ پڑھا تھا وہ نگاہوں میں گھومنے لگا کہ ’’ رات میں چیتوں کی حالت انسانوں جیسی ہی ہوتی ہے، اسی لیے چیتے، یا تو صبح کے وقت یا دوپہر کے بعد شکار کرتے ہیں۔‘‘یعنی ہمارے شکار ہونے کے چانسس بہت کم تھے ،یہ سوچ کرہم بے ساختہ مسکرااٹھے اور پھر ہمارے اعصاب کو اس خیال نے مزیدتقویت بخشی کہ چیتا، چیتا ہونے کے باوجود بلی کے خاندان سے ہے اور یہ کہ چیتے بلیوں کی طرح بولتے ، غراتے اور بعض اوقات بھونکتے بھی ہیں…اب توہم بے ساختہ ہنس پڑے…
’’ کون ہو تم اورکسی مسخرے کی طرح دانت کیوں دکھا رہے ہو؟‘‘چیتا گرجا۔
ہم نے شاہ رخ خان کی طرح ہکلاتے ہوئے کہا ’’عا۔۔۔عا۔۔۔ عادل‘‘
’’کون عا۔۔عا۔۔عادل؟‘‘چیتے نے ہماری نقل کی…
’’حمید عادل‘‘
’’شاعر ہو؟‘‘
’’جی نہیں! صحافی ہیں‘‘
چیتے نے ہمیں کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا ’’گودی میڈیا سے ہو ؟‘‘
’’ نہیں نہیں، بالکل نہیں !‘‘ ہم نے فوری وضاحت کر ڈالی…
’’ میں گودی میڈیا سے سخت نفرت کرتا ہوں!‘‘ چیتے نے سرد آہ بھر کر دوبارہ کہنا شروع کیا’’دو ہفتے قبل جب نامیبیا سے پانچ مادہ اور تین نر چیتے ایک خصوصی کارگو طیارے سے ہندوستان پہنچے توگودی میڈیا اپنے آقاؤںکی چاپلوسی میں اس حد تک گر ا کہ میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ میںہندوستان آیا ہوں یا بی جے پی میں؟اس وقت گودی میڈیا کے پروگرامس کے چند دلچسپ عنوانات تھے :’’ مودی وائلڈ‘‘،’’ دیکھو دیکھو چیتا آیا‘‘شیر لایا چیتا‘‘، ’’ آ گئے چیتے‘‘ بھارت کا شیر ، لایا چیتا‘‘،’’ مودی کی چیتے والی چال‘‘ وغیرہ وغیرہ …‘‘
چیتا پرجوش انداز میں اپنی آمد کی بابت کہے جارہا تھا اور ہمارے ذہن میں اُن دنوں چمن بیگ کی جانب سے پوچھے گئے دلچسپ سوالات کلبلانے لگے،چمن نے ہم سے پوچھا تھا :’’کیا اِن آٹھ چیتوں کے ڈر سے بیروزگاری بھاگ جائے گی؟ کیا یہ خونخوارچیتے فاقہ کشی اور مہنگائی کو کھا جائیں گے؟‘ ‘ ہم نے مسکرا کرجواب دیا تھا:’’ نہیں نہیں! ایسا کچھ نہیں ہوگا،البتہ ہمارے ملک کو یہ اعزاز حاصل ہوجائے گا کہ اگر کوئی ترقی یافتہ ملک ہم سے کہے کہ ’’ ہمارے ملک میں خوشحالی ہے ، بھائی چارگی ہے ،محبتیں ہیں،ایک دوسرے پر مر مٹنے کا جذبہ ہے ،کیا ہے تمہارے پاس ؟ ‘‘ تو ہم فلم ’’دیوار‘‘ کے ششی کپور کی طرح فخر سے کہہ سکتے ہیں ’’ ہمارے پاس آٹھ چیتے ہیں !‘‘
’’ کہاں گم ہوگئے ؟‘‘ چیتا غرایا ۔
’’ کہیں نہیں،ہم تو یہیں ہیں۔‘‘ہم نے ہڑبڑا کر بڑبڑایا۔
’’گودی میڈیا کی طر ح جھوٹ مت بولو‘‘
ہم نے کھسیانے ہنسی کے ساتھ کہا ’’ چیتا بھائی! ہم آپ کی آمد کے تعلق سے سے ہی سوچ رہے تھے،جس میں یہ بتایا جارہا تھا کہ ہندوستان میں آپ کی آمد 70سال بعد ہوئی ہے …‘‘
’’ جھوٹ ہے یہ سب…سوشیل میڈیا کسی کو نہیں بخشتا ہے،سو اس نے وزیراعظم مودی کے کہے کو بھی نہیں بخشا، 2009ء کاایک ایسا ویڈیو وائرل ہوا، جس میں مودی جب وہ گجرات کے وزیراعلیٰ تھے ،چار چیتوں کی آمد کی خبر دے رہے ہیں…‘‘
’’توپھر مودی جی آج یہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ ستر سال بعد چیتے ہندوستان آئے ہیں ؟ ‘‘ ہم نے سوال داغا۔
چیتے نے ہمیںایک بار پھر گھور کردیکھا ،جو ہماری روح فنا کرگیا، لیکن دوسرے ہی لمحے وہ ہنس کر کہنے لگا:’’ وہ مودی جی جو چار چیتوں کی 2009ء میں ہندوستان آمد کا ذکرکررہے ہیں ، وہ وزیراعلیٰ مودی تھے اور وہ مودی جی جو آج ستر سال بعد ہندوستان میں چیتوں کی آمد کی شیخی بگھار رہے ہیں ، وہ وزیراعظم مودی ہیں. . وزیراعلیٰ مودی اور وزیراعظم مودی دو الگ الگ ہیں …‘‘چیتے کی باتیں سن کر ہمارا دماغ چکرا نے لگا،چیتے نے ہمیں سمجھاتے ہوئے کہا ’’ اس بات کو تم کچھ اس طرح بھی سمجھ سکتے ہو کہ کل وزیراعلیٰ مودی روپئے کے گرنے پر شدیدپریشان تھے ،جب کہ آج روپیہ گ رنے کے تمام ریکارڈ توڑ نے کے باوجود وزیراعظم مودی چپ ہیں، اگر وزیراعلیٰ مودی اور وزیراعظم مودی ایک ہی ہوتے تو وہ آج بھی اُسی طرح پریشان ہوتے جیسے کل پریشان تھے …. آئی بات سمجھ میں؟‘‘
’’ ہاں ہاں سمجھ گئے …‘‘ہم نے ہونقوں کی طرح سر ہلایا۔
’’ کیا سمجھے؟‘‘
’’ یہی کہ ،وزیراعلیٰ مودی اور وزیراعظم مودی دو الگ الگ مودی ہیں !‘‘اور قدرے توقف سے ہم نے کہا ’’لیکن یہ تو بتائیے چیتا بھائی ! آپ گودی میڈیا سے اس قدر چڑھتے کیوں ہیں؟‘‘
ارے بھئی ! چاپلوسی کی بھی حد ہوتی ہے ،کہنے والے نے درست کہا ہے کہ چیتے کی جگہ چوہا بھی لاتے تو میڈیا اتنا ہی تماشا کرتا …(اور پھر کچھ سوچ کر) چوہے سے متعلق ایک پرمزاح واقعہ مجھے یاد آرہا ہے ،سنو گے؟‘‘
’’ ضرور کیوں نہیں ؟‘‘ ہم نے مسکرا کر حامی بھری۔
چیتے نے کہنا شروع کیا ’’ جنگل میں،میں (چیتا ) چرس پینے کی تیاری کررہا تھا کہ اچانک قریب سے چوہا گذرا اورکہا: او چیتے ! زندگی بہت خوبصورت ہے زندگی سے پیار کرو، اتنا خوبصورت جنگل ہے چلو گھومتے پھرتے ہیں، انجوائے کرتے ہیں۔‘‘
مجھ(چیتے) کو چوہے کی بات اچھی لگی،سو میں چوہے کے ساتھ ہولیا،تھوڑی آگے جا کر ایک ہاتھی شراب کی بوتل کھولنے کی کوشش کررہا تھا،چوہا پھر بولا:
:’’ او انکل ہاتھی ! زندگی بہت خوبصورت ہے، زندگی سے پیار کرو۔ خوبصورت جنگل ہے چلو گھومتے پھرتے ہیں سیر کرتے ہیں۔‘‘ ہاتھی کو چوہے کی بات بھا گئی اور وہ بھی ساتھ چل پڑا۔
آگے جاکر دیکھا کہ شیر ہیروئن کی پوڑی ہاتھ میں اٹھائے نشہ کرنے کی تیاری کررہا ہے۔چوہا اس کے پاس بھی گیا اور کہا: او جنگل کے بادشاہ! زندگی بہت خوبصورت ہے، یوں برباد مت کرو، زندگی سے پیار کرو، چلو جنگل کی سیر کرتے ہیں ۔‘‘شیر نے چوہے کو غصے سے دیکھا اور زور سے ایک تھپڑ رسید کیا۔
ہاتھی اور میں(چیتا )حیران ہوئے اور پوچھا : ’’شیر صاحب! چوہے نے تو اچھی بات کی ہے، تھپڑ کیوںمارا اُسے؟‘‘
شیر گرجا:’’ یہ خبیث کل بھی بھنگ کا نشہ کرکے آیا اور یہی بات کرکے مجھے پانچ گھنٹے فضول گھماتا رہا۔‘‘
لطیفہ خوب تھا،سو چیتے کے ساتھ ہم بھی ہی ہی کرنے لگے، ہنستے ہنستے چیتا فلم’’ شعلے‘‘ کے گبر سنگھ کی طرح اچانک سنجیدہ ہوگیا اور کہا ’’ہمارا جنگل راج خواہ مخواہ بدنام ہے،ہندو مسلم انسانوں میں ہوتا ہے ، ہم جانوروں میں نہیں … یہ کیسا ملک ہے کہ جہاں میڈیا کے ذریعے نفرت پھیلائی جارہی ہے ،گودی میڈیا کی غلامی پر مجھے ترس آتا ہے اور سب سے زیادہ ترس تو مجھے ان گودی صحافیوں پر آیا جو ہماری (چیتوں کی )آمد کے دن نیوز روم میں چیتا جیسے کپڑے پہن کر بیٹھے تھے، اور بکے جارہے تھے کہ ستر سال بعد چیتے ہندوستان آرہے ہیں…یہ کیسے صحافی ہیں کہ انہیں اتنا بھی یاد نہیں رہاکہ 2009ء میں چار چیتے گجرات میں لائے جا چکے تھے…اگر وہ بھول گئے تھے تو پھر ان سے بڑا احمق کوئی نہیں اور اگر انہیں یاد تھا لیکن پھر بھی انہوں نے ہماری آمد کو میگا ایونٹ بنا کر پیش کیا تو ان سے بڑا جھوٹا کوئی نہیں …لگے ہاتھوں میں یہ کہتا چلوں کہ 2009 ء سے پہلے بھی تین چیتے ہندوستان لائے گئے تھے،میں نہیں کہتا ٹائمز آف انڈیا میں لکھا ہے یارو…‘‘
ہم چیتے کی غیر معمولی قابلیت کے معترف ہوئے بغیر نہ رہ سکے ’’تم توفلم ’’ شان ‘‘کے’’ عبدل ‘‘کی طرح سب کی خبررکھتے ہو …‘‘
چیتا ہماری بات سن کر ہنس پڑا اورکہا ’’ انٹر نیٹ کی بدولت دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے ،کوئی کھانسے بھی تو پتا چل جاتا ہے …‘‘
’’ ہندوستان آمد پر تم کیا کہنا چاہو گے؟‘‘
’’ مجھے حکومت سے شکایت ہے جس نے چیتوں کے انتخاب میں بڑی گڑبڑ کردی …اگر آٹھ چیتے لانے ہی تھے تو چار نر اور چار مادہ لاتے، لیکن چار، چار کی بجائے تین پانچ کی کیا تک ہے ، بتاو؟ …وہ بھی ایسے ملک میں جہاں کچھ عناصر کو کسی مخصوص طبقے کی دوسری شادی پر تک اعتراض ہے، آخر ہمارے ساتھ ایسا کھلواڑ کیوں کیا گیا؟ دو مادہ چیتے اسی غم میں مر سکتے ہیں کہ ہم کب تک ادھار کی زندگی جئیں؟‘‘
’’ اس کا مطلب چیتا بھی ہارتا ہے ؟‘‘ہم نے رائے قائم کی۔
’’ہار جیت تو اپنے اندر ہوتی ہے ، مان لو تو ہار ہے ،ٹھان لو تو جیت ہے اور میں تو کہتا ہوں جو جیتا وہی چیتا،چیتا ہر حال میں جیتا ہے ۔‘‘
’’ کیا خوبصورت بات کہی چیتا صاحب آپ نے،الفاظ کی جادوگری سے بنا شعر کہے مشاعرہ لوٹ لیا…‘‘ اور پھرہم نے موضوع بدلا ’’جنگل پر صدیوں سے شیر کی حکمرانی ہے ،جنگل کے جانوروں سے جھوٹے وعدے کرکے،تم ایسی کوئی سیاسی چال کیوں نہیں چلتے کہ شیر اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے،تم بھی شیر سے کم تونہیں ہو …‘‘ہم نے چیتے کومفت کے مشورے سے نوازا۔
’’میں نیتا نہیں، چیتا ہوں!‘‘
چیتے کا جواب ہمیں اس قدر پسند آیا کہ ہم گہری نیند سے بیدار ہوگئے اور آج کے نیتاوں کے بارے میں سوچنے لگے جو محض جھوٹ کے سہارے زندہ ہیں۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰