موبائل کی وجہ سے اُمورِ خانہ داری میں کوتاہی اور شوہر سے بے اعتنائی
شہر حیدرآباد کی ایک مشہور دینی جامعہ اشرف العلوم خواجہ باغ سعیدآباد حیدرآباد اور ادارہ اشرف العلوم حیدرآباد کی جانب سے ایک منفرد نایاب اور بیحد معلوماتی و افادیت بخش کتاب بہ عنوان ”دورِ حاضر کا عظیم فتنہ اسمارٹ فون“شائع ہوکر آج کل مسلم سماج میں بہت دھوم مچارہی ہے۔
شہر حیدرآباد کی ایک مشہور دینی جامعہ اشرف العلوم خواجہ باغ سعیدآباد حیدرآباد اور ادارہ اشرف العلوم حیدرآباد کی جانب سے ایک منفرد نایاب اور بیحد معلوماتی و افادیت بخش کتاب بہ عنوان ”دورِ حاضر کا عظیم فتنہ اسمارٹ فون“شائع ہوکر آج کل مسلم سماج میں بہت دھوم مچارہی ہے۔
یہ کتاب 132صفحات پر مشتمل ہے اور اس کی کوئی قیمت نہیں اور اس کے حقوق بھی غیر محفوظ ہیں (دھندے چندے والوں اور کتابوں کی خریدو فروخت کرنے والوں کو چھوڑ کر)۔ ”آنکھوں کی حفاظت اور گناہوں سے بچنے کے لیے سلامتی اسی میں ہے کہ موبائیل کا استعمال کم سے کم اور بقدرِ ضرورت کی حد میں ہو“(حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم)۔
گھر کے بڑوں کا بھی قصور ہے، والدین، چچا، ماموں وغیرہ جن کو دین کی سمجھ نہیں ہے، اپنی بیٹی، بھتیجی، بھانجی کو شادی میں بڑا موبائل دے دیتے ہیں یا شوہر صاحب شادی کے بعد اپنی بیوی کو بڑا موبائل گفٹ دے دیتے ہیں۔ جیسے صدقہ جاریہ کا ثواب مرنے کے بعد ملتا رہتا ہے، اسی طرح گناہِ جاریہ کا گناہ بھی ملتا رہتا ہے، ہماری وجہ سے جو گناہ شروع ہوئے تو ہماری پکڑکا خطرہ ہے جیسے کسی نے اپنے بچوں کے لیے ٹی وی یا دوسرے آلاتِ معصیت خریدے یا بیٹی کو جہیز میں ٹی وی دیا، اب اس پر جتنا گناہ دیکھا جائے گا، اس دینے والے کو بھی اس کا وبال ہوگا۔
باہر ملک کے رشتے دار بھی جب کوئی تحفہ بھتیجے ہیں تو عموماً ٹچ موبائل، ٹیبلٹ، لیپ ٹاپ بھیج دیتے ہیں، جس کی وجہ سے گناہ شروع ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی گھروں میں یہ پریشانی ہے کہ خاتونِ خانہ ساری رات موبائل پر گزار کر سارا دن سورہی ہے۔ گھر کا کوئی کام انہیں نہیں آتا، نہ سلائی نہ کھانا پکانا وغیرہ۔ ان خرافات میں مصروف ہونے کی وجہ سے ان کو کھانا پکانے کی فرصت نہیں، باہر سے کھانا منگوالیا جاتا ہے، جس کو اطباء منع کرتے ہیں کہ بازار کا کھانا کبھی کبھار تو کھایا جائے، عادت نہ بنائی جائے۔
باورچی خانے میں جاکر خدمت کرنا انہیں عارلگتا ہے، روز اس بات پر جھگڑے ہوتے ہیں کہ مجھے کیوں جگایا؟ بس چاہتی ہیں کہ شوہر ان کو ان کے حال پر چھوڑ دے، ساری رات موبائل پر رہیں، سارا دن سوتی رہیں۔ پھر بڑے شرم کی بات ہے کہ شادی کے بعد چاہتی ہیں کہ پانچ سات سال تک اولاد نہ ہو۔ بلا شرعی عذراولاد کو روکنا کتنا بڑا گناہ ہے۔
ہم لوگ سوچیں چاہے مرد ہویا عورت، تنہائی میں بڑے موبائل پر اتنے گھنٹے گزارتے ہیں تو کیا کرتے ہوں گے، اس دوران کس طرح گناہ سے بچتے ہوں گے، میری تو سمجھ سے باہر ہے۔ اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔ چند دن پہلے معلوم ہوا کہ شوہر نے بیوی کو دن رات اسمارٹ فون پر مصروف رہنے سے تنگ آکر کہا کہ موبائل بیچو، بیوی کہتی ہے کہ میں تمہیں چھوڑ سکتی ہوں، موبائل نہیں چھوڑ سکتی، موبائل کا نشہ چرس وہیر وئن سے بھی بڑا نشہ ہوگیا ہے۔
شادی کے بعد تو والدین سے بھی بڑھ کر شوہر کے حقوق ہیں اور والدین اور شوہر کی جائز باتیں ماننا فرض ہے، اب شوہر کہہ رہا ہے کہ مجھے وقت دو اور بیوی موبائل میں لگی ہوئی ہے۔المختصر و بقول شاعر نا معلوم کہ
اقرار زبانی کرکے فقط انسان مسلماں کیا ہوگا
جب علم و عمل کا نام نہ ہو دل پیکرِ ایماں کیا ہوگا
ام بصیر۔ہمت پورہ، حیدرآباد۔