سیاستمضامین

کیا اسرائیل میں اصلی یہودی آباد ہیں؟

فرید احمد قدوائی

آج کل یورپ میں جہاں فلسطین اور اسرائیل کا مسئلہ زیر بحث ہے وہاں پرانے نئے تمام واقعات اور حکمرانیاں جو ماضی میں دب گئی تھیں پھر ابھر کر سامنے آرہی ہیں۔ یہ کہنا تو قبل از وقت ہے کہ اس جنگ میں کون جیتے گا اور کون ہارے گا کسے زیادہ فائدہ ہوگا اور کسے زیادہ نقصان۔ مگر ایک بات حتمی ہے وہ یہ کہ اب دنیا جاگ گئی ہے اب اسرائیلیوں کی مظلومی کا چورن مزید نہیں بیچا جاسکتا۔ اس وقت فلسطین کے حق میں عام یورپی شہریوں کے 12,12 سال کے بچے مظاہروں میں شریک ہورہے ہیں۔ گوکہ پولیس ان مظاہرین کو منتشر کردیتی ہے مگر یہ سمجھنا بے وقوفی ہے کہ ان 12 سال سے اوپر کے یورپی بچوں کے دل و دماغ میں ان حالات کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ یہ بچے اگلے 10 سال میں یونیورسٹیوں میں ہوں گے اور 15 سال میں سرکاری اداروں میں تعینات ہو کر ملک چلا رہے ہوں گے۔ اس وقت یہ بچے جن کے دلوں میں آج فلسطینیوں کے لیے دل میں نرم گوشہ موجود ہے، وہ کل خلافِ اسرائیلی پالیسیاں بنائیں گے اسی وجہ سے اب فلسطین کی آزادی روز بروز یقینی بنتی جارہی ہے اور اس وجہ سے اسرائیل کا قیام دیرپا رہتا نظر نہیں آتا۔
سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ کچھ وجہ تو اسرائیل کا ظالمانہ اور بہیمانہ کردار رہا اور کچھ دیگر وجوہات۔ ان میں ایک وجہ پر میں اس مقالے میں روشنی ڈالنا چاہتا ہوں کہ کیا واقعی اسرائیلی اصلی یہودی ہیں؟ اگر وہ اصلی یہودی ہیں یعنی سیدنا یعقوبؑ کی اولادوں میں سے ہیں جو کہ فلسطین کے علاقے میں آباد تھے تو ایک نیوٹرل ذہن تسلیم کرتا ہے کہ ان کا حق بنتا ہے کہ وہ مقامات مقدسہ (Holyland) واپس چلے جائیں جو انہوں نے اپنا حق حاصل کرتے ہوئے 1948ء میں کیا اور اپنی ریاست قائم کی۔ تاہم اگر وہ اصلی یہودی تو ان کا کوئی حق نہیں اس مدع پر کافی بحث چھڑ رہی ہے۔ اس پر ماضی میں کئی کتابیں بھی تحریر ہوئی ہیں جن میں کافی تفصیل سے وضاحت کی ہے جس سے اسرائیلیوں کا اصلی یہودی ہونا مشکوک نظر آنے لگتا ہے۔ ایک اہم بات کی وضاحت لازمی ہے کہ یہودیت خواہ خود کو ایک مذہب قرار دے مگر یہ ایک مذہب کم اور ایک بہت بڑا خاندان، ایک نسل زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ ایک انسان اسی وقت یہودی مانا جاتا ہے جب اس کی ماں یہودی ہو۔ یعنی اگر ایک یہودی مرد کسی بھی حالات کے تحت ایک غیر یہودی لڑکی سے شادی کرنے پر مجبور تھا تو اُسے بچوں اور خود کو یہودی منوانے کے لیے کافی مزاحمت کا سامنا ہوگا۔ یہودیت میں عیسائیت یا اسلام کی طرح بالکل نہیں ہے کہ کلمہ پڑھ لیا، سارے گناہ معاف اور آپ کا ماضی ختم۔ اسی طرح یہودیت میں دیگر کئی بندشیں مزید ہیں جن کی وجہ سے ان کی تعداد ہمیشہ کم ہی رہی ہے۔ یہ اس لیے کہ یہودیوں میں مذہب تبدیل کرنے کا عمل (Religions Conversion) بہت کم ہے اور تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ اتنا آسان نہیں جتنا مسلمانوں میں ہے۔ مثلاً مسلمانوں میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اصلی مسلمان کسی خاص جغرافیائی علاقے کے ہی ہوتے ہیں کیونکہ اسلام ایک مذہب ہے۔ ایک آئیڈیالوجی ہے جبکہ یہودیت ایک نسل ہے اور اس کو مذہب بننے ہی نہیں دیا گیا لہٰذا جب یہ ایک نسل ہے تو اس میں لازمی اصلی یا نقلی کا فرق ہوگا۔ اسرائیل میں جو یہودی آباد ہیں ان میں 80فی صد اشکنازی (ashkenazi) ہیں۔ دوسرے بڑے گروپ کا نام سپفیر ڈک (sephardic) یہودی ہیں۔ اس وقت اسرائیل کے تمام کرتا دھرتا اشکنازی یہودی ہیں فوج میں، حکومت میں، وزارتوں میں سب جگہ اشکنازی یہودی ہی چھائے ہوئے ہیں۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر یہودیت کی بنیاد نسل پر ہے تو وہ حضرات جو خود کو خواہ کتنا بڑا یہودی گردانیں مگر اگر وہ نسلاً یہودی نہیں تو وہ یہودی نہیں۔ یہودیت کی ابتدا مشرق وسطیٰ سے ہوئی اور مشرق وسطیٰ میں عرب النسل سانولے رنگ کے لوگ یا سیاہ فام رہتے تھے۔ یہودیوں کے تمام انبیا سانولے رنگ کے مشرق وسطیٰ کے خدوخال کے حامل تھے نا کہ سفید فام نسل جو اس وقت اسرائیل پر راج کرتی نظر آتی ہے۔ قارئین میں سے کچھ کے ذہن میں یہ خیال آئے گا کہ ٹھیک ہے کہ ان کی ابتدا مشرق وسطیٰ میں ہوئی اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ سفید فام علاقوں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے مگر سفید فام علاقوں میں ہجرت کرنے سے یا وہاں رہنے سے ایک انسان کا ڈی این اے نہیں بدل سکتا۔ یاد رہے کہ سیاہ فام حضرات امریکا میں پندرویں صدی سے آباد ہیں، 6 صدیاں گزر جانے کے بعد بھی ان کے ناک نقشے اور جسمانی خدوخال میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا۔ تو یہ جواب بالکل درست نہیں کہ مشرق وسطیٰ سے نکل کر ان یہودیوں نے سفید فام علاقوں میں سکونت اختیار کی اور وہاں موسم کی وجہ سے پوری نسل بدل گئی محض 7 یا 10 صدیوں میں۔ وجہ کچھ اور ہے۔ جب اشکنازی آج کے دور میں، جب ڈی این اے ٹیسٹ کافی عام ہوچکا ہے، اپنا ڈی این اے ٹیسٹ کرواتے ہیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اندر 80 فی صد سفید فام خون شامل ہے یعنی ان کے آبائو اجداد سرے سے مشرق وسطیٰ کے تھے ہی نہیں۔
آرتھر کوئسٹلر (arthur koestler) نے ایک کتاب 1976 میں لکھی تھی جس کا عنوان تھا The Thirteenth Tribe جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ واقعی میں اشکنازی یہودی سرے سے نسلاً یہودی ہی نہیں۔ تقریباً 900 عیسویں کے لگ بھگ روس کے ایک مخصوص علاقے میں جہاں آج کل آذربائیجان اور تاجکستان اور دیگر وسط ایشیا کی ریاستیں شامل ہیں کافی مقامی لوگوں اور اشرافیہ نے بھی حالات کے مدنظر یہودیت قبول کی تھی۔ ان کا نسلاً کوئی تعلق مشرق وسطیٰ سے نہیں تھا۔ جب ان کی حکومت اور ریاست کو زوال آیا تو پھر یہ لوگ یہاں سے نکلے اور باقی تمام یورپ میں پھیل گئے۔ یورپ میں یہ لوگ اپنے خاص محلوں جن کو ghettos کہا جاتا تھا میں ہمیشہ باقی آبادی سے کٹ کر رہا کرتے تھے جس کے نتیجے میں ان کو ہولوکاسٹ سے گزرنا پڑا۔ اس کتاب کے شائع ہونے کے بعد تقریباً تمام اشکنازی یہودیوں نے اس کتاب کو جھٹلایا اور جھوٹ کا پلندہ کہا اور اس کے جواب میں بھی اعتراضات اٹھائے۔ مگر اس کے باوجود اس کتاب کو مکمل بین نہیں کیا جاسکا۔ دراصل یہ کتاب اس لیے شائع کی گئی تھی کہ انتہائی دائیں بازو کی ذہنیت رکھنے والے سفید فام نسل کی ہمدردی حاصل کی جائے۔ یہودیوں کا قتل عام جو ہٹلر نے دوسری جنگ عظیم کے اردگرد کیا تھا اس میں یہی نظریات پس منظر میں تھے کہ ہماری سفید فام نسل کو ان میلے کچیلے یہودیوں نے سود وغیرہ متعارف کروا کر گندہ کردیا وغیرہ وغیرہ۔ یہ کتاب اس کا جواب تھی کہ آخر ہم بھی نسلاً سفید فام ہیں اور سب کو نظر بھی آرہا ہے کہ ہم واقعی سفید فام ہیں۔
مگر اس کتاب اور اس میں موجود نظریے سے اسرائیل کا فلسطین پر آبائی حق بہت کم ہوگیا ہے اگر ہم مانتے ہیں کہ اسرائیل کی 80 فی صد آبادی دراصل وسط ایشیا کی ہے تو پھر وہ مشرق وسطیٰ میں کیا کررہے ہیں۔ اگر وہ اپنی آبائی زمین یا علاقے کی تلاش میں ہیں تو ان کا آبائی علاقہ تو روس کا علاقہ ہوا، وہ وہاں جائیں اور اسرائیلی حکومت قائم کریں۔ PLO کے سربراہ محمود عباس نے بھی ایک بار اپنی تقریر میں اسی نظریے کا ذکر کیا تھا جس سے اسرائیلیوں کی بہت دل شکنی ہوئی کیونکہ جس یہودی خون پر وہ اتنا فاخر تھے ان میں وہ موجود ہی نہیں۔پھر اگر zionist تحریک کے بانیوں کی طرف توجہ دی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ سب کے سب اشکنازی یہودی تھے۔
اب ذرا اسلامی تاریخ پر بھی یہودیوں کے بارے میں نظر دوڑانی چاہیے کیونکہ اسلامی تاریخ میں بھی کافی نامی گرامی مورخ گزرے ہیں۔ یہودی مدینہ اور ہر اس علاقے میں آباد تھے جہاں معیشت مضبوط تھی۔
مثلاً بغداد، دمشق، صنعا، قاہرہ وغیرہ۔ وہ نسلاً مشرق وسطیٰ کے لوگ تھے وہ چپٹی ناک والے چائنیز تھے نا کہ سیاہ فام افریقی اور نہ ہی سفید فام۔ غزوہ خیبر تک یہ آرام سے مدینہ میں زندگی گزار رہے تھے، غزوہ خیبر کے بعد بھی کچھ عرصے تک وہ مدینہ میں ہی مقیم رہے اور پھر بعدازاں جزیرہ عرب سے باہر چلے گئے۔ ان علاقوں میں بغداد، یمن، دمشق، ترکی، قاہرہ وغیرہ شامل ہیں۔ اس وقت عرب دنیا کا کوئی خاص رابطہ یورپ وغیرہ نہ تھا اور اسی لیے تاریخ میں کوئی ذکر نہیں ملتا۔ زیادہ تر یہودی تو اسلام قبول کرچکے تھے۔ یعنی مسلمانوں میں عبداللہ بن سبا کا ذکر ملتا ہے جو کہ ایک بہت بڑا فتنہ گزرا ہے اور وہ اسلام قبول کرنے سے پہلے یہودی تھا۔ بغداد، قاہرہ، دمشق، یمن میں یہودی کمیونٹی کافی خوش و خرم زندگی گزار رہے تھے۔ حتیٰ کہ 1941ء تک وہ ان علاقوں میں آباد رہے۔ جب 1948ء میں اسرائیل کی ریاست غیر قانونی طور پر قائم ہوئی۔ نکبہ ہوا اور کافی مسائل پیدا ہوئے تو اسی دوران ان تمام یہودیوں نے جو عرب علاقوں میں رہائش پزیر تھے حالات کے پیش نظر اسی میں عافیت سمجھی کہ اسرائیل کی طرف ہجرت کرلی جائے، ناچاہتے ہوئے بھی۔ یہ یہودی عرب کلچر میں کافی مکس ہو کر رہ رہے تھے۔ گھروں میں عبرانی کے بجائے عربی بولتے تھے۔ ان کا رہن سہن لباس عربوں سے کافی ملتا تھا۔ ان میں سے کافی یہودی اپنا سلسلہ نسب واپس مدینہ اور مدینہ سے واپس سیدنا یعقوب تک جوڑ سکتے تھے۔ یہ تھے اصلی یہودی، جن کو سائڈ لائن کردیا گیا۔ یہ جزیرہ عرب سے جب نکلے بھی تو یورپ کی طرف نہیں گئے تھے۔ تاریخ (مشرق یا مغربی) میں کوئی ذکر نہیں۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یورپ میں یہودیت خود ساختہ ہے۔ اب اگر اس پس منظر میں دیکھا جاتا تو یہ گتھی سلجھ جاتی ہے کہ آخر انتہائی دائیں بازو کے لوگ یہودیوں کی کیوں حمایت کررہے ہیں۔ دراصل وہ جانتے ہیں کہ یہ سفید فام دراصل انہی کے لوگ ہیں جنہوں نے صرف مذہب بدلا ہے جلد کا رنگ نہیں۔

a3w
a3w