’’ بہت نکلے میرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے‘‘

ہمارے شہر کے علماء اکابرین ، دینی تنظیمیں چند سالوں سے اس بات کی کوششوں میں لگی ہوئی ہیں کہ ہماری ملت میں ہونے والی شادی بیاہ کی تقاریب سے بے جا رسومات ، اسراف اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کا جذبہ خالہ پاشاہ کی بچی کی شادی جس پیمانے پر ہوئی تھی ہمارا پیمانہ اس سے دو قدم آگے ہونا چاہئے،یہی ہماری امی کی خواہش ہے…

محمد اسمٰعیل واجد

ہمارے شہر کے علماء اکابرین ، دینی تنظیمیں چند سالوں سے اس بات کی کوششوں میں لگی ہوئی ہیں کہ ہماری ملت میں ہونے والی شادی بیاہ کی تقاریب سے بے جا رسومات ، اسراف اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کا جذبہ خالہ پاشاہ کی بچی کی شادی جس پیمانے پر ہوئی تھی ہمارا پیمانہ اس سے دو قدم آگے ہونا چاہئے،یہی ہماری امی کی خواہش ہے…ان ہی بے جا خواہشات کو ختم کرنے کے لیے علمائ، اکابرین اور دانشور حضرات لگے ہوئے ہیں پھر بھی یہ خواہشات کا طوفان ارمان نکالنے کا جذبہ اپنی حدوں کو پار کرتا جارہا ہے ۔ اسی لئے اس صدی میں بھی مشہور شاعر مرزا غالب کا یہ شعر موجودہ حالات پر بھی نگینہ کی طرح فٹ بیٹھتا ہے ؎

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے

ہمارے معاشرے کی موجودہ دور میں یہ سب سے بڑی کمزوری ہوگئی ہے کہ شادی بیاہ کے موقع پر صرف ارماں نکالنا ، اس حد تک کہ چادر سے پیر باہر نکل جائیں ، مسابقت کا ایسا جذبہ جو ایک دوسرے سے نکل کر رشتہ داروں اوراڑوس پڑوس میں فروغ پانے میں دیر نہیں لگ رہی ہے اور وہ اس قدر فروغ پارہا ہے کہ لوگ کسی شادی کی دعوت میں شرکت کرنے کے فوراً بعد ہی پلاننگ کرنے لگتے ہیں کہ چھ ماہ بعد ہماری بھی لڑکی کی شادی ہے اور ہمیں بھی اپنے ارمان نکالنا ہے ہم کیوں کسی سے پیچھے رہیں، ہماری تقریب میں بھی اس سے زیادہ شان و شوکت نظر آنی چاہئے …

ہم بھی سانچق کے لئے کوئی اچھا شادی خانہ منتخب کریں گے ، شادی کے لئے بھی شہر کا کوئی بڑا شادی خانہ بک کریں گے اور اپنی آن بان شان اور معیار کا بھرپور مظاہرہ کریں گے کہ کوئی انگلی اٹھا کے نام نہ رکھ سکے… اس پیمانے پر اپنی لاڈلی کی شادی کے ارمان نکالیں گے یہی جذبہ ملت میں فروغ پارہا ہے اور ا سی جذبہ کے اٹھتے طوفان نے ملت کو کمزور بنایا ہے …اسراف کی ایسی عالیشان محفلیں کہ ذہن کام کرنا چھوڑ دے ۔ اس مہنگائی کے دور میں ایک لقمے کا ملناکسی کو مشکل نظر آتا ہے، کہیں دانے دانے کی محتاجی ہے اور کہیں شادی خانوں کے اردگرد پھینکے ہوئے کھانے نظر آتے ہیں جس سے کئی محتاجوں کا پیٹ بھر جائے۔ اسراف کے اس عظیم مظاہرے کے بعد دعوتی شکم سیر ہونے کے بعد بھی انگلی اٹھانے کی عادت نہیں بھولتے ۔ لڑکی کی والدہ کے ارمان نکل گئے والد کے دادی کے بھائیوں بہنوں کے ارمان نکل گئے پانچویں جمعگی سے پہلے سود خور کا گھر کے چکر کاٹنا شروع ہوگیا لیکن یہاں پھر بھی اسراف اور غیر شرعی دعوتوں کا سلسلہ جاری… یہ حال ہے ہماری ملت کے زیادہ تر لوگوں کا ،ایسے لوگوں کی اسراف زدہ ذہنیت پر مشہور شاعر امیر قزلباش کا یہ شعر یاد آتا ہے:

زندہ حقیقتوں کے تلاطم ہیں سامنے
خوابوں کی کشتیوں سے اُتر جایئے جناب

اسلام نے ہمیں ایسی خوشیاں بھی سادگی سے منانے کی ترغیب دی ہے ،شرعی اصولوں پر چلنا ہماری ذمہ داری ہے ۔ اسلام کا کہنا ہے کہ ’’ نکاح کو اتنا آسان کردو کہ زنا مشکل ہوجائے ‘‘ لیکن ہم ہیں کہ شیطان کے راستے اپنائے ہوئے ہیں بے جا رسومات کو ہی ہم اپنا عقیدہ بنائے ہوئے ہیں ۔ آج بھی بہت سے گھروں میں باجے گاجے کے بغیر شادی کا تصور ہی نہیں ، پھر اب تو اعلیٰ درجے کی فوٹو گرافی ویڈیو گرافی جو نکاح جیسی سنت کو اپنی چرب زبانی کے ذریعہ زندگی کے یادگار لمحوں کو کیمرے میں قید کرلینے کا نام دے کر لاکھوں روپئے کا اسراف کرنا ، پردہ نشین خواتین کو کیمرے کے سامنے لا دینا اور بعد میں غیر مردوں کا اس تقریب کا ویڈیو دیکھنا کیا یہ سب شرعاً جائز ہے ؟

ایسے سوال ہونے پر جواب آتا ہے یہ ایک ماڈرن تہذیب ہے پھر آج کل تو ماڈرن تہذیب کے انداز ویڈیو گرافر بھی سکھانے لگتے ہیں ۔ ہم نے ایک شادی کی تقریب میں فلمبندی دیکھی جس کے ڈائرکٹر ویڈیو گرافر صاحب تھے جو دولہے کے والدین کو ہدایت دے رہے تھے، انہوں نے دلہے کی والدہ سے کہا: آنٹی آپ اس جانب سے آیئے اور انکل آپ اس جانب سے دونوں ایک دوسرے کو سلام کیجئے، اسی سے ہمارے ویڈیو کی شروعات ہوگی پھر بعد میں دلہا دلہن کے مناظر آئیں گے ۔ اس طرح آج ارمان نکالنے کے نام پر گناہوں کی دلدل میں اپنے آپ کو ڈھکیلا جارہا ہے ۔

ولیمہ کا ہار :یہ لعنت بھی ہمارے معاشرے میں جڑ پکڑ چکی ہے،، ولیمہ کا ہار دولہے کے دوست یا عزیز و اقارب باجے گاجے مرفع نوازی اور آتش بازی کے ساتھ آتا ہے جس میں بے تکا رقص کرنا دلہے کے دوستوں کے علاوہ دلہے کے بھائی بسا اوقات دلہے کے والد کو بھی ولیمہ کے ہار کے سامنے رقص کرنے پر مجبور کردیا جاتا ہے یہاں بھی یہ کہا جاتا ہے :’’ خوشیاں ہیں ارمان نکالنا ہے ‘‘یہاں اسراف کی ایک اور بھیانک شکل سامنے آتی ہے رقص کرنے والے کے منہ میں نوٹ اور پھر دلہے پر سے نوٹ برسائے جاتے ہیں، شاید اسی کو کہتے ہیں ارمان نکالنا اب ایسے ارمان ہمارے ملت کے گھروں سے نکلے تو پھر اس معاشرے کا ہوگا کیا ؟یہ تو معاشرہ ہی جانے… شاید ان ہی گناہوں کی سزاء آج ہمیں دنیا میں ہی مل رہی ہے غیروں کے سامنے ہم رسواء ہورہے ہیں، ذلیل و خوار ہورہے ہیں، دینی تعلیم سے دوری نہ جانے ہمیں اور کن کن رسوائیوں کی طرف ڈھکیلے گی، اب ہمارا حال تو ایشیاء کے مشہور شاعر احمد فراز کے اس شعر کی طرح دکھائی دیتا ہے :

اب وہاں خاک اُڑاتی ہے خزاں
پھول ہی پھول جہاں تھے پہلے

ایسا بھی نہیں ہے کہ معاشرے سے بے جا رسومات کا خاتمہ مہم میں علماء اور دانشور حضرات کے ہاتھوں صرف ناکامی آئی، کامیابیاں بھی ملیں ۔ معاشرے کے بعض نوجوانوں نے نکاح جیسے مقدس موقع پر بے جا رسومات سے اجتناب کیا ،اسراف سے دامن بچایا ،لین دین سے دوری اختیار کی اور سادگی سے بھرا مثالی نکاح کیا۔ شہر میں ایسے نکاح بھی ایک عرصہ سے ہورہے ہیں لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے ۔حال ہی میں ہمارے شہر کی ایک مشہور شخصیت نے اپنے لڑکے کی شادی سادگی سے کی اور اس اہم فریضہ کی ادائیگی کی خوشی میں انہوں نے چند غریب لڑکیوں کا نکاح اپنے ذاتی خرچ پر کروایا… یہ ملت کے لئے ایک عظیم کام ہے، اس کی مثال لیتے ہوئے ملت کے مالدار لوگوں کو آگے آنا چاہئے تاکہ معاشرے میں سدھار ہو اور غریب و نادار لڑکیاں بھی نکاح کی سنت ادا ہونے کے بعد ازدواجی زندگی گذار سکیں ۔

کچھ عرصہ قبل ہمارے شہر کے مشہور خوشنویس نے اپنے لڑکے کا نکاح کیا ۔ نکاح کی تقریب بنگلور شہر میں لڑکی والوں کے گھر پر انجام پائی حالانکہ بنگلور شہر بھی پرتعش شادیوں کے لئے شہرت رکھتا ہے لیکن خوشنویس صاحب نے لڑکی والوں سے مطالبہ کیا تھا، نکاح کی تقریب انتہائی سادگی سے منعقد کی جائے ،لین دین یا کسی قسم کے مطالبات سے انہوں نے اجتناب کیا ۔ نکاح کی محفل لڑکی کے گھر پر منعقد ہوئی ، انتہائی سادگی کے ساتھ اور حیدرآباد کے ایک غیر معروف شادی خانہ میں تقریب ولیمہ بھی انتہائی سادگی کے ساتھ منعقد ہوئی ۔ جہاں نہ کوئی ولیمہ کا ہار تھا اور نہ باجا گاجا شور شرابہ تھا… ایک پر سکون ماحول تھا اسراف سے پرہیز کیا گیا تھا، اس محفل ولیمہ میں شرکت کرنے والے تقریباً افراد کا یہ احساس تھا کہ کاش! ہمارے شہر میں ایسی سادگی کے ساتھ نکاح اور ولیمہ کی محافل منعقد ہوں جس کا مقصد صرف سنت نبویؐ کی تکمیل ہو ۔ ارمان نکالنا خواہشات کی تکمیل اماں کے ارمان ، دادی کے ارمان ، نانی کے ارمان جیسے جملوں کی آڑ میں بے جا رسومات اسراف کو در کنار کرکے اگر ہم سادگی کے ساتھ محفل نکاح و ولیمہ منعقد کریں تو ہمارے قدم ایک صالح معاشرے کی طرف بڑھیں گے اور گھروں میں بیٹھی ہزاروں غریب لڑکیوں کے نکاح کے مسائل بھی حل ہوں گے …
٭٭٭