طنز و مزاحمضامین

تلاشِ گمشدہ

مظہر قادری

ایک بیوقوف سڑک پر الکٹرک پول کے نیچے بہت دیرسے کچھ ڈھونڈ رہاتھا توایک راہ گیرنے پوچھاکیا ڈھونڈرہے ہو توبولاکہ سوروپئے کا نوٹ گم ہوگیاہے، وہی ڈھونڈ رہا ہوں تو راہ گیر نے پوچھاکیایہیں گراتھا توبولانہیں گھرمیں گراتھا، لیکن وہاں اندھیراہے اوریہاں روشنی اس لیے یہاں ڈھونڈ رہاہوں۔ ہم سب آج کل بیوقوف ہوگئے ہیں۔ ہمارے اخلاق گھرمیں گم ہوگئے ہیں اورہم کلبوں میں،ہوٹلوں میں،روڈوں پراورمحفلوں میں ڈھونڈرہے ہیں۔ ہم نے بہت سی چیزیں کھودیں مگر برداشت کرتے رہے، ڈھونڈتے رہے اورنہ ملنے پر اسے بھولتے رہے، لیکن جب خلوص گم ہوگیا توہماری برداشت جواب دے دی اورہم نے خلوص کے لیے تلاشِ گمشدہ کا ہرجگہ ایسااشتہاردے دیا۔۔۔
انتہائی افسوس کے ساتھ یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ ”خلوص“ گم ہوگیا ہے۔اس کی عمر ہزاروں سال پرانی ہے۔ پہلے بہت تندرست تھا لیکن کچھ عرصے سے بہت کمزوراورلاغرہوگیا ہے۔گھرمیں موجود ”خودغرضی“ کے ساتھ ان بن ہوجانے پر ناراض ہوکر بغیر کسی کو کچھ اطلاع دیے کہیں نکل گیاہے۔ایسا محسوس ہوتاہے کہ خودغرض انسان کے جنگل نے اسے نگل لیاہے،اس کا چھوٹا بھائی ”اخوت“ اوربہن ”حب الوطنی“ سخت پریشان ہے۔اس کے سارے دوست محبت، مہربانی،پیاروغیرہ اسے ہر جگہ بے قراری سے ڈھونڈرہے ہیں۔آخری وقت میں اس کو اس کے جگری دوست ”بھائی چارگی“ کے ساتھ دیکھاگیاتھا۔یہ دونوں دوست خلوص اوربھائی چارگی سماج کے تانے بانے کو صدیوں سے جوڑے رکھے تھے،اورکسی کی مجال نہیں ہوئی تھی کہ اس میں کبھی رخنہ ڈالے، لیکن خلوص کے اچانک گم ہوجانے سے یاشاید کسی کے غائب کردینے سے ان کے صدیوں پرانے دشمن جو ان کی جان کے درپے تھے، ان کی بن آئی ہے اور ان کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ”تعصب، ہوس اورتفریق“ سے مل کر ہرجگہ تباہی مچارکھی ہے۔ ان حالات کا شدید صدمہ لے کر ان کی جڑواں بہن ”شرافت“ کا انتقال ہوگیاہے اورشرافت کی موت کے غم میں گھرکی نوکرانی ”حیا“ بھی چل بسی۔خلوص کا بڑابھائی ”انصاف“ اپنے چھوٹے بھائی کے جدائی کے غم میں روروکے اندھاہوگیا ہے۔ان کے والد ”معاشرے“ کو سمجھ میں ہی نہیں آرہاہے کہ وہ کیا کرے، کس کو سنبھالے، کس کو سدھارے،افراتفری میں پھررہے ہیں۔فکرہورہی ہے کہ کہیں وہ بھی کسی ہجوم میں نہ کچلے جائیں۔خلوص کی والدہ ”انسانیت“ جس نے خلوص کو اپنی کوکھ سے جنم دیاتھا‘خلوص کی گمشدگی کی وجہ سے سخت بیمارہیں اورمرنے سے پہلے ایک بار اپنے گوشہئ جگرکو واپس آتادیکھنا چاہ رہی ہیں۔ان کی والدہ انسانیت کاخیال ہے کہ اگران کا لخت جگرخلوص واپس آگیا توانسانیت کو دوسری زندگی مل جائے گی۔ہم سب یہ کوشش کررہے ہیں کہ خلوص جہاں کہیں بھی ہو اسے ڈھونڈکرلاکر والدہ کے پاس پہنچادیں ورنہ انسانیت دم توڑدے گی۔حیاکے مرجانے سے اس کی بہن شرم کی آنکھوں کا پانی مرگیاہے اورپتہ نہیں کہاں وہ اپنا منہ چھپاتے پھررہی ہے۔جس طرح صدرِ خانہ کی اچانک موت سے بچوں کا اسکول چھوٹ جاتا،خاندان والے چھوٹ جاتے ہیں اورایک خوبصورت بسابسایاگھرمنٹوں میں اجڑجاتا،اسی طرح خلوص کے غائب ہوجانے سے ساراسماجی نظام درہم برہم ہوکر رہ گیاہے۔جب انسان بوڑھا اورکمزورہوجاتاہے توایک بیماری سے نجات پائے تک دوسری بیماری اس کے کسی کمزورعضوکو متاثرکردیتی ہے اوراسے سنبھلنے نہیں دیتی۔یہی حال خلوص کے گم ہوجانے سے معاشرے کا ہوگیا ہے۔ سارے دشمن جیسے تعصب،تنگ نظری،خودغرضی اوردہشت ہرجگہ قبضہ جمارہے ہیں۔ خلوص اوراتحادجوان دشمنوں کا ہمیشہ سینہ سپر ہوکر مقابلہ کرتے تھے اورکبھی پنپ نے نہیں دیتے تھے، اب خلوص کے گم ہوجانے سے ہرجگہ سے اُبل اُبل کرنکل رہے ہیں۔تقدیربھی صرف ان پر مہربان ہوتی جوکوئی تدبیر کرتے لیکن ایسامحسوس ہورہاہے کہ سب خلوص کی تلاش اورامیدسے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں اوردنیا امن سے شرکی طرف بڑھتی جارہی ہے۔خلوص کا کوئی ملک نہیں تھا، کوئی مذہب نہیں تھا، اس کے غائب ہوجانے سے ہرکوئی نفسانفسی کا شکار ہوگیاہے۔کسی کو کسی سے ہمدردی نہیں رہی۔سب اپنی دال پر روٹی کھینچ رہے ہیں،بچوں کے لیے ماں باپ اجنبی ہوگئے ہیں،پڑوس سے پڑوسی اجنبی ہوگئے ہیں،رشتے داریاں ختم ہوگئی ہیں،محبت ختم ہوگئی، اتحادکی جگہ تفریق آگئی۔خلوص اوربھروسہ ہمیشہ مل جل کر رہتے تھے جس کی وجہ سے دھوکے کی ہرتدبیر ناکام ہوجاتی تھی، لیکن خلوص کے غائب ہوتے ہی دھوکہ بھروسے کے سرپر چڑھ کر بیٹھ گیا اورجوجوجس جس پربھروسہ کررہاہے اس بھروسے کو ناش کرکے دھوکہ دے رہاہے۔خلوص بوڑھا اوربیمارہوجانے کے باوجودبھی تمام برائیوں کو روک کر رکھاتھا،اس لیے وہ جیسابھی ہو اسے فوراً ڈھونڈکر لاؤ تاکہ بری طاقتوں کا ازالہ ہواوردنیا پھرایک باررہنے کے قابل جگہ بن جائے۔۔۔
شاید اسی کا نام فریبِ تلاش ہے
دل میں رہے وہ اور نظر ڈھونڈتی رہی