مضامین

روہنگیا : کتنے آتشِ پنہاں ابھی باقی ہیں!

ڈاکٹر سید وسیم باری

بنگلہ دیشی پناہ گاہوں سے انڈونیشیا پہنچنے کی خواہش میں سال ۲۰۲۲ میں سمندر کی نذر ہونے والے روہنگیا لوگوں کی تعداد سال ۲۰۲۱ کے مقابلے چھ گنا سے بھی زائدہوگئی۔ یہ ایک منصوبہ بند نسل کشی ہے جس کو انجام تک پہنچانے کے لیے کئی دہائیوں سے محنتیں جاری ہیں۔ روہنگیا قوم میانمار (برما) کے بدھشتوں کے مقابلے بااعتبارِ مذہب و نسل علاحدہ ہیں۔ میانمار کی مسلم آبادی میں روہنگیا سب سے زیادہ تناسب رکھتے ہےں۔ ارکان، رکھائین کا قدیم نام، برما کے بقیہ حصہ سے یوما پہاڑی سلسلے کے ذریعے ملک کے جنوب مغرب میں قدرتی طور پر علاحدہ ہے۔ یہ ایک اہم سبب ہے کیوں روہنگیا بقیہ برما سے علاحدہ تہذیب و شناخت رکھتے ہےں۔ عہدِ وسطیٰ میں برما کی طرح ارکان ایک بدھست ملک تھا۔ ۱۴۰۶ میں ایک حملے کے سبب ارکان کے بادشاہ نے فرار ہوکر پڑوس کی مسلم ریاست بنگال میں پناہ لی، جہاں اسلامی نظریات سے متاثر ہوکر اس نے اسلام قبول کیا۔ بعدازاں بنگالی فوج کی مدد سے وہ ارکان پر دوبارہ قابض ہوگیا۔ ظلم کے پہاڑ ٹوٹے ۱۷۸۴ میں جب برما کے بادشاہ بوڈو¿پایا نے ارکان پر حملہ کرکے اسے برما میں شامل کرلیا۔ نتیجتاً ہزاروں لوگوں نے فرار ہوکر اس وقت کی برطانوی نوآبادیات بنگال میں پناہ لی۔ ایک خیال ہے کہ روہنگیا دراصل ترک، مغل اور ایرانی ہیں جو بنگالیوں کے ساتھ نویں صدی میں برما آکر بس گئے۔ متعصب لوگوں کا دعویٰ ہے کہ روہنگیا بنگالی مہاجر ہیں جو برطانوی دورِ حکومت میں غیر قانونی طور پر برما آکر بس گئے۔ دونوں خیال درست ہوسکتے ہیں کیونکہ برما پر انگریزوں کے قبضے کے بعد بھارت اور برما دو علاحدہ حکومت کی حیثیت نہیں رکھتے تھے بلکہ ایک ہی ملک تھے پھر چاہیں لوگ کہیں بھی جائےں۔ یہ ۱۸۸۶ کا سال تھا جب انگریزوں کے تیسرے حملے کی تاب نہ لاتے ہوئے برما انگریزی حکومت کا حصہ بن گی۔ اپنے دورِ حکومت میں برطانیہ نے برما کی اکثریت کو نظر انداز کرتے ہوئے اقلیتوں کو فوقیت دی۔ یہیں سے روہنگیا کی آج کی صعوبتوں کا سامان تیار ہوگیا۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران جب جاپان نے برما پر حملہ کیا تو وہاں کی اکثریت کے رہنما آنگ سان نے اپنی فوج کے ساتھ جاپان کا ساتھ دیا جبکہ نسلی اقلیتوں نے برطانیہ کے ساتھ وفاداری نبھائی۔
آج کی تاریخ میں بنگلہ دیش میں روہنگیا پناہ گزینوں کی تعداد دس لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے، اسے دنیا کے سب سے بڑے پناہ گزین کیمپ کا درجہ حاصل ہے۔ روہنگیا جنھیں میانمار کی فوجی سرکار بے وطن قوم کے لقب سے نوازتی ہے اور جنھیں اقوام متحدہ دنیا کی سب سے زیادہ ستائی ہوئی قوم کہتی ہے۔ آج تھائی لینڈ، ملائشیا، انڈونیشیا، بھارت، نہ جانے اور کتنے ممالک میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ملکِ شام کے پناہ گزیں ہوں یا روہنگیا ےا یمن یا کوئی اور، جہاں بھی پناہ گزیں کے نام پر خیمے لگے ہیں ان میں مسلمان ہی ہیں۔ لبنان، شام اور عراق اس طرح ملکِ شام کی تقسیم کے بعد جولائی ۱۹۲۰ میں فرانس کے جنرل ہنری گو¿راڈ نے دمشق میں سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کی مزار پر ٹھوکر مار کر ایک تاریخی جملہ کہا تھا، ’جاگ، صلاح الدین! ہم دوبارہ یہاں ہیں!!‘ گزشتہ سو برسوں میں صرف اتنا بدلا ہے کہ ٹھوکر تو مسلمانوں کو ہی ماری جارہی ہے، انداز الگ ہیں اور مسلمان در در بھٹکنے پر مجبور ہیں!!
میانمار میں روہنگیا کی آبادی لگ بھگ ۲۰ لاکھ ہے، جس میں سے آٹھ لاکھ ریاستِ رکھائین کے شہری ہوا کرتے تھے۔ روہنگیا خود کو میانمار کے شہری کہتے ہیں لیکن حکومت انھیں غیر قانونی مہاجر کہتی ہے۔ ۱۹۴۷ میں برطانوی حکومت سے آزادی کے اعلان کے بعد آنگ سان نے متحدہ برما کی تشکیل کی غرض سے مختلف نسلی اقلیتوں کو ساتھ لانے میں کامیابی حاصل کی، تاہم آنگ سان کا قتل ہوگیا۔ بالآخر ۱۹۴۸ میں برما آزاد ہوا۔ سن ۱۹۶۲ تک برما میں جمہوری حکومت کا قیام رہا بعدازاں فوج نے اس پر قبضہ جمالیا۔ جنرل ن¿ے وِن نے جمہوری نظام کا خاتمہ کرتے ہوئے تمام سیاسی پارٹیوں پر پابندی عائد کردی۔ اسی سال باقاعدہ جمہوریت کے نام پرنئے آئین کے ذریعے آمرانہ نظام کی بنیاد ڈالی گئی۔ برطانوی دور میں حکومت کی اقلیتوں پر عنایتیں اور بدلے میں اقلیتوں کی برطانوی حکومت کے ساتھ وفاداری، برما پر فوج کے غلبے کے بعدرنگ لانے لگیں۔ حکومت سے بے رخی کا معاملہ تو تمام اقلیتوں سے منسلک تھا لیکن نزلہ بَر عُضوِ ضَعِیف کے مترادف بے رخی کا ٹھیکرا روہنگیا مسلمانوں پر پھوڑا گیا۔ مسلمانوں پر بڑھتے مظالم کے سبب بین الاقوامی دباو¿ کو گمراہ کرنے کے لیے برما کی فوجی حکومت ہر بار نئی تنظیم کے پسِ پشت اپنے متعصب پروگرام کو عمل میں لاتی رہی۔ فوجی حکومت نے ایک انقلابی کونسل بنائی جو ۱۹۷۴ میں برما سوشلسٹ پروگرام پارٹی (BSPP) میں ضم ہوگئی۔ اسی سال آئین میں ترمیم کے تحت کچھ اختیارات نام نہاد عوامی کونسل کو تو دیے گئے لیکن پسِ پشت BSPP ہی موثر رہی۔ باغیوں کو کچلنے اور بدھ مذہب کو ریاستی مذہب بنانے کی سعی میں ۱۹۷۷ میں Operation Nagamin نام کی مہم کا آغاز کیا گیا جس کے تحت اقلیتوں بالخصوص روہنگیا کی تنظیموں پر پابندیاں لگائی گئیں اور افسروں کو اختیارات دیے گئے کہ لوگوں کی شہریت سے متعلق دستاویزات کی جانچ کریں۔ اسی سخت گیر مہم کا نتیجہ تھا کہ ۱۹۷۸ میں تقریباً ۲لاکھ افراد کا سیلاب برما سے بنگلہ دیش میں پناہ کے لیے داخل ہوا۔ سن ۱۹۸۲ میں فوجی سرکار نے ترمیم کے ذریعے شہریت کے لیے نسل پرستی و قوم پرستی کو کسوٹی بنادیا۔ ۱۹۶۲ میں بشمول روہنگیا جہاں ۱۴۴ نسلیں قانونی طور پر تسلیم کی جاتی تھیں وہیں ۱۹۸۲ میں روہنگیا کے استثنا کے بعد ۱۳۵ نسلوں کو ہی قانونی طور پر قبول کیا گیا۔ اس قانون نے روہنگیا کو بیرون ملک باشندے کے لیبل کے تحت بے وطن بنادیا۔ قوموں کے تصادم میں سرکار جب اپنی بقاءتلاش کرتی ہے تب رشوت خوری و حرام خوری کا بازار گرم ہوجاتا ہے اور نظم و ضبط و معاشی نظام درہم برہم ہوجاتے ہےں۔ برما میں بھی یہی ہوا۔ ۸۰ کی دہائی میں برما دیوالیہ ہونے لگا۔ عوامی بے چینی نے ملک بھر میں احتجاج کا روپ لے لیا جس میں طلبا بالخصوص شامل تھے۔ جولائی ۱۹۸۸ میں ن¿ے وِن نے BSPP کی صدارت سے استعفیٰ دےدیا۔ ن¿ے وِن کے استعفے کے باوجود فوج پر حکمرانی کا جذبہ غالب رہا۔ فوج نے ایک نئی پارٹی The State Law & Order Restoration Council (SLORC) کے قیام کے ذریعے حکومت قائم رکھی۔ ۱۹۹۰ میں بالآخر فوج کو انتخابات کا اعلان کرنا پڑا جس میں آنگ سان کی بیٹی اور National League for Democracy (NLD) کی سربراہ سوچی کو بھاری اکثریت سے کامیابی ملی۔ لیکن فوج نے اسے قبول نہیں کیا اور بشمول سوچی منتخب شدہ اکثر لیڈران کو قید کرلیا گیا۔ فوج اپنی حکومت کو قائم رکھنے کے لیے دوبارہ نئی پارٹی State Peace & Development Council (SPDC) کے ساتھ سامنے آئی۔ بلوائی فوج میں ہوں اور فوج سرکار بھی چلائے تو ملک کنگال ہوتا ہے اور بلوائیوں کی سرکار کو قائم رکھنے کے لیے قربانی بھی مانگتا ہے۔ جمہوریت ملک کو اکثریت کا لیبل دینے لگی ہے اور اکثریت کو خوش رکھنا لازمی ہے لہٰذا قربانی بھی اقلیت کی ہوتی ہے۔ میانمار میں فوج نے سماجی و معاشی میدان میں اپنی ناکامی پوشیدہ رکھنے کے لیے بدھ مذہب کو وطن پرستی سے جوڑا۔ اکثریت کو خوش کرنے کے لیے مسلمانوں کو ان کے سامنے پَروسا۔ نام نہاد بدھ پرستی و قوم پرستی کے لیے برما میں نفرت پھیلانے والی تنظیمیں قائم ہوئیں۔ ان تنظیموں میں 786 کی مخالفت میں 969 اور بدھ راہب یو وِراتھو کی MaBaTha (اختصاراً) جیسی زعفرانی تنظیمیں پیش پیش تھیں۔ اسلام مخالفت کے ذریعے نسلی، مذہبی و قومی شناخت کی بنیاد رکھی گئی۔ یو وِراتھو نے بدھ مذہب کو اسلام سے خطرہ بتایا۔ روہنگیا کے خلاف روزافزوں تشدد عروج پر پہنچ گیا۔ ۲۰۱۲ میں بدھسٹوں نے جب شرپسندی کی حدیں پار کرتے ہوئے ۲۰۰ روہنگیا کو ہلاک اور لگ بھگ دیڑھ لاکھ کو بے گھر کردیا۔ عام حالات میں بھی برما میں مسلمانوں نے کہیں کا سفر کرنا ہوتب بھی افسروں سے اجازت لازمی، سفر کے دوران بار بار تلاشی، تعلیمی اداروں کے دروازے بند، نقل وحرکت روہنگیا علاقوں تک محدود، حقِ رائے دہی معدوم اور سرکاری نوکری محض ایک خواب ہے! بین الاقوامی دباو¿ کے سبب فوجی حکومت کے صدر تھی¿ن سین کو سوچی کو آزاد کرنا پڑا اور ۲۰۱۲ میں بعدازاں ۲۰۱۵ کے انتخابات میں NLD کو بھاری کامیابی حاصل ہوئی لیکن روہنگیا مسلمانوں کوراحت نہیں ملنا تھی نہ ملی اور خود سوچی میانمار کی نام نہاد سربراہ ثابت ہوئیں نہ شرپسند بلوائیوں پر قابو کیا اور نہ ہی مسلمانوں کے لیے راحت کا سامان کیا۔ دہلی کے کجریوال کی طرح مسلمانوں کے نام پر چپی سادھ لی۔ ۲۰۱۷ میں تشدد کی لہر سونامی بن کر ابھری۔ اس بار الزام Arakan Rohingya Salvation Army (ARSA) پر تھا کہ ARSA کے دہشت گردوں نے رکھائین کے پولس اسٹیشنوں پر حملہ کردیا۔ فوج کی طرف سے دہشت گردوں کے انخلا کے لیے کارروائی ہوئی۔ ۶۷۰۰ روہنگیا مارے گئے جس میں ۷۰۰ بچے شامل تھے۔ کئی گاو¿ں صفحہ¿ ہستی سے غائب کردیے گئے۔ بدلے کی کاروائی کے تحت کئی لڑکیوں اور عورتوں کی آبرو ریزی عام کردی گئی۔ نتیجتاً لگ بھگ سات لاکھ روہنگیا نے پناہ کے لیے بنگلہ دیش کی راہ لی۔ میانمار کی نام نہاد سربراہ اور امن نوبل انعام یافتہ سوچی نے نسل کشی کے تمام الزامات سے انکار کیااور داغ دار فوج کا دفاع کرتے ہوئے عالمی برادری پر ہی الزام عائد کیا کہ وہ اپنی تنقید سے میانمار کے بدھست اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کو ہوا دے رہے ہیں۔ یقینا وہ اکثریت کو خوش کرنا چاہتی تھیں۔ فوجی حکومت نے آنگ سان سوچی کو مختلف الزامات کے تحت دوبارہ قید کرلیا۔
جب نسل پرستی، مذہب اور جارحانہ قومی عصبیت کسی ملک میں قومی شناخت کا بہانہ بنتے ہےں تب صورتحال کے اعتبار سے سری لنکااور میانمار جیسے ممالک کا جنم لینا حےرت انگیز امر نہیں ہے۔ کسی لکیر کو چھوٹا کرنے کے لیے اس کے متوازی ایک بڑی لکیر کھینچنے کا طریقہ بھول کر لوگ جب اس لکیر کو ہی مٹانے کے دم پر ہوتے ہیں تب نسل پرستی کے نام نہاد جذبے سے سر شار لوگ نسل کشی کو اپنے جذبات کی نکاسی کا ذریعہ بناتے ہیں۔ ان گنت خونخوار و ہیبت ناک جرائم روزمرہ کے معاملات ہوجاتے ہیں۔ یہ نفسا نفسی کے دور کا ہی کمال ہے کہ ظلم کے خلاف آواز اُٹھانا کسی کے معاملات میں دخل اندازی کے نام پر معےوب اعمال کی فہرست میں شامل ہے۔ ہر دور جدوجہد کے لیے اپنے الگ انداز رکھتا ہے۔ زمانہ¿ قدیم میں جنگ و قتال کو فوقیت حاصل تھی۔ بعد کے زمانے میں جھوٹ، فریب و مکر کا اس میں اضافہ ہوا اور گوروں نے زمین کے ایک بڑے حصے پر اپنا سکہ جمالیا۔ دورِ جدید میں ہتھیاروں کی جمع خوری، علم، تحقیق، ایجادات، صنعت و معیشت کی بالادستی نے جنگ کی بجائے محض رعب و دبدبے کو ہی ملک و قوم کے لیے مفادات کے حصول کا ذریعہ بنا دیا۔ عالمی سطح پر قومِ یہود جبکہ عیسائیوں کا امریکہ و ےوروپ اس بابت سرِ فہرست ہیں۔ جنوبی افریقہ میں گورے اقلیت کے باوجود اپنا رعب قائم رکھے ہوئے ہیں۔ میانمار کی طرح جن کے پاس علم، تکنیک، معیشت وغیرہ کے میدان میں نمایاں کام نہیں ہیںوہ دنگا، فساد، آبروریزی وغیرہ کے ذریعے خوف کو دبدبے کا ہتھیار بناتے ہیں۔ دنیا کو رواں دواں رکھنے کے لیے ضروری ایندھن کی پیداوار کے ذمہ دار عرب عالمی سطح پر اور مسلمانانِ ہند ملکی سطح پر رعب و دبدبے سے عاری ہیں۔ بقاءکے لیے جو درکار ہے وہی غائب ہے تب کیا سری لنکا، کیا میانمار، نہ جانے زمین کے ایسے کتنے ٹکڑے ہونگے جہاں آتشِ پنہاں لاوا اگلنے کو بیتاب ہیں۔
٭٭٭

a3w
a3w