سیاستمضامین

یوکرین جنگ نے اقوام عالم کو نئے دوراہے پر لاکھڑا کردیا’’ برکس‘‘ عالمی مالیاتی اداروں کیلئے خطرے کی گھنٹی!

محبوب احمد

قدیم نظام ہائے حکومت میں چونکہ ایک بادشاہ فقط اپنی ذات بابرکات کو ہی تمام تر ریاستی طاقت کا سرچشمہ سمجھتا تھا لہٰذا اس کے لئے اپنی رعایا کے سامنے کسی دوسرے ملک کے بادشاہ کے ساتھ سیاسی و دفاعی اتحاد قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کرنا بھی ایک بڑی خامی یا کمزوری پر محمول کیا جاتا تھا مگر جدید نظام ہائے حکومت میں ’’ اتحاد میں برکت ہے‘‘ والی ضرب المثل عالمی سیاسیات کا مرکز و محور قرارپاچکی ہے بلکہ یہ کہنا عین قرین قیاس ہوگا کہ آج کل تمام تر عالمی سیاست ہی مختلف ممالک کے درمیان قائم ہونے والے متنوع قسم کے معاشی ‘ دفاعی ‘ ثقافتی اور سیاسی ’’ اتحادوں‘‘ کے گرد گھوم رہی ہے۔ دنیا کے نقشہ پر موجود ممالک میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو کسی نہ کسی عالمی اتحاد سے وابستہ نہ ہو۔ عالمی اعداد و شمار جمع کرنے والے تحقیقی ادارے ’’ ورلڈ ڈیٹا انفو‘‘ کے مطابق اس وقت معاشی ‘ سیاسی‘ تہذیبی اور دفاعی معاملات کے تحفظ اور فروغ کیلئے 31 عالمی اتحاد موجود ہیں جن میں سے ایک 5ملکی سربراہی اتحاد (BRICS) بھی ہے۔ برازیل ‘ روس‘ ہندوستان‘ چین اور جنوبی افریقہ پر مبنی ممالک کا یہ اتحاد دنیا کی کل آبادی کا 41فیصد ڈی ڈی پی کا 24 فیصد بین الاقوامی تجارت کا 16فیصد ہے۔ ’’ برکس‘‘ ممالک اس بات پر منقسم ہیں کہ وہ مغربی ممالک کے ساتھ کیا سلوک روا رکھیں۔ روس برکس کو مغرب کے خلاف اپنی لڑائی کے ایک حصہ کے طور پر دیکھتا ہے جو یوکرین پر حملہ کرنے کے لئے اس پر عائد پابندیوں پر قابو پانے میں اس کی مدد کرتا ہے۔ روسی تیل کی درآمد پر مغربی ممالک کی پابندیوں کے بعد ہندوستان اور چین اس کے سب سے بڑے گاہک بھی بن گئے ہیں۔ ماسکو نے فروری2023ء میں چین اور جنوبی افریقہ کے ساتھ مشترکہ بحری مشقیں بھی کیں تاہم اس کے دیگر ارکان نہیں چاہتے کہ یہ واضح طور پر مغرب مخالف معاہدہ بن جائے کیوں کہ جنوبی افریقہ ‘ برازیل اور ہندوستان منقسم دنیا نہیں چاہتے ان کے مطابق ایسا کرنا ان کی سلامتی اور خوشحالی کے لئے درست نہیں ہوگا۔ ’’ برکس‘‘ ایک خصوصی گروپ ہے جس میں نئے اراکین کو تسلیم کرنے سے اس کا اثر کمزور نہیں پڑے گا کیوں کہ حقیقت میں طاقت کا توازن اب مغرب سے دور ہورہا ہے جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ زیادہ ترقی پذیر ممالک بڑھتی ہوئی طاقتوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
روس یوکرین جنگ نے دنیا کو ایک نئے دوراہے پر لاکھڑا کردیا ہے۔ امریکی اور یورپی معیشت کے مسلسل دوسری سہ ماہی میں سکڑنے سے اقوام عالم پر بے یقینی کے بادل چھارہے ہیں۔ واشنگٹن میں کساد بازاری کا امکان 40‘ مغربی ممالک میں55جبکہ ایشیاء میں20 سے 25فیصد کے درمیان لگایاجارہا ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق توقع سے زیادہ افراط زر خاص طورپر امریکہ اور بڑی یورپی معیشتوں میں عالمی مالیاتی حالات میں سختی پیدا کررہا ہے۔ امریکی کساد بازاری اوریوکرین تنازع کے بعد مغربی ممالک کو ان دنوں سخت حالات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے یہی وجہ ہے کہ G-7 ممالک کے رہنما خوراک کے بحران سے متاثرہ افراد کی مدد کرنے‘ غریب ترین ممالک کے قرضوں کو منسوخ کرنے اور موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ میں ترقی پذیر ممالک کی مدد کے لئے ضرورت سے زیادہ کارپوریٹ منافع پر ٹیکس لگانے پر غور کررہے ہیں۔ قبل ازیں یہ کہا جاچکا ہے کہ مغربی فوجی سربراہان اور تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ اگر روس کو مزید جارحیت سے روکنا ہے تو دفاعی اخراجات میں فوری اضافہ کرنا ہوگا لیکن حالیہ دہائیوں میں لگاتار دفاعی کٹوتیوں نے ایسے سوالات کو جنم دیا ہے کہ کیا نیٹو کے پاس مستقبل میں روسی مداخلت کو روکنے کے لئے کافی صلاحیت موجود ہے اگرچہ حال ہی میں برطانیہ کے دفاعی اخراجات میں اضافہ ہوا ہے لیکن خریداری میں بھی بڑے پیمانے پر ضیاع ہوا۔ ماسکو اور بیجنگ کی بڑھتی ہوئی دفاعی صلاحیتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جو دھمکی دی تھی کہ اگر رکن ممالک نے اپنا بوجھ نہ اٹھایا تو وہ امریکہ کو اس اتحاد سے نکال لیں گے اس کا کچھ تو اثر ہوا لیکن یوکرین پر روسی حملے کے بعد اس کے اثرات کافی دکھائی دیئے لہٰذا نیٹو ارکان فی الحال اپنی سالانہ مجموعی قومی پیداوار کا2 فیصد دفاع پر خرچ کرنے کے پابند ہیں لیکن سب ایسا نہیں کرتے۔ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (SIPRI)کے حالیہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ امریکہ نے دفاع پر3.5 فیصد‘ برطانیہ نے 2.2فیصد اور جرمنی نے صرف1.3فیصد خرچ کیا جبکہ اٹلی‘ کینیڈا‘ اسپین اور نیدر لینڈز2فیصد سے کم خرچ کررہے ہیں جبکہ روس اپنی جی ڈی پی کا4.1فیصد دفاع پر خرچ کررہا ہے۔
آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی اجارہ داری سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے مجموعی پیداوار16.39 کھرب ڈالر کے حامل اور تقریباً 3 ارب آبادی پر مشتمل دنیا کی 5 ابھرتی ہوئی معیشتوں نے بین الاقوامی مالی معاملات میں اپنا کردار اور اثر و رسوخ بڑھانے کیلئے ’’برکس‘‘ بینک تشکیل دیا تھا جسے عالمی معاشی نظام کے لئے خطرے کی گھنٹی سمجھا جارہا ہے۔ ترقیاتی بینک کیلئے ابتدائی طور پر سرمایہ کا حجم 50ارب ڈالر رکھا گیا جسے بعد میں 100 ارب ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق ہوا ۔ علاوہ ازیں100 ارب ڈالر کا ایک ایمرجنسی فنڈ بھی قائم کیا گیا جس میں چین نے41 ارب‘ ہندوستان ‘ برازیل اور روس نے 18,18 ارب جبکہ جنوبی افریقہ نے5ارب ڈالرز کا سرمایہ لگانے کی رضامندی ظاہر کی۔ برکس کے وجود میں آنے کی وجہ رکن ممالک کی ابھرتی معیشت اور ان کی اقتصادی طاقت تھی لیکن اس کے 3رکن ممالک روس‘ برازیل‘ اور ہندوستان ان دنوں سخت اقتصادی مندی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ یوکرین جنگ کے بعد مغربی ممالک کی جانب سے عائد کردہ سفارتی و معاشی پابندیوں کے تناظر میں روسی صدر اپنے تعلقات کو مزید گہرا کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں۔ روس اپنے دوست ممالک کے ساتھ تیل کی ترسیل کو ہی بڑھانا نہیں چاہتا بلکہ اس کی کوشش ہے کہ رقم کی منتقلی کا کوئی ایسا متبادل نظام بنایا جائے جس سے ڈالر اور یورو پر انحصار کو کم کیا جاسکے۔ بیجنگ اور ماسکو کے رویے سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ’’ برکس‘‘ اتحاد کو دنیا بھر کے سامنے امریکہ کے بنائے گئے دفاعی اتحاد ’’ ناٹو‘‘ اور ’’ کواڈ‘‘ کے نعم البدل کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں یا سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیجئے کہ اس اتحاد میں رکن ممالک کی تعداد کا بڑھنا امریکی مفادات کے لئے ایک سنگین چیلنج ثابت ہوگا لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ تنظیم کے اجلاس میں کسی بھی ملک کی شمولیت کا فیصلہ ترقی پذیر دنیا کے مجموعی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام تر جغرافیائی و سیاسی تحفظات سے مبرا ہوکر کیا جائے۔
برکس رہنماؤں کے جوہانسبرگ میں ہونے والے حالیہ سربراہی اجلاس کے دوران موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے ترقی پذیر ممالک میں تجارت‘ سرمایہ کاری کے مواقع ‘ جدت کو بڑھانے اور عالمی گورننس کے نظام میں اصلاحات متعارف کرانے کی اہمیت پرزور دیا گیا ہے تاکہ ترقی پذیر ممالک کو زیادہ اہمیت دی جاسکے۔ جنوبی افریقہ نے افریقہ ‘ لاطینی امریکہ‘ ایشیاء اور کیریبین کے60سے زائد ممالک کے سربراہان کو مدعو کیا تھا تاہم روس کے صدر پوتن شریک نہیں ہوئے کیوں کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت نے جنگی جرائم کے الزام میں ان کی گرفتاری کے وارنگ جاری کررکھے ہیں۔ جنوبیافریقہ اس عالمی عدالت کے دستخط کنندہ ممالک میں شامل ہے اور اگر روسی صدر جنوبی آفریقہ آتے تو پوتن کو گرفتار کرنا جنوبی افریقہ پر لازم ہوتا یہی وجہ تھی کہ انہوں نے ’’ ورچول‘‘ یعنی آن لائن شرکت کی۔ ’’ برکس‘‘ کو بین الاقوامی مالیاتی اداروں جیسا کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک میں اصلاحات کے طریقے تلاش کرنے کے لئے بنایا گیا تھا تاکہ ابھرتی ہوئی معیشتوں کے لئے ایک ’ توانا آواز اور نمائندگی‘ کو یقینی بنایاجاسکے۔2014ء میں برکس ممالک نے250 ارب ڈالر کے فنڈز کے ساتھ ڈیولپمنٹ بینک (این بی ڈی) قائم کیا تاکہ ابھرتی ہوئی اقوام کو ترقی کے لئے قرض دیا جاسکے جو ممالک اس گروپ کا حصہ نہیں ہیں جیسے مصر اور متحدہ عرب امارات نے ’’ این بی ڈی ‘‘ میں شمولیت اختیار کی ہے۔ ’’ برکس‘‘ گروپ آف نیشنز میںشامل ممالک اس مسئلے پر غور کررہے ہیں کہ آیا نئے ممبران کو اس اتحاد کا حصہ بنایا جائے یا نہیں۔ جنوبی افریقہ کے مطابق اب40یا اس سے زائد ممالک جن میں ایران‘ ارجنٹینا‘ کیوبا‘ قازقستان‘ ایتھوپیا‘ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور وینزویلا گروپ میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ برازیل اور روس کے سرکردہ سیاستدانوں نے بین الاقوامی تجارت اور مالیات میں امریکی ڈالر کے غلبے کو چیلنج کرنے کے لئے برکس بلاک کے لئے ایک کرنسی بنانے کی تجویز دی تھی۔ برکس کے ذریعہ جہاں چین خودکو گلوبل ساؤتھ کی ایک سرکردہ آواز کے طور پر ظاہر کرتے ہوئے موجودہ بین الاقوامی نظام میں اصلاحات یا اکھاڑ پچھاڑ کا مطالبہ کررہا ہے وہیں ایشیاء پیسیفک خطے میں ہندوستان اس کا حریف ہی نہیں بلکہ وہ خطے میں اپنے اثر و رسوخ کی توسیع روکنے کے لئے امریکہ کے ساتھ مل کر کام بھی کررہا ہے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰

a3w
a3w