حیدرآباد میں فضائی آلودگی خطرناک حد تک بڑھ گئی، اے کیو آئی 220 سے تجاوز، ہیلتھ الرٹ جاری
حیدرآباد میں فضائی آلودگی تشویشناک سطح تک پہنچ چکی ہے، جہاں کئی علاقوں میں ایئر کوالٹی انڈیکس (AQI) 220 ریکارڈ کیا گیا ہے۔
حیدرآباد میں فضائی آلودگی تشویشناک سطح تک پہنچ چکی ہے، جہاں کئی علاقوں میں ایئر کوالٹی انڈیکس (AQI) 220 ریکارڈ کیا گیا ہے۔ ماہرین ماحولیات اور ڈاکٹروں نے خبردار کیا ہے کہ ہوا میں PM10 اور PM2.5 ذرات کی اچانک بڑھتی مقدار صحت کے لیے شدید خطرہ بن چکی ہے، خاص طور پر بچوں، بزرگوں اور دمہ کے مریضوں کے لیے سانس لینا مشکل ہو گیا ہے۔
ماہرین کے مطابق اگر PM10 کی سطح 0 سے 50 کے درمیان ہو تو فضا بہتر سمجھی جاتی ہے، مگر اس وقت شہر کے کئی حصوں میں PM10 کی مقدار 180 سے 200 مائیکروگرام فی مکعب میٹر تک پہنچ چکی ہے، جبکہ PM2.5 کی سطح 150 مائیکروگرام تک ریکارڈ کی گئی ہے۔ یہ باریک ذرات پھیپھڑوں میں داخل ہو کر سانس اور دل کی بیماریوں کا سبب بن سکتے ہیں۔
ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ حیدرآباد میں آلودگی کی بڑی وجوہات میں صنعتی علاقوں سے نکلنے والا دھواں، کچی آبادیوں میں کچرے کو جلانا، اور پیٹرول و ڈیزل گاڑیوں کا دھواں شامل ہے۔ سرد موسم کے باعث آلودگی فضا میں پھنس جاتی ہے، جس سے آنے والے دنوں میں صورتحال مزید بگڑنے کا خدشہ ہے۔
ڈاکٹروں نے شہریوں کے لیے احتیاطی ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ بزرگ افراد اور بچوں کو غیر ضروری طور پر گھر سے باہر نکلنے سے گریز کرنا چاہیے۔ اگر باہر جانا ضروری ہو تو ماسک کا استعمال کیا جائے۔ دمہ اور سانس کے مریضوں کو خصوصی احتیاط برتنے اور تکلیف بڑھنے کی صورت میں فوری طبی مشورہ لینے کا مشورہ دیا گیا ہے۔
ماہرین ماحولیات نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ صنعتی علاقوں میں جدید آلودگی ناپنے والی مشینیں نصب کی جائیں تاکہ حقیقی وقت میں فضائی معیار کی نگرانی ہو سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ الیکٹرک گاڑیوں کے فروغ اور کچرا جلانے پر سخت پابندی کو بھی ضروری قرار دیا گیا ہے۔
دریں اثنا، آلودگی کنٹرول بورڈ کے حکام کا کہنا ہے کہ سرکاری مانیٹرنگ اسٹیشنز کے مطابق صورتحال قابو میں ہے، تاہم کچھ تھرڈ پارٹی ایپس زیادہ آلودگی دکھا رہی ہیں، جس کے باعث عوام میں تشویش پائی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے ڈیٹا کی جانچ جاری ہے۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو حیدرآباد کی فضائی آلودگی صحت عامہ کے لیے ایک بڑا بحران بن سکتی ہے، اس لیے شہریوں اور حکام دونوں کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔