لَو لیٹر کے بدلے 500 پُش اپس! ایک فوجی کی دلچسپ کہانی وائرل (ویڈیو)
کیپٹن سنگھ نے مزید بتایا کہ اس محبت نامہ کو حاصل کرنے کے لئے انہیں اکیڈمی میں ایک دلچسپ چیلنج پورا کرنا پڑا۔ فوجی روایات کے مطابق سینئر افسران تربیت کے دوران جونئرز کو خط اور پارسل دینے سے قبل سخت جسمانی مشقیں کرواتے ہیں۔

نئی دہلی: یہ واقعہ ایک دلچسپ اور منفرد محبت کی کہانی کو بیان کرتا ہے جس نے سوشل میڈیا پر زبردست مقبولیت حاصل کی۔ ایک سابق ہندوستانی فوجی عہدیدار نے اپنی زندگی کا ایک خاص لمحہ عوام کے ساتھ شیئر کیا، جب انہوں نے اپنی محبوبہ (جو بعد میں ان کی اہلیہ بنیں) کا ایک ہاتھ سے لکھا ہوا محبت نامہ (لَو لیٹر) سوشل میڈیا پر پیش کیا۔ اس خط نے نہ صرف انٹرنیٹ پر دھوم مچا دی بلکہ لوگوں کو ایک ایسے زمانے کی یاد دلا دی جب جذبات کو بیان کرنے کے لئے خط و کتابت کا سہارا لیا جاتا تھا۔
محبت نامہ اور 500 پُش اپس کی شرط
یہ واقعہ 2001 کا ہے جب کیپٹن دھرم ویر سنگھ چنئی میں واقع آفیسرز ٹریننگ اکیڈمی (OTA) میں زیر تربیت تھے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ محبت نامہ 10 دسمبر 2001 کو لکھا گیا تھا، یعنی اکیڈمی میں داخلے (1 نومبر 2001) کے ایک ماہ بعد۔ یہ خط ان کی محبوبہ نے لکھا تھا، جسے وہ محبت سے "ٹھاکرائن” کہہ کر پکارتے ہیں۔
کیپٹن سنگھ نے مزید بتایا کہ اس محبت نامہ کو حاصل کرنے کے لئے انہیں اکیڈمی میں ایک دلچسپ چیلنج پورا کرنا پڑا۔ فوجی روایات کے مطابق سینئر افسران تربیت کے دوران جونئرز کو خط اور پارسل دینے سے قبل سخت جسمانی مشقیں کرواتے ہیں۔
انہوں نے کہا: "ہمیں لیٹر لینے کے لیے پُش اپس کرنے پڑتے تھے۔ کبھی 100 اور کبھی 50۔ لیکن یہ خط خاصا بڑا تھا، اس لیے سینئرز نے مجھے 500 پُش اپس کرنے کو کہا۔”
انہوں نے مزید کہا: "یہ میرا اکیڈمی میں پہلا خط تھا۔ اُس دور میں خط لکھنے کا اپنا ہی مزہ تھا۔ لکھنے میں جتنی محنت لگتی تھی، جذبات اتنے ہی دیرپا ہوتے تھے۔”
کیپٹن سنگھ کی جانب سے یہ محبت نامہ اور اس سے جڑی کہانی سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہوگئی۔ انہوں نے ایک ویڈیو میں خط دکھاتے ہوئے اپنی بیوی کے ہاتھ کی خوبصورت لکھائی کی تعریف کی اور اس وقت کے جذبات بیان کئے۔ ویڈیو کو 14 لاکھ سے زیادہ بار دیکھا جا چکا ہے اور سینکڑوں کمنٹس موصول ہو چکے ہیں۔
لوگوں نے اس کہانی کو بے حد پسند کیا۔ ایک صارف نے لکھا:
"میرا خیال ہے کہ بہت سے لوگوں نے اس خط کو پڑھنے کی کوشش کی ہوگی۔ اگر آپ کے پاس مزید خطوط ہیں تو انہیں بھی شائع کریں، وہ یقیناً لاجواب ہوں گے۔”
یہ کہانی نہ صرف ایک فوجی تربیت کی دلچسپ روایت کو بیان کرتی ہے بلکہ ایک ایسے رشتے کی گہرائی اور قربت کو بھی اجاگر کرتی ہے جو آج کے دور میں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔