بھوپال، مسلمانوں کا نہیں ہے، رکن پارلیمنٹ آلوک شرما کے دعویٰ پر تنازعہ
ملک بھر میں نصاب تعلیم میں تبدیلی پرجاری بحث کے دوران مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال میں تاریخ کے مضمون کے تعلق سے نیا تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔
بھوپال: ملک بھر میں نصاب تعلیم میں تبدیلی پرجاری بحث کے دوران مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال میں تاریخ کے مضمون کے تعلق سے نیا تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔
بھوپال کے رکن پارلیمنٹ آلوک شرما نے عوامی پلیٹ فارم پر کہا کہ بھوپال مسلمانوں کا نہیں ہے یہ شہنشاہ اشوک‘ بادشاہ بھوج اور ملکہ کملا پتی کا بھوپال ہے۔ شرما کے بیان پر سیاسی حلقوں میں ہلچل مچ گئی اور مسلم فرقہ کے کچھ لوگوں نے اس تبصرہ پر سخت اعتراض کیا ہے۔
مؤرخین کے مطابق بھوپال کی بنیاد تقریباً 1500 سال قبل گونڈ حکمرانوں نے رکھی تھی۔ بعد میں اس کا نام پرمار خاندان کے بادشاہ بھوج سے جوڑا گیا۔ یہ 14ویں صدی تک گونڈ سلطنت کا حصہ رہا۔
17ویں صدی میں رانی کملا پتی کے دور حکومت میں افغان سپاہی دوست محمد خان نے اس جگہ پر قبضہ کر کے اسلامی حکومت قائم کی جو 1949 تک نوابوں کے ماتحت رہی۔ اس تاریخی پس منظر کی وجہ سے بھوپال کو طویل عرصہ سے ”نوابوں کا شہر“ کہا جاتا رہا ہے۔
اب رکن پارلیمنٹ آلوک شرما کے بیان نے نہ صرف مقامی سیاست بلکہ تاریخ کی تشریح سے متعلق بھی ایک نیا تنازعہ پیدا کر دیا ہے۔